ایوان صدرمیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیراہتمام
شائع ہونے والی کتاب ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے اجراپرخطاب کرتے ہوئے صدرممنون
حسین نے کہا ہے کہ انتہاپسندی کے سدباب اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم
کامتفقہ بیانیہ جاری کردیاہے۔صدرممنون حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستانی قوم کابنیادی بیانیہ آئین پاکستان ہے جوبابائے قوم قائداعظم
محمدعلی جناح کے افکارکی روشنی میں تیارکیاگیا کہ جس پرپوری قوم
کااعتمادہے۔جب کہ علماء کا فتویٰ اس کی وضاحت اورتائیدہے۔انٹرنیشنل اسلامل
یونیورسٹی کے زیراہتمام شائع ہونے والی اس کتاب ’’ پیغام پاکستان‘‘اٹھارہ
سو سے زائدعلماء کرام کامتفقہ فتویٰ شائع کیاگیا ہے۔اس متفقہ فتویٰ میں
دہشت گردی ،خون ریزی اورخودکش حملوں کوحرام قراردیاگیا ہے۔اسلام معاشرہ میں
فسادپھیلانے، کسی جان کو ناجائز اوربغیرکسی جرم کے قتل کرنے اورخودکوجان سے
مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔جس اسلام میں راستہ سے تکلیف دہ چیزہٹانے پرمسلسل
ثواب ملتا ہووہ کسی کوناجائز جان سے مارنے کی اجازت کیسے دے سکتاہے۔اٹھارہ
سوعلماء کرام نے تودہشت گردی کے خلاف اب فتویٰ جاری کیاہے۔قرآن پاک میں
توآج سے چودہ سو سال پہلے ہی دہشت گردی کی مذمت اوردہشت گردوں کی حقیقت
بتائی جاچکی ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ ’’اورجب ان سے کہا
جائے کہ زمین پرفسادنہ کرو(دہشت گردی نہ پھیلاؤ) تووہ کہتے ہیں کہ ہم
تواصلاح کرنے والے ہیں۔ خبرداریہی لوگ فسادی (دہشت گرد) ہیں لیکن یہ
شعورنہیں رکھتے۔ ایک اورمقام پرقرآن پاک میں ایک انسان کے قتل کوپوری
انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیاگیا ہے۔صدرمملکت نے کہا کہ پاکستان کاآئین
قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کومضبوط بنیادفراہم کرتاہے۔ہماراآئین
ہی ہمارابنیادی بیانیہ ہے کیوں کہ اس کی بنیادقرآن وسنت کی تعلیمات
اوربابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکارپررکھی گئی
ہے۔اس لیے یہ ہماری پہلی ذمہ داری ہے کہ اپنی اس بنیادکومضبوطی سے تھام
لیں۔پاکستانی قوم کے اس متفقہ بیانیہ آئین پاکستان کومضبوطی سے تھام
لیاجاتا توپاکستان آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکاہوتا۔ہم نے اس
آئین کواپنے حق اورمخالفین کے خلاف استعمال کیا ہے۔جب بھی اس آئین کی کوئی
شق ہمارے مفادات میں رکاوٹ بنی ہم نے اس میں ترمیم کرکے اپنے مفادات کی راہ
ہموارکرلی۔ہم نے خودکوآئین کے مطابق ڈھالنے کی بجائے آئین کواپنے مطابق
ڈھالنے کی پلاننگ کی۔صدرمملکت ممنون حسین کاکہناتھا کہ پیغام پاکستان کے
نام سے مرتب کیے جانے والے فتوے میں تمام دینی مکاتب فکرنے قرآن وسنت کی
روشنی میں باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ایک اچھی دستاویزمرتب کردی ہے جس کے
