اسی جہاں کی پیداوار ہے یہ ابلیس کا فرزند

سانحہ قصور کے بارے میں پچھلے روز دل پر پتھر رکھ کر ایک کالم لکھا لیکن دل کی بھڑاس نہ نکل پائی۔ننھی زینب منوں مٹی تلے جا چھپی۔اس معصوم کو کیا خبر تھی کہ مرنے کے بعد وہ جی اٹھے گی۔اس جہان فانی کو خیر باد کہنے کے بعد لاکھوں دلوں میں بس جائے گی۔لاکھوں آنکھوں سے اشک ندامت بن کر بہے گی۔کئی اخباروں کی شہ سرخیوں میں بے بسی کا استعارہ بن کر ہم سب کو آئینہ دکھائے گی۔وہ ننھی معصوم جان جاتے جاتے دل میں احساس کے کئی چراغ جلا گئی اور اس روشنی میں خود کو دیکھیں توہمیں اپنا آپ بہت بھیانک اور وحشت ناک لگ رہا ہے۔ خدا کی حکمت کا کیا پتہ کہ کس دانے نے کس چکی میں پس کر کس بھوکے کی بھوک مٹانی ہے۔کیا بعید کہ اس ننھی معصوم پری کا ظلم کی چکی میں پسنا ہم بے حسوں کے مردہ ضمیر کے جینے کا سبب بن جائے۔اس موضوع پر نثر و شعر میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ہر دل سوگوار ہے۔ہر شخص اپنی اپنی دانست میں اپنے دل پر گذرنے والی قیامت پر نوحہ کناں ہے۔اپنی ننھی منی بیٹیوں کو دیکھتے ہیں تو زینب یاد آتی ہے۔گھر میں گڑیوں کو دیکھتے ہیں تو زینب کے کمرے میں اداس پڑی گڑیوں کا خیال آتا ہے جو اس کے ماں باپ کو روز ایک نئی موت سے دوچار کریں گی۔روز غم کے ایک نئے جہان کا در کھول کر انہیں اس میں دھکا دیں گی۔اور انہیں زندگی بھر اس غم سے راہ فرار کا کچھ اختیار نہ ہو گا۔ ا س قوم کو غم منانے کی عادت سی پڑ گئی ہے اور اس سے بڑھ کر اس غم کو بھول جانے کی عادت ہے۔ہر دل صدمے سے دوچار ہے لیکن محض جذباتی ہونے سے کام نہیں چلنا۔اس جذباتیت سے فائدہ اٹھا کر کچھ ایسا کرنے کی شروعات کرنی ہے کہ آئیندہ کسی اور زینب کے نصیب پر حیوانیت کے منحوس سائے نہ پڑیں۔قوم کو جاننا ہو گا کہ لاشوں پر ماتم کرنے سے قاتل کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔قوم کو جاننا ہو گا کہ مقتول کی یاد میں شمعیں روشن کر کے ذمہ داریاں ادا نہیں ہوتیں۔اس روش کو ترک کرنا ہو گا کہ کسی گھر سے قوم کی بے حسی کا جنازہ اٹھے تو فقط اتنا ہو کہ لکھنے والوں کو بہترین موضوع مل جائے،ان کے اندر کی سخن وری کو داد لینے کا مواد ہاتھ آ جائے۔جس پر قلم فرسائی کر کے ان کی زبان و بیان کی خامیاں دور ہو جائیں۔شاعر نظموں کو لفظوں کی مرصع کاری سے سجا سجا کر اپنی واہ واہ کرواتے پھریں۔میّتوں پر لفظوں کے چڑھاوے چڑھانے سے قتل نہیں رکنے والے۔بلکہ اب صحیح معنوں میں مل کر یہ سوچنا ہو گا کہ عملی بنیادوں پر ایسے گھناؤنے واقعات کے در پردہ محرکات کا تدارک کیسے کیا جائے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ آپ کے بحرِ دانش میں فکر کا ایک کنکر پھینکنا چاہتا ہوں کہ کیا بحیثیت مجموعی ہم سب اخلاقی پستی اور گراوٹ کا شکار نہیں ہو گئے؟ہماری اپنی آنکھوں میں حیاء کا معیار کیا ہے؟ہماری نگاہوں سے اس قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کتنی محفوظ ہے؟ان سوالات کے جوابات میں ہی زینب کا قاتل پوشیدہ ہے۔کیا اب بھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہمیں سڑکوں کی تعمیر سے ذیادہ اسلامی شعار و نظریات سے مزین درسگاہوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ملک میں اسلامی اقدار کا فروغ چاہیے۔اسلامی ضابطہ حیات کے مطابق سزاؤں پر عمل درآمد چاہیے۔