برصغیری معاشرے میں جوان بیوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں ۔
ایک وہ جن کے شوہر مر جاتے ہیں دوسری وہ جن کے شوہر زندہ ہوتے ہیں دنیا میں
موجود ہوتے ہیں مگر نہ ہونے کے برابر ۔ اور اس نہ ہونے کی بھی دو قسمیں
ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے متعدد محرکات اور وہ مؤقف جو عورت کو عالم برزخ
کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اور ہمارے سماج میں اس نام نہاد اخلاقی
مؤقف کی جڑیں کتنی مضبوط و توانا ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ صرف ایکبار ملنے والی زندگی کے بہت سارے قیمتی اور سنہرے سال
ندی کے دو کناروں کی طرح گذار دیئے جاتے ہیں کہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پھر
بھی تنہا ہیں اور ایکدوسرے سے دور اور جدا ہیں ۔
دنیا میں موجود مردوں کی بیوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں
نمبر۱: کنواری بیوائیں ۔ ۔ ۔ نمبر۲: شادی شدہ بیوائیں
کنواری بیواؤں کی بھی دو قِسمیں ہوتی ہیں ۔ ہمارے سماج میں اکثر ہی نوجوان
لڑکے لڑکیوں کا نکاح کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اور رخصتی کو یا تو تعلیم کی
تکمیل تک یا پھر تمام رسومات بلکہ خرافات و لغویات پر اٹھنے والے اخراجات
کی فراہمی تک مؤخر کر دیا جاتا ہے ۔ اور شرعاً کوئی قباحت نہ ہونے کے
باوجود ایک نکاح یافتہ جوڑے کو سالہا سال ایکدوسرے سے دور اور الگ رکھا
جاتا ہے اور کئی کیس ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ رخصتی میں غیر
ضروری تاخیر کی بدولت دونوں خاندانوں میں کوئی غلط فہمی یا اختلافات پیدا
ہو گئے اور نکاح توڑ دیا گیا ۔ ایک جوان جہان کنواری لڑکی گھر بیٹھے بیٹھے
ہی پہلے بیوہ ہوئی اور پھر طلاق یافتہ بھی کہلائی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ
لڑکوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی وہ بھی مفت میں پہلے رنڈووں والی زندگی
گذارتے ہیں اور پھر طلاقچی بھی کہلاتے ہیں لیکن اس وقت ہمارا موضوع ہمارے
معاشرے میں پائی جانے والی انواع و اقسام کی جواں سال بیواؤں کے بارے میں
ہے فی الحال اس تحریر میں صرف انہی کے بارے میں بات کریں گے ۔
ایک اور بڑا مشہور اور خاص رواج جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ بسلسلہء روزگار
بیرون ملک مقیم نوجوان کا گھر والوں نے رشتہ طے کر کے نکاح کر دیا اور
رخصتی کو اس کی اگلی بار آمد یا لڑکی کی بھی بیرون ملک روانگی کی کاغذی
کارروائی مکمل ہونے تک مؤخر کر دیا گیا اور پھر سالوں گذر گئے نہ لڑکا واپس
آتا ہے نہ لڑکی کو بلاتا ہے امریکہ و یورپ میں تو ایسے کیس عام دیکھنے میں
آتے ہیں اور بیشتر کا نتیجہ طلاق ہی کی صورت میں برامد ہؤا ہے بہت سے تو
پہلی والی کو طلاق دینے سے پہلے ہی یہاں دوسری شادی کر لیتے ہیں ۔
اور ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں کہ لڑکی کی رخصتی کرا لی گئی اب ایک
بہت مختصر و عارضی سی رفاقت کے عوض اسے سالوں کی جدائی اور تنہائی سے نواز
دیا جاتا ہے ۔ ایک بیوہ کو تو صبر آ جاتا ہے مگر ایک نام نہاد سہاگن روز
جیتی ہے روز مرتی ہے ۔ اور عام طور پر ایسی لڑکی کی سسرال میں حیثیت کسی
ملازمہ سے زیادہ نہیں ہوتی ۔
کنواری بیواؤں کی دوسری قسم ان بدنصیب لڑکیوں پر مشتمل ہے جن کی شادی بھی
ہوئی دھوم دھام سے رخصت بھی ہوئیں مگر ان کے شوہروں میں جرأت نہیں تھی کہ