ذریعے فرقہ واریت اور دین کوفسادفی الارض کے لیے استعمال کرنے دلیل
ردہوجاتی ہے اوراسلام کاحقیقی چہرہ سامنے آتاہے۔اس کامیابی پرایل علم مبارک
بادکے مستحق ہیں۔علماء کرام توپہلے سے ہی دہشت گردی کے خلاف ہیں اوردہشت
گردی سے سب سے زیادہ متاثربھی یہی علماء کرام ہی ہوئے ہیں۔ان علماء کرام
کوہی ملک دشمن عناصرکی سازشوں کے نتیجہ میں ہی دہشت گردی کاذمہ
دارسمجھاجاتا رہا ہے۔اس متفقہ فتویٰ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ علماء کرام
دہشت گردی کے ذمہ دارنہیں بلکہ اس کے سخت خلاف ہیں۔دین اسلام کودہشت گردی
کے لیے وہی استعمال کرتے ہیں جواسلام کودہشت گردی کاموجب قراردلوانے کی
سازشیں کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے دہشت گردوں ،ان کے سرپرستوں اورسہولت کاروں
کادین اسلام سے دوردورکابھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔اسلام کے نام پردہشت گردی
پھیلانے والے مسلمان نہیں مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہیں۔ممنون حسین
کاکہناہے کہ اس متفقہ فتویٰ سے اسلام کاحقیقی چہرہ سامنے آتاہے۔اسلام
کاحقیق چہرہ توپہلے ہی سامنے اورواضح ہے۔اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے حقیقی
چہرے کوچھپانے اوراسلام کے چہرے کے نام پراپناچہرہ سامنے لانے کی سازشیں
کررہی ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ علماء کرام کے متفقہ فتوے پیغام پاکستان
کابیانیہ ان لوگوں کی اصلاح کاذریعہ بھی بنے گاجوبعض ناپسندیدہ عناصرکے
منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر راستے سے بھٹک گئے تھے۔مجھے یقین ہے کہ اسلام
کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں دیاگیایہ فتویٰ ان کی قلب ماہیت اورآخرت میں
فلاح کاراستہ ہموارکرے گاا ن شاء اللہ۔پوری قوم کی یہی دعاہے کہ جولوگ کسی
بھی حوالے سے ملک دشمن عناصرکاساتھ دے رہے ہیں وہ راہ راست
پرآجائیں۔صدرمملکت نے خواہش کا اظہار کیا کہ شدت پسندی کے حوالے سے ایک
جامع دستاویزکی تیاری میں کامیابی کے بعدمعاشرے میں فرقہ واریت کی فروغ
پذیرمختلف شکلوں پربھی توجہ دی جائے کیوں کہ حال ہی میں فرقہ واریت کے بعض
ایسے مناظردیکھنے کوملے ہیں کوکئی حوالوں سے تشویش ناک ہیں۔اسلام نہ صرف
دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے کہ بلکہ فرقہ واریت کی بھی مذمت کرتاہے جوقوتیں
جس طرح مذہب اسلام کودہشت گردمذہب ثابت کرنے کے لیے اسلام کے نام پردہشت
گردی پھیلانے کی سازشیں کرتی ہیں وہی قوتیں اسلام اورمسلمانوں کودہشت
گرداورتفرقہ بازثابت کرنے کے لیے فرقوں کے نام پر اسی طرح سازشیں کرتی رہتی
ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں فرقے پائے جاتے ہیں۔یہ بھی حقیقت
ہے کہ اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرنے کاکام فرقہ واریت کے نام پربھی
کیاجاتا رہا ہے۔اوراب بھی کیاجارہاہے۔یہاں یہ یاددہانی کرانابھی ضروری ہے