اس قوم کے بچوں کی گناہوں تک رسائی کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ذرا سوچیں کیا وہ درندہ کسی کا بیٹا نہیں ہو گا،کسی کا بھائی نہیں ہو گا۔کیا اس کی ماں نے اس مردود کو اس لئے جنم دیا تھا کہ جب وہ جوان ہو تو لعنتوں کے طوق اس کے گلے میں ڈالے جائیں۔وہ نفرت کا استعارہ بن جائے۔وہ درندہ مریخ یا مشتری سے نہیں آیا بلکہ اسی اخلاقی تنزلی کا شکار ہوئے معاشرے کی پیداوار ہے۔بس ہوا کیا کہ اس کے اندر کی حیوانیت انسانیت کی سرحدیں توڑ کر عیاں ہو گئی اور نجانے کتنے لوگوں کے اندر کے خونخوار بھیڑیے ابھی شرافت کے جھوٹے لبادوں میں پر تول رہے ہیں۔زینب کے بہیمانہ قتل کا ذمہ دار وہ قاتل تو ہے ہی لیکن ساتھ میں ہر وہ شخص بھی ذمہ دار ہے جو اسلامی سزاؤں کے نفاذ کی راہ میں مانع رہا۔ہر وہ شخص ذمہ دار ہے جس نے پہلے قاتلوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے میں تساہل سے کام لیا۔ہر وہ ادارہ ہے جس نے اس ملک کے نظریات سے غداری کی اور فحاشی کو فروغ دیا ۔ایک عام سی چیز بھی جب نسوانیت کی نمائش کی آڑ میں بیچی جائے گی،جب غیر اسلامی تہواروں کو کھلم کھلا منانے کی آزادی ہو گی۔جب میڈیا پر ویلنٹاین ڈے جیسے بیہودہ ایام کو علی الاعلان منایا جائے گا تو ایسے حیوانوں کا منظر عام پر آنا کون سے اچھنبے کی بات ہے۔یہ روش بھی ترک کرنا ہو گی کہ ظلم کے خلاف بڑے زور و شور سے آواز تو اٹھائی جاتی ہے مگر ہم سب ظالم کے گریبان تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے مفادات کے کنویں میں گر کر غرق ہو جاتے ہیں۔ہر کوئی یہ سوچتا ہے کسی کی خاطر دشمنی مول لینے میں بھلا کیا فائدہ۔ٹھیک ہے یہ ظالم ہے مگر اس نے ذاتی طور پرمیرا کیا بگاڑا ہے۔اس کی ذات سے جڑے مفادات کا گلا گھوٹنا کہاں کی عقلمندی ہے۔اور یہ سطحی گھٹیا معروضی سوچ ظالم کے گریبان پر قانون کی گرفت کو کمزور کر دیتی ہے۔اسلامی سزاؤں کے خلاف محاذ آرائی کرنے والے اور ان سزاؤں کو سخت سزائیں کہہ کر انحراف کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بیمار مفلوج عضو کو تو ڈاکٹر بھی کاٹ کر جسم سے جدا کر دیتا ہے،اس پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ سب سمجھتے ہیں کہ جسم سے اس ماؤف عضو کا قطع کرنا ہی باقی جسم کی سلامتی کی امید ہے۔اسی طرح جب کسی ظالم کو سرعام چوراہے میں پھانسی دے کر مقام عبرت بنایا جائے گا تو آئیندہ کسی کو ظلم کرنے کی جرات نہ ہو گی۔فرمان حق ہے کہ اگرتم پروردگار پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو ظالم کو سزا دیتے وقت تمہیں ترس بھی نہیں آنا چاہیے۔ ان سزاؤں پر عمل درآمد میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے جرائم کی مکمل روک تھام کی راہ نکلتی ہے جو کسی اور صورت میں ممکن نہیں ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرم کے ساتھ ساتھ مجرم کی پشت پناہی کرنے والے ہاتھ بھی کاٹے جائیں۔ اس معاشرے کی گرتی دیواروں کو اسلام کے ستون کی ضرورت ہے،سوچیں اسلام سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی اور اسلامی تربیت کے بعد وہ معاشرہ مثالی بن گیا اوراس میں رہنے والے افرادِ قدس دنیا کے امام بن گئے۔ورنہ بات تو سچ ہے کہ۔۔بقول راقم
نہیں درندہ یہ کسی اور سیارے کا باشندہ
اسی جہاں کی پیداوار ہے یہ ابلیس کا فرزند

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 29705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.