قصور کی ننھی زینب کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک پر
پورا ملک سوگوار ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بات
کی جارہی ہے۔ پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر طبقے کے
افراد نے اپنے اپنے انداز میں اس واقعے کی مذمت، اس پر تبصرہ اور اس کی
وجوہات پر بات کی ہے۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس واقعے کو اپنے مذموم
مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔
جی ہاں آپ لوگ ٹھیک سمجھے میرا اشارہ موم بتی مافیا کی طرف ہے۔ ننھی زینب
کے واقعے کی آڑ لے کر ایک میڈیا گروپ اور ایک مخصوص لابی احتیاط اور آگاہی
کے نام پر اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن کو فروغ دینا اور اس کو نصاب میں شامل
کرنے کی مہم چلانے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے کئی باتیں غور طلب ہیں۔ان
باتوں کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ جن باتوں کو بنیاد بنا کر یہ
مہم چلائی جارہی ہے اول تو وہ ساری باتیں ہی بے بنیاد ہیں اور دوسری بات یہ
کہ یہاں نام تو آگاہی اور احتیاط کا لیا جارہا ہے لیکن جب قانونی طور پر
سیکس ایجوکیشن کا نام نصاب میں شامل ہوجائے گا تو پھر وہی سیکس کی تعلیم
یہاں بھی دیجائے گی جو کہ دنیا بھر میں سیکس ایجوکیشن کے نام پر اسکولوں
میں دی جاتی ہے۔ یہاں ہم ان باتوں کا جائزہ لیں گے۔
جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ مہم بے بنیاد باتوں پر چلائی جارہی ہے تو اس کا
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ننھی زینب، قصور میں ہونے والے پے درپے واقعات اور پورے
ملک ہونے والے ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سارے کیسز
اغوا، زیادتی اور قتل کے ہیں، یعنی یہ سارے واقعات فوجداری ہیں، ان کی روک
تھام پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ (اس حوالے سے ہم نے ایک
مضمون میں تفصیلی بات کی ہے جو کہ اسی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ جس کا لنک
یہاں دیا جارہا ہے۔) https://blog.jasarat.com/2018/01/13/saleem-ullah-3/
لیکن ان کو ٹھیک کرنے کے بجائے بڑی چالاکی سے ان کی ذمے داری والدین اور
اسکولوں پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان سارے واقعات کا سیکس ایجوکیشن
وغیرہ سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن غیر ملکی فنڈنگ پر چلنے والی
این جی اوز اس کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
اس کا دوسرا نکتہ جس کو یہ مخصوص لابی اپنی بنیاد بنا رہی ہے وہ یہ ہے کہ
جب بچے اپنے والدین سے ایسی کوئی شکایت کرتے ہیں، اپنے ساتھ ہونے والی کسی
زیادتی یا کا بتاتے ہیں تو والدین دقیانوسی رویہ اپناتے ہوئے انکو چپ کراتے
ہیں یا بدنامی کے خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی بالکل بے بنیاد ہے۔
کیوں کہ بدنامی کے خوف سے والدین صرف اس وقت خاموش ہوتے ہیں جب خدانخواستہ
میرے منہ میں خاک کسی کی جوان بچی کی عزت و آبرو کو تار تار کیا جائے۔ بچوں
کے معاملے پر توہم نے میڈیاپر، معاشرے میں، گلی محلے میں، اسکولوں میں یہ
دیکھا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والے ایسے کسی بھی معاملے پر
مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں، بچو ں کے ساتھ ایسے کسی بھی معاملے پر والدین
بالکل بھی خاموش نہیں بیٹھتے۔ اس لیے یہ نکتہ بھی بالکل بے بنیاد ہے۔
بالفرض محال اگر والدین اس موضوع پر بچوں سے بات نہیں کرتے، ان کی بات نہیں
سنتے اور ان کو خاموش رہنے کا کہتے ہیں تو پھر آگاہی یا ایجوکیشن بھی
والدین کی ہونی چاہیے اسکول کے بچوں کی نہیں۔
اب ہم یہاں بات کریں گے سیکس ایجوکیشن کی۔یہاں (پاکستان میں) موم بتی مافیا
بڑی معصومیت سے کہتی ہے کہ سیکس ایجوکیشن کے نام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں
بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو اس حوالے سے آگاہی اور احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ دراصل آگاہی اور احتیاطی
