آج سے تقریباَِِچودہ سو سال قبل جب دنیا
میں کفروضلالت،جہالت ، کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی۔بطحاکی سنگلاخ
پہاڑیوں سے رشد و ہدائیت کا ماہتاب نمودار ہوا۔اور مشرق و مغرب، شمال و
جنوب عرض دنیا کے ہر گوشہ کو اپنے نور سے منورَ کیا اور 63سال کے قلیل عرصہ
میں بنی نوح انسان کو اس معراج و ترقی تک پہہنچایا کہ تاریخ عالم پورب سے
لیکر پچھم تک اسکی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور رشد و ہدائیت ،صلاح و
فلاح کی وہ مشعل مسلمانوں کے ہاتھ میں دی جسکی روشنی سے ہمیشہ شاہراہ ترقی
پر گامزن رہے اور صدیوں اس شانِ شوکت سے دنیا میں حکومت کی کے ہر مخالف
قوتَ کو ٹکرا کر پاش پاش ہونا پڑاجو ناقابل انکار ہے ۔ لیکن پھر بھی ایک
پارینہ داستان ہے۔جسکا بار بار دھرانا ، نہ تسلی بخش ہے اور نہ کارآمد اور
مفید ، جبکہ موجودہ مشاہدات اور واقعات خود ہماری سابقہ زندگی اور ہمارے
اسلاف کے کارناموں پر بدنما داغ لگارہے ہیں۔
مسلمانوں کی 1400سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جائے تو معلوم
ہوتاہے کہ ہم عزت و عظمت ، شان و شوکت ، دبدبہ و حشت کے تنہا مالک اور
اجارہ دار ہیں۔ لیکن جب اِن اوراق سے نظر ہٹا کر موجودہ حالات کا مشاہدہ
کیا جاتاہے تو ہم انتہائی زِلت و خواری ، بے ایمانی ، ملاوٹ، لینڈمافیا،
جعلی اودیات، رشوت، بے حیائی ، لاقانونیت ، مردار گوشت فروخت کرنے جیسے برے
عناصر میں مبتلانظر آتے ہیں۔ نہ زورِقوت نہ زور دولت ، نہ شان وشوکت ہے نہ
باہمی ا خَوت و الفت نہ اخلاق اچھے نہ عادات اچھی نہ اعمال اچھے نہ کردار
اچھے ہر برائی میں موجود اور ہر اچھائی سے کوسوں دور اغیار اور دشمن ہماری
اس زبوں حالی پر بہت خوش ہیں اور برملا ہماری کمزوری کو اچھالاجاتاہے۔ بلکہ
خود ہمارے جِگر گوشے نئی تہہذیب کے دلدارہ نوجوان اسلام کے مقدس اصولوں کا
مذاق اڑاتے ہیں۔عقل حیراں ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں
تشنہ ہے ۔ جس قوم نے دنیا کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا آج کیوں غیر مہذب
اور غیر متمدن ہے۔ ہمیں اصل مرض کو پکڑناہے ایسا نہ ہو کہ مرض بڑھتاگیا جوں
جوں دوا کی
ضروری ہے کہ اِن اسباب پر غور کریں جن کے باعث ہم ذِلت و خواری کے عذاب میں
مبتلاکیئے گئے ہیں۔ ہماری اسی پستی اور انحظاط کت مختلف اسباب بیان کیئے
جاتے ہیں اور ان کے اذالہ کی متعدد تدابیر اختیارکی گئیں ہر تدبیر نہ موافق
ناکام ثابت ہوئی جِس کے باعث جسکے باعث ہمارے رہبر بھی یاس و ہراس میں گھرے
نظر آتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ کہ ہمارے مرض کی تشخیص ہی پورے طور پر نہیں ہوئی
یہ جو کچھ اسباب بیان کیئے گئے ہیں اصل مرض نہیں جب تک ہم اصل مرض کی ٹھیک
تشخیص اور اسکا صیح علاج معلوم نہ کرلیں ہمارا اصلاح کے بارے میں لب کشائی
کرنا سخت ترین غلطی ہے۔
ہمار ا یہ دعوی اور اٹل حقیقت ہے کہ ہماری شریعت ایک مکمل قانونِ اِلہی ہے
جو ہماری دینوی فلاح و بہبود تا قیامتٖ ضامن ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم
اپنا مرض خود تشخیص کریں اور خود اسکا علاج شوروع کردیں بلکہ ہمارے لیے یہی
ضروری ہے کہ ہم اﷲ کے کلام سے اپنا اصل مرض معلوم کریں ۔ اور اسی مرکز
رشدوہدائیت سے طریق علاج معلوم کرکے اس پر کاربند ہوں۔
قرآن کریم قیامت تک کے لیئے مکمل دستورالعمل ہے۔
مالک ارض وسماء کا سچا وعدہہے کہ روئے زمین کی بادشاہت اور خلافت مومنوں کے
لئے ہے۔ اور آج سب یہودی مِل کر مسلمانوں کو اصل منزل کی طرف سے ہٹانے کی
کوشش میں لگے ہوئے ہیں-
فلسطین ،شام، کشمیر، برما،عراق تمام ممالک میں مسلمان زلیل و خواری کی موت
مر رہے ہیں۔کیا وجہ ہے خدا ایک قرآن ایک مگر پوری دنیا میں مسلمان ایک