کسی کی بیٹی کی زندگی خراب کرنے سے پہلے گھر والوں کو اپنی اوقات بتا دیتے
کہ وہ کتنے پانی میں ہیں؟ اب یا تو وہ لڑکی اپنی اور اپنے گھروالوں کی عزت
کی خاطر صبر کی سل رکھ کر زندگی بسر کرے یا خلع کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا
لے ۔ ایسے واقعات اگرچہ بہت زیادہ تعداد میں پیش نہیں آتے مگر ان میں بھی
طلاق کے باعث ذلت و رسوائی عورت ہی کا مقدر بنتی ہے ۔
شادی شدہ بیواؤں کے ضمن میں ہم مختصراً چند واقعات کا ذکر کریں گے ۔ ایک
لڑکی کی شادی ہوئی شوہر واپس ایک یورپی ملک کو چلا گیا گھر والوں کے فرائض
تو پورے کرتا رہا مگر بیوی کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں نہ اس بات سے کوئی
سروکار کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ اس کی منکوحہ سے کیا سلوک کر رہے ہیں؟
سالوں انہی حالات میں گذر گئے لڑکی بہت بیمار ہو گئی تو والدین اپنے ساتھ
لے گئے ۔ دس سال گذر چکے ہیں لڑکی طلاق لینے پر راضی نہیں کہ اب میں کون سا
کسی کے کام کی رہ گئی ہوں اور شوہر اس کے مطالبے کا منتظر کہ مانگنے پر ہی
دے گا ۔ دوسری شادی کر چکا ہے جس سے بچے بھی ہیں ۔ ایک اور جاننے والی
پختون فیملی میں لڑکی کی شادی کے بعد شوہر دو ہفتے رہا اور پھر کینیڈا چلا
گیا ایک مفت کی نوکرانی اپنے گھر والوں کے سپرد کر کے ۔ آپ یقین کریں یا نہ
کریں چودہ سال تک تو وہ واپس نہیں آیا تھا اس کے بعد کی ہمیں خبر نہیں ۔
طلاق بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ لڑکی کے وارثوں نے ولور کے نام پر پانچ لاکھ
روپے وصول کئے تھے ۔ اسی طرح ایک اور جاننے والوں میں ایک بچی کی خاندان
میں ہی شادی ہوئی اور کچھ ہی عرصے میں یہ بات کھل گئی کہ یہ شادی کسی پرانے
بغض و حسد کا بدلہ لینے کے لئے انتقامی کارروائی کے نتیجے میں ہوئی ۔ لڑکا
ایک بہتر انسان تھا مگر اس کی ماں بہنوں نے اسے بدتر بنانے میں کوئی کسر
اٹھا نہیں رکھی ۔ اسی کشمکش و چپقلش کی فضا میں دو بچے بھی ہو گئے اور
بالآخر وہ انہیں باپ کی زندگی ہی میں یتیم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔ وہ
بچی چار سال سے اپنے والدین کے گھر پر ہے شوہر نے پلٹ کر خبر نہیں لی اپنی
ماں بہنوں کا پٹھو طلاق دینے پر بھی راضی نہیں ہے ہاں خلع دینے پر بخوشی
آمادہ ہے تاکہ بےغیرت مہر اور بچوں کی حوالگی یا ان کے خرچے کی ادائیگی سے
بچ جائے ۔
اسی طرح خوف خدا سے عاری اور آخرت کی پوچھ پکڑ سے بےنیاز ایک گھرانے سے
تعلق رکھنے والا بسلسلہء ملازمت سعودی عرب میں مقیم شخص شادی کے بعد تیس
سال میں تیس مہینے بھی اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہا ۔ جب تک زندہ رہا بیوی
کو بیوہ کر کے اپنی شادی شدہ بہنوں کے گھر چلانے میں لگا رہا بیوی کو پاس
بلانا تو رہا درکنار اس غریب کو حج یا عمرہ تک نہیں کرایا ۔ ہمارے اپنے چند
دور قریب کے رشتہ داروں میں ایسے کیس ہو چکے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکا غیر
ذمہ دار نکلا اختلافات کے باعث لڑکی گھر آ بیٹھی اور سالہا سال اس کے نام
پہ گذار دیئے ۔
آپ نے بھی اپنے ارد گرد ضرور اس طرح کے واقعات دیکھے ہونگے یہ موضوع بہت
تفصیل طلب ہے ایک عام سے سماجی مسئلے پر ہم نے حتی الامکان مختصر لکھنے کی
کوشش کی ہے ۔ ایک اور متوازی صورتحال کے تذکرے کی ہماری یہ تحریر متحمل
نہیں ہو سکتی تھی ۔ تصویر کا دوسرا رخ پھر کبھی سہی ۔ |