جناب عیسیٰ کے وصی
حضرت علی ؑ کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے عرض کیا :اے امیرا لمومنین! بیشک
جناب موسیٰ کے بعد ان کے وصی اپنے ساتھیوں کو نشانیاں دکھایا کرتے تھے ا ور
اسی طرح جناب عیسیٰ کے وصی بھی اپنے ساتھیوں کو نشانیاں دکھایا کرتے تھے ۔تو
کیا آپ کوئی نشانی نہیں دکھائیں گے؟
آپ نے فرمایا :تم اپنے ایمان پر باقی نہ رہ پاؤگے۔لیکن جب ان لوگوں کا
اصرار بڑھا توآپ نے ان میں سے نولوگوں کا ہاتھ پکڑااور پتھر کے گھر کی طرف
لے گئے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ایک گیلی نمکین زمین کا مشاہدہ کیا ۔آپ نے
نرم لہجہ کچھ کہا اور اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا اور فرمایا :اپنی مخفی
اشیاء کو ظاہر کرو۔پس ہر وہ چیز جو اﷲ نے جنت کیلئے بیان فرمائی ہے وہ تمام
اشیاء ان کی نظروں کے سامنے اپنی تمام تر خوبیوں وخوبصورتی کے ساتھ حاضر
ہوگئیں۔ان میں سے چار(اپنے ایمان سے ) پلٹ ہو گئے اور کہنے لگے ۔جادو!جادو!صرف
ایک شخص اپنے عقیدے پر باقی رہا ․․․۔(الاختصاص ص۳۲۶)
مفضل نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :قیامت کے دن
’’چار دروز‘‘اﷲ کی طرف ایسی تیزی سے بڑھیں گے جیسے دلہن اپنے حجرے کی طرف
سبقت کرتی ہے :یوم فطر ،یوم اضحی،یوم جمعہ اور یوم عید غدیر ۔عید غدیر ،عید
اضحیٰ اور عید فطر کے درمیان ہے اور روز جمعہ تاروں کے درمیان چاند کے
مانند ہے ۔اﷲ اس روزکروبین ،انبیاء ،پیغمبر،وصی اور اولیاء الٰہی کو غدیر
خم میں لائے گا ۔اس دن ملائکہ کے سردار جبرئیل ،انبیاء کے سردار حضرت محمد
،اوصیاء کے سردار حضرت امیرالمومنین اور اولیاء الٰہی کے سردار جناب سلمان
،ابوذر ،مقداد اور عمارحاضر ہوں گے ۔یہ ایام ان ہستیوں کوجنت میں ایسے
لائیں گے جیسے ایک چرواہا اپنے بھیڑ بکریوں کو پانی اور ہری بھری گھاس کے
میدان میں لے جاتا ہے ۔
میں نے عرض کیا :کیا آپ مجھے اس روز روزہ رکھنے کی اجازت دیتے ہیں ؟
ٓآپ نے فرمایا :ہاں! اﷲ کی قسم ! (امام نے اس جملہ کی تین بار تکرار کی )بیشک
! اسی روز اﷲ نے جناب آدم کی توبہ قبول کی تھی تو آپ نے شکرانہ کے طور پر
روزہ رکھا تھا ۔اسی دن اﷲ نے جناب ابراہیم ؑ کو آگ سے نجات دلائی تھی تو آپ
نے شکرانہ کے طور پر روزہ رکھا تھا ۔اسی دن جناب موسیٰ ؑ نے جناب ہارون ؑ
کو لوگوں کے لئے علم کے مانند نشانی قرار دی تھی ۔تب آپ نے شکرانہ کے طور
پر روزہ رکھا تھا ۔اسی روز جناب عیسیٰ نے شمعون کو جانشین اور وصی کا
انتخاب کیا تھا ۔پس آپ نے شکرانہ کے طور پر روزہ رکھا تھا ۔اسی دن رسول خدا
ؐنے حضرت علی کو لوگوں کے لئے علم کے مانند ایک نشانی قرار دی تھی اور آپ
کی فضیلت اور وصی ہونے کا اظہار کیا تھا ۔آپ نے اس روز شکرانہ کے طور پر
روزہ رکھا تھا ۔یہ دن روزہ رکھنے ،نماز قائم کرنے ،غریبوں کو کھانا کھلانے
اور بھائیوں کے ساتھ ملنے جلنے کا دن ہے۔یہ رحمان کی مرضی اور شیطان کی
ناراضگی کا دن ہے ۔(الاقبال ۴۶۶)
ابن عباس سے روایت ہے کہ جب پروردگار عالم نے اس آیت کو نازل کیا ’’و اوفو
بعھدی اوف بعھدکم ‘‘اور ہمارے عہد کو پورا کرو ،ہم تمہارے عہد کو پورا کریں
گے (سورہ بقرہ؍ ۴۰)