کہ فرقے صرف اسلام ہی نہیں دیگرمذاہب میں بھی پائے جاتے ہیں۔اسلام میں
اگرچہ فرقے ہیں قرآن پاک ایک ہی ہے۔جب کہ دیگرمذاہب میں پائے جانے والے
فرقے اپنی آسمانی کتابوں پربھی متفق نہیں ہیں ان کی توآسمانی کتابیں بھی
الگ الگ ہیں۔اسلام میں فرقہ ورایت کانام توبڑے اہتمام سے لیاجاتاہے
دیگرمذاہب میں پائے جانے والے فرقوں پرتوکوئی بات نہیں کرتا۔ان کاکہناہے کہ
اس ناپسندیدہ رجحان پرقابونہ پایاگیا توخدشہ ہے اس کی وجہ سے ملک میں فتنوں
کاایک اوربڑاطوفان کھڑاہوگاجس پرقابوپانے کے لیے مدتیں درکارہوں گی۔اسی لیے
ضروری ہے کہ علماء کرام ،اہل فکرودانش اورریاست کے تمام متعلقہ ادارے اس
سلسلے میں ابھی سے خبردارہوجائیں اوراس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے
علاوہ قومی اتفاق رائے کے ساتھ اجتماعی طورپربھی کام کریں تاکہ حقیر
مقاصدکے لیے قوم کوتقسیم درتقسیم سے بچایاجاسکے۔فرقہ واریت کوروکنے کے لیے
نیشنل ایکشن پلان کی طرزپرایک نیالائحہ عمل مرتب کرکے اس پرعملدرآمدکرنے کی
ضرورت ہے۔فرقہ واریت کے کسی بھی واقعہ کی ذمہ داری کسی بھی فرقہ یامسلک پر
عائد کرنے سے پہلے یہ تحقیق کرلی جائے کہ اس میں اس کاکوئی کردارہے بھی
یانہیں کہیں اس میں وہی ملک دشمن عناصرملوث تونہیں جوعناصرپاکستان میں دہشت
گردی پھیلانے کے حقیقی ذمہ دارہیں۔صدرمملکت ممنون حسین نے کہا کہ انہیں
خوشی ہے کہ علماء کرام کے اس فتوے کوریاستی اداروں کی تائیدحاصل ہوئی
اوراتفاق رائے ان کی کامیابی کی کلیدہے۔یہ مرحلہ طے کرنے کے بعدیہ ضروری ہے
کہ قوم کے دیگرطبقات کے نقطہ نظرکوبھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ
ہرطبقہ اس کے فروغ میں کرداراداکرے۔صدرممنون حسین کون سے دیگرطبقات کی بات
کررہے ہیں۔کیاصدرپاکستان ممنون حسین علماء کرام کے بعد اس سلسلہ میں
سیاستدانوں، کاروباری شخصیات، صحافی، وکلاء، پروفیسر صاحبان، سماجی شخصیات
وتنظیمات، انسانی حقوق کی تنظیموں،کالم نویسوں،ادیبوں اوربیوروکریسی کانقطہ
نظرچاہتے ہیں۔غورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ صدرمملکت دیگرطبقات کانقطہ
نظرچاہتے ہیںیادیگرمذاہب کا۔صدرپاکستان دیگرطبقات کانقطہ نظرچاہتے ہیں وہ
توباربارسامنے آچکا ہے۔دہشت گردی کاسب سے زیادہ ذمہ دارعلماء کرام کوہی
سمجھاجاتا رہا ہے۔علماء کرام نے متفقہ فتویٰ جاری کرکے اس کی
پرزورتردیدکردی ہے۔ انہوں نے اپنانقطہ نظرقرآن وسنت کی روشنی میں دے دیا
ہے۔علماء کرام کے بعدکوئی طبقہ ایسانہیں جس کودہشت گردی اورانتہاپسندی
کاذمہ دار سمجھا جاتا ہو ۔ اس کے برعکس صدرمملکت دیگرمذاہب کانقطہ نظرچاہتے
ہیں توصرف اسلام کوہی دہشت گردمذہب ثابت کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔علماء
کرام نے متفقہ فتویٰ جاری کرکے یہ بھی بتادیا ہے کہ اسلام دہشت گردنہیں
بلکہ دہشت گردی کی مذمت کرنے والاملک ہے۔شریعت میں قتل کابدلہ قتل بھی اس