نہیں۔ یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھارہے ہیں۔
حکمران عیاشیوں میں مگن پانی کی طرح دولت لٹا رہے ہیں۔ اور عوام فیس بک،
یوٹیوب، قہوہ خانوں میں شیشہ پینے میں لگے ہوئے ہیں۔آپس میں بیٹھ کر کبھی
امریکہ کو برا بھلاکہتے ہیں اور کبھی اقوامِ متحدہ کوکوستے ہیں۔یورپ میں
150زبانیں بولیں جاتی ہیں مگر سب ایک زبان ہوکر مسلمانوں کی دولت لوٹنے میں
شامل ہیں۔ وہ عرب ملکوں کا تیل پہلے ہی قبضہ میں لے چکے ہیں گیس اور دیگر
معدنیات پر بھی انکی نظر ہے حکمرانوں کی دولت امریکہ اور یورپ میں لگی ہوئی
ہے انکے ملکوں کی تجارت سے وہ اپنے کارخانے چلارہے ہیں اور اپنے کروڑوں
باشندوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔ ہر طرف ان ممالک میں خوشحالی ہے۔اکثر
مسلمان ممالک بقایا دیگر غیریب ممالک کے مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری تصور
کرتے ہیں۔ جب تک مسلمانوں کو ہوش نہیں آئے گا وہ اسی طرح لٹتے اور کٹتے رہے
گیں۔کوئی مسلمان انکی مدد کو نہیں آئے گا۔اور دنیا ئے عالم ان پر ہنستی رہے
گی اور انکا تماشہ بنتا رہے گا۔9/11 کے خود ساختہ واقعہ کے بعد یہ سلسلہ
پھیلتا جارہاہے۔ ان میں سے ایک بھی مسلمان ممالک نے اسرائیل یا یہہودیوں کے
خلاف جہاد نہیں کیا۔ آج فلسطین کا حال دیکھ کر ایک ارب سے زائد مسلمان بے
بس ہیں سلوٹ کے قابل ہے پاکستانی برطانوی نزادخاتون سعیدہ وارثی جنہوں نے
وزرات کو ٹھکرا کر فلسطین کے مسلمانو ں کا سااتھ دیا۔ پاکستان کے پٹروس میں
بھی 12گناہ بڑا دشمن بھارت ہے جو اسرائیل کی طرح پاکستان پر بری طرح نظر
رکھتاہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی سرحدوں پر فوجیں جمع کرکے پاکستان
کو دھمکانے کی کوشش کرتارہاہے۔ مگر اﷲ کے فضل سے ہماری افواج ا ور پاکستان
کی قوتَ اور اگر محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان آئیٹم بم نہ بناتے تو آج
برما، کشمیر کیطرح جب چاہتا قتل و غارت کرکے ہمیں زلیل و رسوا کرتا مگر اس
بنیئے ہندو یعنی ( Cow Urine Drinker )گائے کا پیشاپ پینے والی (CUD) قوم
کو پتہ ہے کہ پاکستان انیٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قابل ہے۔ یہ (CUD) قوم
لاکھ اندرونی بیرونی سازشیں کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا
رہے۔مگر اﷲ نے پاکستان کو اسکی قہر آلود نظروں سے محفوظ رکھاہے۔
خلیجی ممالک کو بھی چاہیئے کہ بلند وبالا آسماں کو چھوتی ہوئی اور گہرے
سمندروں میں زندگی آباد کرنے کی عمارتیں بنانے کی بجائے اسلحہ اور جدید
جنگی سازوسامان بنائیں اور آ ج کی ماڈرن ٹیکنالوجی سے اپنے نوجوانوں کو اگے
لائیں اور انکو فوجی تربیت دیں۔جیسے اسرائیل میں ہر شہری کو فوجی تربیت کی
ٹرنینگ لازمی ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک میں بھی فوجی تربیت کو ہر شہری کے لئے
لازم قرار دیا جائے۔ کیونکہ طاقت کا مقابلہ طاقت سے تو کیا جاسکتا ہے۔ مردہ
آباد یا زندہ آباد امریکہ کے نعروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فلسطین ، شام ،
کشمیر ، برما، پر ظلم عراق مکمل تباہ ۔ افغانستان سے ہمیں سبق سیکھنا
چاہئے۔ ورنہ کل کسی اور اسلامی ملک کی باری آسکتی ہے۔ اﷲ کریم کا حکم ہے
کہــ"اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو" قرآن پاک پر عمل کرکے ہی ہم اپنا
کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ واحد حل ہے جو ہمیں اتھاہ
گہرائی پستیوں سے نکال کر دوبارہ بلند کر سکتاہے۔اور ہمارادین ہمیں اپنی
حفاظت کے لئے تمام ممکنہ اسباب استعمال کرنے کا حکم دیتاہے۔ بقو ل شاعر
مشرق
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارِک قرآن ہو کر |