نیشنل ازم NATIONALISM یعنی قوم پرستی
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ساقی نے بنا لی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قوم پرستی، وطن پرستی، قوم کا مفاد، وطن کا مفاد یہ مغرب کی تیسری یلغار ،
تیسری تخریب کاری ہے جوسیکولرزم اور لبرل ازم کے بعد امت مسلمہ پر کی گئی۔
اس سے ان کا مقصد یہ تھا مسلم امہ الگ الگ قومیتوں اور ان کی سرزمین مختلف
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جائے اور ان میں واحد امہ کا تصور، مرکزیت ،
اتحاد و یکجہتی ، باہمی تعاون و بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی ہمدردی و خیر
خواہی کا جذبہ بالکل ختم ہو جائے تاکہ ان کو قابو میں اور اپنے زیر تسلط
رکھنا آسان ہو۔ یہ سب اپنے الگ الگ وطنوں اور قومیتوں کو پروان چڑھانے کا
سوچیں، ان کے دوسرے مسلمان بھائی خواہ ڈوب رہے ہوں، بھوکے پیاسے مر رہے ہوں
یا ان پر آگ و آہن کی بارش کی جا رہی ہو ، کوئی دوسرا آکر ان کی مدد و
حمایت نہ کرے۔
مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت ، اچھے برے کی آپ ہی مالک و مختار
ہوں، نیکی وہ ہے جو قوم کیلئے مفید ہو،خواہ وہ جھوٹ ہو،بے ایمانی ہو، دین
سے دوری ہو، اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی ہو، ظلم ہو،فراڈ ہو یا اور کوئی
ایسا فعل ہو جو دین و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا ہو اور بدی وہ ہے
جس سے قوم کے کسی مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو،انصاف ہو، وفائے
عہد ہو، ادائے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز ہو جس کا دین میں حکم ہو لیکن
اگر وہ قوم اور و طن کے کسی مفاد کے خلاف جاتا ہو تو اسے انجام دینا گناہ
تصور کیا جائے۔ ملک کے افراد کی حب الوطنی اور محبت و اخلاص کا پیمانہ یہ
ہونا چاہیے کہ ملک و قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے خواہ
وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق وانسانیت کی
قربانی ہو یا شرافت نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم
ہوکر ملک و قوم کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کوپورا کرنے میں لگے رہیں اور دوسری
قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم و ملک کا جھنڈا بلند کرنے کا جذبہ رکھیں۔
یہ مغرب کا وہ وطن کا خدائی شرکیہ تصور ہے جس نے آج پوری امتِ مسلمہ کو
ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں
تقسیم کر دیا ہے۔ امت پر خلافت عثمانیہ کے دور سے اس کی یلغار شروع کی۔
خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے اس کی ریاستوں میں میر صادق میرجعفر ، اپنے
تابع فرمان ایجنٹ تلاش کیے اور افراد کوحب الوطنی اور قوم پرستی پر
اکسایا۔مصری ، شامی ، عراقی، سعودی،یمنی،عمانی، لبنانی، اردانی، ایرانی ،
افغانی سب کو درس دیا کہ تمہاری اپنی قومی شناخت ہے ، کلچر ہے، ثقافت ہے ،
لسانیت ہے تم ترکی کے زیر اثر خلافت میں کیا کر رہے ہو ؟اس کے زیر اثر
تمہارے ا پنے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا تم نے ہمیشہ ایک مرکز پر
دوسری قوموں کا غلام بن کر رہنا ہے ؟ الگ الگ ہو کے خود مختاربنو، اپنی
اپنی قوم و طن کی شناخت بناؤاور اپنی تمام تر تگ ودؤ اور صلاحیتیں اپنے ملک
و قوم کو پروان چڑھانے میں صرف کرو۔ یوں یہ تصور اور درس دے کراہل مغرب نے
امت کی مرکزیت کو توڑا، خلافت کو ختم کیا، ایک دوسرے کے احساس ، ہمدردی کے
جذ بات کو کچل کر خاک میں گاڑ دیا اور ان کی غیرت کا جنازہ نکال دیا۔اورپھر
اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ پوری امت کو چھوٹی چھوٹی خودمختاری ریاستوں میں
بانٹ کر ان ریاستوں میں بھی انتشار اور نفرت کے بیج بونا شروع کر دئیے
لسانی و نسلی بنیادوں پرکہ تم عربی ہو ، تمہاری نسل دوسروں سے اعلیٰ و برتر
ہے، تم فارسی ہو،تم ازبک ہو، تم ترکش ہو، تم کرد ہو، تم افغانی ہو، تم
سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی
جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی
امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امت کو الگ الگ ٹکڑوں
میں بانٹ کے قومی، لسانی، نسلی ، قبائلی غرور ڈالا جا رہا ہے کہ تم ان کے
مفاد کے خلاف کسی کے آگے نہ جھکنے، سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہ ہونا خواہ
وہ تمہارا حقیقی خدا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دین نبوی ﷺ ہے
مسلمانوں کو پہلے تو وطن و قوم کے نام پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیاپھر
مسلمانوں کو مختلف دینی اور مذہبی عقائد میں تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
