ہر واقعہ محرکات سے جنم لیتا ہے ۔ -اس کا پس منظر کئی
چھوٹی بڑی وجوہات سے جڑا ہوتا ہے ۔ کوئی واقعہ یک دم رونما نہیں ہوتا ۔کوئی
حادثہ لاپروائی کے بغیر انجام نہیں پاتا ۔
انسان کی تخلیق شرف انسانیت کے لئے کی گئی ۔ لیکن یہ انسان جب گر نے پہ آتا
ہے تو حیوانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی بھی
ایک ایسا ہی المیہ ہے جو کہ دنیا بھر میں وقوع پذیر ہو تا ہے ۔ مغربی مما
لک میں اس کی شرح مشرقی ممالک سے زیادہ ہے لیکن قابل افسوس یہ امر ہے کہ اس
نوعیت کے واقعات جب پاکستان جیسے ملک میں ہو جو اسلام کے نام پر حاصل کیا
گیا تو یہ ایک بدنما داغ بن جاتے ہیں اور ساری دنیا میں پاکستان کا امیج
مزید خراب کرتے ہیں۔ چونکہ اسلامی نظام ستر سال گزرنے کے باوجود بھی نافذ
نہ ہوسکا۔ اس لیئے ایسے مجرم دندناتے پھرتے ہیں ۔ اگر ایسے مجرموں کو سرعام
پھانسی دی جاۓ تو یہ زیادتی کے کیسز بھی ختم ہو جائیں ۔ لیکن اوّل تو پولیس
ان مجرموں کو پکڑ تی ہی نہیں اور اگر پکڑ بھی لے تو سزا سے بچ جاتے ہیں ۔
آج کل پاکستان میں "زینب قتل کیس "سرخیوں کی زینت ہے ۔ "زینب "جیسی بے شمار
بچیاں اور بچے اس سے قبل بھی زیادتی کا شکار اور پھر قتل ہوۓ ۔
ایسا کیوں ہو تا ہے سوال یہ ہے !
زیادتی کا شکار ہو نے والے بچے اور بچیوں کی تعداد پانچ سے پندرہ سال کے
درمیان ہوتی ہے ۔ کسی جنونی نفسیاتی انسان کا آسان ہدف کم عمر بچے ہیں ۔
کوئی انسان ایسی قبیح حرکت کیوں کر تا ہے ؟اس کی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ
وقتی تسکین ہے ۔ دوسری اہم وجہ سوچ کی غلط سمت ہے ۔ چونکہ پاکستان میں
مذہبی اقدار رائج ہیں ۔ یہاں بواۓ فریڈ /گرل فرینڈ کا کلچر مڈل کلاس کے
لیول پر ناپسندیدہ ہے اس لیئے ہیجان خیز تجربے سے لطف اندوزی کے لیے کم عمر
لڑ کیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ بہت ساری بچیاں طویل عرصے تک ان جنسی
درندوں کی ہوسِ کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور ڈر کے مارے زبان بند رکھتی ہیں
۔ زیادہ تر کو اغوا کیا جاتا ہے اور پہچان لیئے جانے کے خوف سے قتل کر دیا
جاتا ہے ۔ اپر کلاس میں معاملہ مختلف ہے ۔گھر میں رکھے ہوۓ ملازم خانساماں
، ڈرائیور ، مالی وغیرہ بچے بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں ۔
کبھی کبھی قتل تک نوبت بھی پہنچ جاتی ہے ۔
نچلے طبقے میں اخلاقی اقدار نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔جہالت عام ہے ،روٹی ان
کا مسلۂ ہے لہذا ایسے لوگ یعنی گھریلو ملازم ، خانہ بدوش اور فقیر وغیرہ اس
قسم کی حرکات میں بچپن میں ہی ملوث ہو جاتے ہیں اور ان کی اکثریت "سیکس
ورکر "کے طور ہر بھی کام کر تی ہے ۔ اس طبقے سے تو کوئی امید ہی فضول ہے ۔
امیر طبقے کے والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہے وہ بچوں کو توجہ نہیں
دے پاتے لہذا یہ توجہ جب کسی تھرڈ پرسن سے ملتی ہے اور اسکا آغاز دوستی سے
ہوتا ہے جو بعد میں جنسی زیادتی جیسے مکروہ فعل میں بدل جاتی ہے تو یہ بچے
اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔
مڈل کلاس طبقہ جس کا حصہ "زینب "نامی بچی تھی ۔ اس طبقے میں اغوا اور پھر
قتل کی شرح زیادہ ہے ۔ ماں باپ معاشی جدوجہد میں پھنسے ہوۓ ہیں ۔ بچوں کی
تعداد زیادہ ہے ۔باپ سارا دن گھر سے باہر روزگار کے سلسلے میں مصروف رہتا
ہے تو خاتون خانہ کے پاس بچیوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں ہے ۔ بچیوں کے گھر
سے باہر آنے جانے کی صورت میں ایسے جنسی درندے تاک میں رہتے ہیں ۔ اور
دوستی کا اختتام قتل پہ ہو تا ہے ۔ والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے اور
بچیوں کو گھر سے باہر تنہا مت بھجیں ۔
بچوں کو "گڈ "اور "بیڈ "ٹچ میں فرق بتا یا جاۓ ۔ کسی آشنا کسے اجنبی سے
کوئی چیز لے کے مت کھائی جاۓ ۔ کسی کے ساتھ کہیں مت جایا جاۓ ۔
آج جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں لاقانونیت عام ہے ۔ احتجاج کر نے والوں
پر گولیا ں بر سائی جاتی ہیں ۔ نیٹ تک ہر شخص کی رسائی ہے ۔ غیر اخلاقی
مواد ہر کسی کی دسترس میں ہے ۔ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی صورتحال مایوس کن
ہے ۔ ایسے میں کوئی درندہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیئے کسی سطح تک جا سکتا
ہے ۔ پھولوں کی حفاظت کیجئے ۔ اس سے پہلے کہ کوئی ان کو مسل دے ! |