بدلتے منظرنامے اور بنیادی ضروریات زندگی (1)
(Shahzad Saleem Abbasi, )
وطن عزیز میں جہاں بہت سے شور شرابے،سیاسی
ہنگامے اوردو رخی Paradigm کے چرچے ہیں وہاں انسانی حیات کے بنیادی اجزاء
بارے سوچ و بچارکرنا بہت کم تر بلکہ حقیر سی چیز معلوم ہوتی ہے۔ تعلیم صحت
اور روز گار یہ تینوں اجزائے ضروریہ پاکستان میں عامی کے لیے مفقود
اورتقریبا ناممکن نظر آتے ہیں۔ امریکی سوداگروں نے عرصہ 50سال سے یو این
اسمبلی کی بے وقعت قراردادوں، آئی ایم ایف کی بدمعاشیوں، قرضوں کے گھن چکر
اور دہشت گردی کے عفریت میں جس طرح ہمارا استعمال و استحصال کیا ہے وہ
تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ،جو بدقسمتی سے ہنوز جاری ہے۔ کبھی بھارتی ہٹ
دھرمی نے ہمیں چکمے دیے ہیں، کبھی سوویت یونین کا پھندا ہمار ے سر ڈال دیا
گیا ہے۔ کبھی کارگل میں شرمندگی کا سامنے کرنا پڑا۔کبھی اپنے ہی بھائیوں کو
پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا پڑا ہے۔ اورکبھی دن دھاڑے امریکی خفیہ
ایجنسی کا کمانڈر ہمارے لوگوں کو گولیوں سے چھنی کر کے پرتپاک انداز میں
رخصت ہوا۔ ساؤتھ ایشیائی ممالک میں خصوصی طور پر پاکستان کے ارباب اختیارکو
عالمی منظر نامے کے ہر بدلتے رخ کی بھیانک تصویر کی منظرکشی ضرور کرنا پڑتی
ہے۔ بعض اوقات ہمارے اپوزیشن کے کچھ ارکان اور ریٹائرڈ فوجی افسران بھی
امریکی آشیربادیوں اور ریشہ دوانیوں کا پاکستانی سیاسی و سماجی معاشرے میں
موجودگی کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پاکستان
پرامن اور ترقی پسند ملک ہے جہاں کے لوگ محبت کرنے والے ،ملنسار اور بھلا
کے ذہین وفطین ہیں اور اسلام کو چاہ کر قال اﷲ و قال الرسول کے ترانے گانے
والے ہیں۔ایسے میں چند پالیسی ساز عالمی ادارے ، مفاد پرست ریاستیں اور
بالخصوص متحدہ ہائے امریکہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلا کر پاکستانی عوام
سے امن و سکون چھیننا چاہتے ہیں اور افراتفری کے ذریعے سے ہماری معیشت کے
اشاریوں کو ہلا کر ہم پر اپنا رعب ودبدبہ بھی برقرار رکھنا چاہتے ہی ۔تاکہ
دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کے ساتھ باہمی مفاہمت نہ کرو اور نہ ہی
کوئی تجارت کرو کیونکہ پاکستان’’ سیف کنٹری‘‘ نہیں ہے۔
پاکستان میں بے شمار ناانصافیاں اورمعاشی ناہمواریاں ہیں ۔انفرادی بھی ہیں
اجتماعی بھی۔ڈیپارٹمنٹس میں بھی ہیں اور وزارتوں کے اندربھی ہیں۔ہم اگر ایک
منٹ کے لیے اپنا جائز ہ لیں اور مالک الملک کی بادشاہت اور اسکی حاکمیت
اعلیٰ ہونے کا سوچیں اور خیال کریں کہ اﷲ رب العزت نے ہماری زندگی کو
دنیاوی معاشرے میں رہتے ہوئے کیسے گزارنے کا حکم دیا ہے ؟تو یقیناعامی سے
لیکر ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم تک تقریباسبھی اخلاقی قدروں سے عاری،
کھوکھلے دل ،بے فائدہ جاں،خالی دماغ اوربے کار جسم کے گھسے پٹے پرزے نظر
آئیں گے۔ کراچی سے لیکر خیبر تک، کشمیر سے خیبر پختون خواہ تک، اور گوادر
سے پنجاب اور سندھ تک ، چاروں صوبوں سے تمام اضلاع تک ،تمام ٹاؤنز اور
یونین کونسلوں تک اور قریہ قریہ ہمیں عدل وانصاف کی چادرعشروں سے تارتار
ہوتی نظر آئی گی۔ہم نے قسم کھارکھی ہے کہ معاذاﷲ، اﷲ سے روگردانی اور
احکامات کی حکم عدولی کے معاملے میں شیطان کی ہر کافرانہ چال کی اتباع کرنی
ہے۔کسانوں ، ڈاکٹروں، تاجروں، خواتین، بچوں ، ورکروں اور حتی کے استادوں کو
بھی ناانصافی کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے دیکھاہے کہ
استادوں کی دھلائی کے لیے لاٹھیاں، آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں، واٹر کینن اور
جیل کی سلاخوں سے تواضع کی گئی۔ برگر، کیک ، پیسٹری، آئیسکریم ، کافی ،پیزا،
اوردوسرے کئی قسم کے الٹے سیدھے شوق رکھنے والے حکمرانوں کو کیا خبر کہ ایک
غریب کا چولہا کیسے جلتا ہے؟ ایک غریب بوڑھے کی بیٹی کی شادی کیسے ہوتی ہے؟
صحرائے تھر کے باسی پانچ پانچ دس دس گرام کے بچوں کو بھوکا تڑپتا چھوڑ کر
پالتوکتوں اور بلیوں پر لاکھوں اڑانے والوں کو کیا اندازہ کہ ان کے صوبے
میں کتنے ہزاروں لوگ روزانہ بھوکے سوئے ہوں گے؟ ورثے میں کھربوں کے بینک
بیلنس ہتھیانے والوں کو کیا انداز ہ کہ معصوم ننھے غریب بچوں سے ماں باپ کا
سہارا چھن جائے تو کیسے لگتا ہے؟
آج اساتذہ کرام کی روزانہ توہین و تذلیل ہورہی ہے ۔ ملک وقوم کے معماروں پر
تازیانے برسائے جارہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت آج کل کرپشن کے میگا
اسکینڈل نمٹانے میں مصروف ہیں لیکن جو اچھائی اور کرپشن سے بچنے کا درس
دیتے ہیں اس کے حوالے سکوت معنی خیزہے ۔لوگوں کو زندگی کی حقیقت سے روشناس
کرانے والوں پر جاری ظلم کے حوالے سے جناب عزت ماٰب چیف جسٹس ثاقب نثار کو
سوموٹو لیکر احترام و اکرام کے حامل اساتذہ کے مسائل کو سن کر حل کرانا
چاہیے اور ان کے جائز مطالبات کی روشنی میں احکامات جاری کرنے چاہیں تاکہ
علم کی قندیل اٹھانے والوں کی روشنی مانند نہ ہونے پائے۔ حضور ﷺ کے فرمان
کے مطابق کہ ’’بے شک مجھے معلم(استاد) بنا کر بھیجا گیا ‘‘ اوربقول
اقبالؒ۔گنوا دی ہم جو اسلاف سے میراث پائی تھی ۔۔ثریا نے زمین پر آسمان سے
ہم کودے مارا ۔جاری ہے۔ |
|