مختلف آئمہ دین کے قائل و مقلیدلوگوں کو اکسایا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی
ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور صرف یہاں پر ہی
بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور
گروہ بنا دئیے۔ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا کہ تم اپنا الگ الگ
مسلک، عقیدہ کا نظام، سسٹم اور تحریکیں چلاؤ اور ایک دوسرے کے مخالف جذبات
کو بھڑکاؤ اور اتحاد و یکجہتی کی وباء تک نہ پھیلنے دو۔ آج ہر کوئی اپنی
قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ
یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر
ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی
صورت اختیار کرجاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا جا رہاہے۔
تعمیر کیلئے تخریب کرنا ، مسلمانوں میں انتشار و مخالفت کے جذبات کو
بھڑکاناکفار، یہود و نصاریٰ کی پرانی روش ہے جو حضور ﷺ کے ظاہری دور سے ہی
چلی آتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود اپنے ازلی
دینی دشمنوں کے نہیں پہچان سکے اور نہ ہی ان کی تیز دھار یلغار کے طریقے کو
سمجھ سکے۔ابتداء سے لے کر آج تک کے مسلمان انہی زہریلے سانپوں سے ڈستے چلے
آئے اور آج تک اسی عطارکے لونڈے سے دواء لینے پر مصر ہیں۔
حضور ﷺ کے ظاہری دور میں یہود میں مرشاس بن قیس نامی شخص مسلمانوں سے سخت
دشمنی رکھتا تھا اس نے جب انصار میں محبت اور الفت کا معاملہ دیکھا تو اس
نے ایک یہودی نوجوان سے کہا کہ تم ان کے درمیان بیٹھ کر جنگ بعاث کا ذکر
کرو جو ماضی میں انصار کے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان لڑی گئی تھی تاکہ
ان کی محبت اور الفت قوم پرستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر ختم ہوجائے۔ اس
نوجوان نے مسلمانوں میں بیٹھ کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی یہاں تک کہ
انصار کے دونوں قبائل میں سخت کلامی شروع ہوگئی اور ہتھیار اٹھا کرپھر جنگ
کرنے تک اتر آئے۔ یہ خبر جب حضور ﷺتک پہنچی تو آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ
تشریف لائے اور فرمایا اے مسلمانوں! یہ کیا حرکت ہے کہ تم جاہلیت کے دعوے
کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور خدا نے تمہیں ہدایت دے دی
اور اسلام کی بزرگی بخشی اور جاہلیت کی سب باتیں تم سے ختم کردیں اورتمہاری
آپس میں محبت اور الفت قائم کردی۔ اس وقت دونوں گروہوں کو معلوم ہوا کہ یہ
ایک شیطانی وسوسہ تھا جس میں ہم مبتلا ہوگئے تھے پھر وہ رو پڑے اور آپس میں
ایک دوسرے کے گلے لگے۔اسی طرح کا واقعہ ایک غزوہ میں رونما ہوا جب ایک
انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو دونوں نے
اپنی اپنی قوم کو مدد کیلئے بلایا اس پر باہم لڑائی کی نوبت آپہنچی تو رسول
اللہ ﷺنے ان کے اس قوم پرستی پر مبنی فعل کو جاہلیت کا نعرہ قرار دیا۔ اس
کے بعد ان صحابہ کرام کے درمیان صلح ہوگئی اور وہ قوم پرستی کے اس نعرے پر
نادم ہوئے۔
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی
جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں
کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے
یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے۔ ہمارے آقاو مولا ﷺ نے
قوم پرستی، وطن پرستی کے نعرہ کو عملی طور پر خاک میں دفن کر دیا اور دین
کو قوم اور وطن پر فوقیت دی ، دین کی اشاعت و تنفیذ کی خاطر اپنے وطن، قوم
اور قبیلے تک کو ترک کر دیا۔ جبکہ ہم وطن اور قوم اور مفاد کی خاطر اپنے
دین تک کو ترک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ایک مسلمان ان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے، جس نے بھی اللہ رب العزت کی
وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور کلمہ پڑھا اور اس کی
منشوعات کو پورا کیا وہ مسلمان ہو گیا اب اس کی جان و مال دوسرے مسلمان پر
حرام ہوگئی اور حضور ﷺ نے سچا مومن مسلمان اس شخص کو قرار دیا جس کی زبان
اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور پھر حضور ﷺ نے ایک مسلمان کی جان
مال، عزت وآبرو اور عزت نفس کے تحفظ کوبیت اللہ کے تحفظ و حرمت سے بھی
زیادہ بڑھ کر قرار دے دیا۔حضور ﷺ کا بیت اللہ شریف کی تکریم و حرمت سے بڑھ
کر قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی کسی مسلمان کی تنزلی و
رسوائی کی جسارت نہ کر سکتے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان کعبے کی حرمت
پر تو اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کو تیار ہے مگر اس سے بڑھ کر تکریم کے
لائق مسلمانوں کی شہ رگیں کانٹے پے تلا ہے؟
ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے اور سب سے قیمتی چیز ایمان ہے اور ایمان