تدابیر کا نام دراصل ایک آڑ ہے، ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ قانونی طور پر سیکس
ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرا لیا جائے تو پھر باقی کام آسان ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکس ایجوکیشن ہے کیا بلا؟ اور لوگ اس کے مخالف
کیوں ہیں؟ جب ہم نے اس حوالے سے انٹر نیٹ کو کھنگالا تو ایسی ہوشربا
تفصیلات سامنے آئیں کہ رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔یہاں ہم کوشش کریں گے کہ تفصیلات
میں جائے بغیر سیکس ایجوکیشن اور اس کے لوازمات کے بارے میں آپ کو بتائیں
تاکہ قارئین کو اندازہ تو ہو کہ یہ مغربی فنڈنگ کے پروردہ لوگ کس طوفانِ بد
تمیزی و بے حیائی کو آواز دے رہے ہیں۔
پہلی بات کہ سیکس ایجوکیشن کی جو تعریف بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے۔
Sex education is instruction on issues relating to human sexuality
(wikipedia)
یہاں غور کیجیے کہ انسٹریکشن یعنی ہدایات کا لفظ استعمال ہوا ہے
awarenessیعنی آگاہی کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ یعنی سیکس ایجوکیشن کا مطلب
ہے کہ انسانی جنسی تعلقات کے معاملات / مسائل کے حوالے سے ہدایات۔اس کے
دیگر اجزا یا مکمل پروگرام میں جو چیزیں شامل ہیں وہ درجِ ذیل ہیں۔
1.human sexual anatomy
2.sexual activity
3.sexual reproduction,
4.age of consent,
5.reproductive health,
6.reproductive rights
7.safe sex
8.birth control
9.sexual abstinence
صرف ان موضوعات کو دیکھیں اور پھر بتایئے کہ ان موضوعات کا بچوں کے اغوا،
ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل جیسے قبیح واقعات سے کیا تعلق ہے؟ جواب ہے
کہ کوئی بھی نہیں۔ تو پھر سیکس ایجوکیشن کے لیے اتنا واویلا کیوں؟ اس کا
جواب ہمیں اوپر موجود نکات میں سے نکتہ نمبر دو، نکتہ نمبر ۷ اور کسی حد تک
نکتہ نمبر ۹ میں ملتا ہے۔ نکتہ نمبر دو میں sexual activity کی تفصیل میں
گئے تو پتا چلا کہ اس میں بتایا جاتا ہے کہ انسان کس کس طریقے سے جنسی عمل
کرسکتا ہے یعنی صنفِ مخالف سے جنسی تعلق قائم کرنا، ہم جنسیت، خود لذتی
(زنانہ و مردانہ) وغیرہ کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔
نکتہ نمبر سات safe sex میں بیماریوں یعنی ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں
وغیرہ سے بچتے ہوئے کس طرح محفوظ طریقے سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے،
اس حوالے سے ہدایات یا رہنمائی دی جاتی ہے۔ اس میں بھی نکتہ نمبر دو کی طرح
سارے طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کون سا طریقہ سب سے محفوظ ہے۔ یہ
بات واضح رہے کہ اس SAFE SEXمیں جنسی تعلقات سے منع نہیں کیا جاتا بلکہ
اپنے آپ کو بیماریوں اور مشکلات سے بچاتے ہوئے کس طرح جنسی تعلقات قائم کیے
جائیں اس کی تربیت دی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ دیگر نکات کا جائزہ لیں و نکتہ
نمبر ایک اور نکتہ نمبر تین تو ہمارے یہاں اسکولوں اور کالجز میں پڑھایا
جاتا ہے،یہ تو بائیلوجی سے متعلق اسبا ق ہیں اور یہ نصاب میں شامل ہیں لیکن
قابل ِ غور بات یہ ہے کہ ان کا بھی بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ جنسی
زیادتی جیسے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ نکتہ نمبر چار، پانچ اور نو
کا بھی ایسے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن موم بتی مافیا اس کے باوجود
نصاب میں اس کو شامل کرنا چاہتی ہے تو اس کا مقصد سوائے بچوں کو قبل از وقت
بالغ کرنے، ان کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے اور معاشرے میں جنسی
انارکی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
آخر میں لگے ہاتھوں اس بات کابھی جائزہ لیتے چلیں کہ کہ مغربی ممالک جہاں
سیکس ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کیاگیا ہے کیا وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے
واقعات رک گئے ہیں؟ جواب ہے کہ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ آیئے کچھ