رسول خدا ؐ نے فرمایا :قسم بخدا! جناب آدم نے اپنے فرزندجناب شیث کے سلسلے
میں اپنی قوم والوں سے عہد لیا اورآپ اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن ان کی قوم
نے وعدہ وفا نہیں کیا ۔بیشک ! جناب نوح نے اپنے وصی جناب سام کے سلسلے میں
اپنی قوم والوں سے عہد لیا اور ان کی موت ہوگئی لیکن ان کی قوم نے اس وعدہ
کو وفا نہیں کیا۔بیشک ! جناب ابراہیم نے اپنے وصی جناب اسماعیل کے سلسلے
میں اپنی قوم والوں سے عہد لیا اور اس دنیا سے رحلت کرگئے لیکن ان کی قوم
نے وعدہ وفا ئی نہیں کی۔بیشک !جناب موسیٰ نے اپنے وصی جناب یوشع بن نوح کے
سلسلے میں اپنی قوم والوں سے عہد لیا اور اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن ان کی
قوم نے وعدہ وفا نہیں کیا۔بیشک !جناب عیسیٰ نے اپنے وصی جناب شمعون کے
سلسلے میں اپنی قوم والوں سے عہد لیا اور آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا
لیکن ان کی قوم نے وعدہ وفا نہیں کیا۔عنقریب میں بھی تم سے جدا ہو جاؤ ں گا
اور تمھیں چھوڑ جاؤنگا ۔میں نے بھی حضرت علی ابن ابی طالب کے سلسلے میں
اپنی امت سے عہد لیا ہے لیکن یہ لوگ بھی گذشتہ امتوں کی طرح میرے وصی اور
نائب کی نافرمانی اور مخالفت کریں گے ۔(معانی الاخبارص۳۷۳)
جناب قیس ،مولائے کا ئنات کے غلام سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صفین کے پہاڑ
کے قریب موجود تھے کہ نما ز مغرب کا وقت آچلا توآپ ایک فاصلہ پر گئے اور
اذان دی ۔جب آپ اذان سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ پہاڑ کی طرف سے ایک شخص
آرہاہے، جس کے سر کے بال داڑھی اور چہرہ سفید تھا۔ اس نے کہا:السلام علیک
یا امیرالمومنین ورحمۃ اﷲ و برکاتہ ․․․ اوراس نے آپ کو متعدد لقب سے یاد
کیا ۔آپ نے جواب سلا م دیا اور اس سے احوال پرسی کی ۔اس نے جواب میں کہا
:میں بخیر ہوں ۔میں روح الامین کا منتظر ہوں ۔میں اﷲ کی نگا ہ میں آزمائش
کے وقت آپ سے زیادہ عظیم نام کسی اور کا نہیں جانتا ۔نہ ہی آپ سے زیادہ
باثواب اور نہ ہی اﷲ کے نزدیک آپ سے زیادہ رفیع و بلند کسی کو جانتاہوں ۔اے
برادرر! صبر کروتا ہم تم اپنے حبیب سے ملاقات کر لو۔بے شک میں نے دیکھاہے
جو کچھ بنی اسرائیل والوں نے ہمارے اصحاب کے ساتھ کیا ہے ۔انہوں نے انہیں
جدا جداکر دیااور انہیں لکڑی پررکھ کر لے گئے ․․․۔
پھر وہ اپنی جگہ سے غائب ہوگیا۔اس وقت عمار بن یاسر ،عبدالہیثم ابن تیہان
،ابو ایوب انصاری ،عبادہ بن صامت ،خزیمہ بن ثابت اور ہاشم مرقال آپ کے
پیروکاروں کی ایک جماعت کے ساتھ کھڑے ہوئے اورعرض کیا :اے میرالمومنین!وہ
آدمی کون تھا؟
آپ نے فرمایا :وہ جناب عیسیٰ کے وصی جنا ب شمعون تھے ۔اﷲ نے ان کو میری طرف
بھیجا تھا تاکہ وہ مجھے اپنے دشمنوں کے مقابل محاذآرائی میں صبر دلاسکیں۔
انہوں نے عرض کیا :ہمارے والدین آپ پر قربان ہوں !قسم بخدا ! ہم آپ کی اسی
طرح نصرت کریں گے جیسے رسول خدا کی تھی اور مہاجر و انصار میں سے کوئی آپ
سے سر پیچی نہیں کرے گا مگر شقی ۔پس امیرالمومنین نے کچھ دلجوئی کے الفاظ
ارشاد فرمائے ۔(امالی ،الشخ مفید ص ۴۰۱ ۔۱۰۶ ح ۵)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم)
|