کااولین تقاضا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جان ، مال، عزت و آبرو،
مفاد کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دے اور کسی صورت ان سے پیچھے نہ
ہٹے، ان کا سایہ ان دوسرے مسلمان بھائیوں پر بادل کے سائبان اور آسمان کی
چھت کی طرح چھایا رہے ، وہ کسی بھی میدان میں خود کو تنہا اور بے یارو
مددگار تصور نہ کریں۔
ہمارا دین اسلام کسی ذات پات، رنگ ،نسل اور قومیت کی فضیلت ، دولت کی کثرت
اور سرحدی زمینی حقائق کو نہیں مانتا بلکہ صرف اورصرف تقویٰ اور پرہیزگاری
کو ہی فضیلت کامعیار قرار دیتا ہے اورقوم پرستی کی بنیاد پر رونما ہونے
والے اختلافات کا قلع قمع کرتا ہے ۔دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے
اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو
کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ہمارا
دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو
خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق وصداقت کا پرچار
کرے۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہرقسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً
اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ بات ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ
ہمارے پاس رشد و ہدایت کا نور،انوارات کا سرچشمہ ہوتے ہوئے بھی ہم نسلی،
لسانی، قومی،علاقائی نفرتوں کے چپقلش میں پھنسے ہیں۔ اگر ہم اپنے دین کی
تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے
ہرقسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی
یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کیخلاف دین اسلام کی ان تمام
تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی
اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں سیرت طیبہ اور
خلافت رشدہ سے بہترین نصاب اور رول ماڈل کہیں اور نہیں مل سکتا، اور نہ اس
سے بہتر دستور، نہ اس سے اچھا ضابطہ،نہ اس سے عمدہ طریق حیات کہیں سے مل
سکتا ہے۔
آج یہود و نصاریٰ نے باہم مل کر نہایت ہوشیاری و چالاکی سے ہمارے راستوں
میں اتنے زیادہ کانٹے اورجال بچھا دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر
ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم و شعور کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو
بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ قوم پرست، خود غرض، خود نما، مفاد پرست
رہنماوں، حکمرانوں کے دنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔یہ قوم پرست رہنماء کس کے
کہنے پر امت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں
تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ
نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے
اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور
امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی
دعوت ہے۔قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا
بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی
بیماری جو انسان کی جان لے سکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر
ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری امت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے
کی تدبیر نہیں کررہے؟
عرب معاشرہ جو قوم پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا تھاخالصتاً تعلیمات نبویﷺ کی
روشنی میں قومیت کے بجائے وحدتِ امت کے فلسفے سے آشنا ہوا اور اس میں ایک
مثال قائم کی، صحابہ کرام کی جماعت میں حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ، روم کے
صہیب رضی اللہ عنہ،فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ اور اشعرقبیلہ کے موسیٰ
اشعری رضی اللہ عنہ کو وہی مقام حاصل تھا جوکسی بھی قریشی اور مقامی صحابہ
کا تھا ۔ صحابہ کرام نے قومیت کے بدبودار اثرات کو زائل کیا۔ مختلف اقوام
سے متعلقہ افراد رشتہ اسلام کی لڑی میں باہم جڑ کر کفر کے مقابل سیسہ پلائی
دیوار بنے تو اللہ کی نصرت اتری اور بہت کم عرصہ میں اسلام چہار سمت پورے
عالم میں پھیل گیا۔ آج بھی امت کے غلبے کا راز یہی ہے کہ’’ قومیت‘‘ کے
تفرقوں میں بٹنے کی بجائے ’’امت‘‘ بننے کو ترجیح دیں۔ جب مسلمان قوم بٹنے
کے بجائے ایک امت بنے گی تو ان کے غلبے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک
سکتی۔ یہ ایک سچی مومن و مسلم امت سے اللہ کریم کا سچا وعدہ ہے تو پھر اے
مسلماں! اٹھ کھڑا ہو۔ قم باذن اللہ، قم باذن اللہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظّارہ دیرینہ پھر سے زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی! تو خاک میں اس بت کو ملادے |