واقعات اور خبروں کا جائزہ لیں تو صورتحال واضح ہوگی۔
سابق برطانوی فٹبال کوچ اس وقت بچوں سے جنسی زیادتی کے الزمات کے تحت
عدالتی کارروائی بھگت رہے ہیں۔بیری بیٹیل پر بچوں سے زیادتی کے 48 الزامات
ہیں۔
سابق فرنچ انٹر نیشنل فٹبالر سٹیومیر لیٹ کو عدالت کے حکم پر ’’گینگ ریپ‘‘
میں شامل تفتیش کرلیا گیا۔ ان پر کم عمر لڑکے پر جنسی حملے کا الزام ہے۔
برطانیہ جہاں اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے، اس ملک کے باشندے اور
دنیا کے معتبر ترین سمجھے جانے والے نشریاتی ادارے کے نمائندے جمی سوائل کے
انتقال کے بعد پتا چلا کہ انہوں نے اپنے کیرئر کے دوران 450 لوگوں بشمول
بچوں سے جنسی زیادتی کی۔
چند ماہ پیشتر دنیا کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ آسکر کی کمیٹی کے ایک رکن
وڈیوسر ہاروی وائنسٹن کی رکنیت ہالی وڈ کی متعدد اداکاراؤں کو جنسی طور پر
ہراساں اور ریپ کا نشانہ بنانے کی بنیاد پر معطل کردی گئی۔ 65سالہ ہاروی
وائنسٹن پر کم سے کم 22 اداکاراؤں، ماڈلز و دیگر خواتین نے جنسی ہراسگی اور
ریپ کے الزامات عائد کیے ہیں، جس کے بعد ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔(واضح
رہے کہ موم بتی مافیا سے تعلق رکھنے والی شرمین عبید چنائے کی فلم کو بھی
آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔)
یورپ اور جنوبی امریکہ میں حکام نے واٹس ایپ کے ذریعے بچوں کے جنسی استحصال
پر مبنی تصاویر کو تقسیم کرنے والے نیٹ ورک کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا
ہے۔(بی بی سی اردو19 اپریل 2017)
انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی مواد کے معاملے میں یورپ سرفہرست : رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ غلط مواد کی نشاندہی اور اس کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے تاہم
انٹرنیٹ پرغلط مواد کم نہیں ہورہے ہیں۔ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ
اطفال کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے معاملے
میں یورپ گلوبل ہب بن رہا ہے۔انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن (آئی ڈبلیو ایف) نے اپنی
سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں غلط استعمال والے مواد کا 60 فیصد
اب یورپ میں پایا جاتا ہے جو کہ پہلے کے مقابلے 19 فیصد زیادہ ہے۔آئی ڈبلیو
ایف نے کہا ہے یورپی ممالک میں غیر قانونی مواد ڈالنے کے معاملے میں
نیدرلینڈز سرفہرست ہے۔ (بی بی سی اردو 3 اپریل 2017)
برازیل: ’بچوں سے جنسی رغبت‘ کے الزام 108 افراد گرفتار:برازیل کی پولیس نے
کہا ہے کہ انھوں نے لاطینی امریکہ میں بچوں سے جنسی رغبت رکھنے والوں کے
خلاف آج تک کے سب سے بڑے آپریشن میں 108 افراد کو گرفتار کیا ہے۔مشتبہ
افراد کو برازیل کے دارالحکومت سمیت ملک کی 24 ریاستوں سے گرفتار کیا گي ا
ہے۔
وزیر انصاف ٹورکوٹو جارڈم نے کہا کہ گرفتار کیے جانے والے افراد میں بچوں
سے منسلک جنسی مواد کو کمپیوٹر اور موبائل پر شیئر کرنے والے گروہ کے افراد
شامل ہیں۔(21 اکتوبر 2017)
دی نیشنل سوسائٹی فار دی پریوینن آف کریولٹی ٹو چلڈرن کی ایک رپورٹ کے
مطابق2010ء میں انگلینڈ اور ویلز میں12172افراد بچوں کے ساتھ ظلم یا غفلت
کے مخصوص جرم پر مجرم پائے گئے یا ان کو کاشن دیا گیا۔(روزنامہ جنگ پیر 15
جنوری)
یہ ساری تفصیلات اس بات کی دلیل ہیں کہ جنسی تعلیم ایسے واقعات کو روکنے کا
ذریعہ نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کی روک تھام فحش جنسی مواد کی روک تھام،
سخت قوانین، قوانین پر عمل اور سزاؤں پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہوسکے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور اسلامی
تعلیمات پر عمل کیا جائے، ٹی وی چینلز پر معصوم بچیوں کو نچانے کا سلسلہ
بند کیا جائے، میڈیا کے ذریعے فحاشی کا فروغ بند کیا جائے ۔ جب تک ہم برائی
کی جڑ کو ختم نہیں کریں گے ، اس وقت تک یہ حادثات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف
شاخیں کاٹ کر مطمئن ہوجائیں گے۔ |