لیے ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کویقینی بنایاجاسکے۔ان کاکہناہے کہ مختلف
مکاتب فکرکے علماء کرام نے باہمی مشاورت اوراتفاق رائے سے جوفتوی جاری کیا
ہے وہ درست سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے ۔جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ پاکستان
ایک اسلامی ریاست ہے اوراسلام امن، محبت اوررواداری کادین ہے۔ماضی میں بھی
مختلف سطحوں پردہشت گردی کے خاتمے کی خاطرپاکستان کے اندرمختلف اوقات میں
اس قسم کے فتوے جاری کیے گئے تھے جوزیادہ موثرثابت نہیں ہوسکے۔تاہم اس
مرتبہ ریاست کی سطح پرعلماء کرام کی جانب سے کھل کردہشت گردی کی مخالفت
توقع ہے کہ اہم کرداراداکرسکتی ہے۔اس موقع پروفاقی وزیرداخلہ پروفیسراحسن
اقبال چودھری، وزیرخارجہ خواجہ محمدآصف،صدرتنظیم المدارس اہل سنت مفتی منیب
الرحمن، ڈائریکٹرانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹرمعصوم یاسین زئی ،صدروفاق
المدارس العربیہ ڈاکٹرعبدالرزاق، صدروفاق المدارس سلفیہ پروفیسرساجدمیر،
صدروفاق المدارس شیعہ علامہ سیّد ریاض حسین نجفی، چیئرمین ہائرایجوکیشن
کمیشن ڈاکٹرمختاراحمد اورچیئرکشمیرکمیٹی مولانافضل الرحمن نے بھی خطاب
کیا۔وزیرخارجہ خواجہ محمدآصف نے کہاکہ یہ بیانیہ ہماری قومی شناخت بن جائے
۔دہشت گردوں کاساتھ دینے والوں کی ملک میں کوئی جگہ نہیں ،دہشت گردی
اوراسلام دومتضادچیزیں ہیں۔راجہ ظفرالحق نے کہا کہ بیانیہ درست سمت میں
مثبت کوشش ہے۔جس سے مقصدکے حصول میںآسانی ہوگی۔وفاقی وزیرخارجہ خواجہ
محمدآصف نے کہا کہ تمام مسالک کے علماء کرام، جامعات اورسکالرزنے دہشت گردی
کے ناسورکے خاتمے کے لیے متفقہ قومی بیانیہ ’’ پیغام پاکستان‘‘ پراتفاق
کرکے ثابت کردیا ہے کہ معاملے پرسول وعسکری قیادت پوری قوم یکجاہے۔قومی
بیانیے میں دہشت گردی کے خلاف قومی اداروں میں ہم آہنگی کی بنیادپرپوری
دنیاپرواضح کررہے ہیں کہ پوری قوم نے ہرطرح کی دہشت گردی
کومستردکردیاہے۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ ذاتی مفادات کے لیے بیمارذہنیت سے
دہشت گردی کی زبانی یاعملی حمایت کرنے والے افرادکی ہمارے معاشرے میں قطعی
کوئی گنجائش نہیں ۔ سہولت کاروں انتہاپسندنظریے کوآگے بڑھانے والے افرادسے
بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
دہشت گردی کے خلاف اٹھارہ سوسے زائدعلماء کرام کی طرف سے متفقہ فتویٰ ہونا
ایک اچھی پیش رفت ہے۔ یہ فتویٰ اس وقت جاری ہوتاجب ملک میں دہشت گردی
کاآغازہواتھا اوربہترتھا۔ اب بھی یہ اچھی پیش رفت ہے۔اس فتویٰ سے یہ ثابت
ہوتاہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام علماء کرام متفق ہیں۔سوال یہ بھی سامنے
آتاہے کہ جوعناصردہشت گردی میں ملوث ہیں وہ اس فتوے کوتسلیم کرتے بھی
ہیںیانہیں۔دہشت گردی کے خلاف متفقہ فتوے کی طرزپرانشورنس پالیسی، بینکوں کے
سودی لین دین، عدالتی نکاح،طلاق وتنسیخ، ملاوٹ، جعل سازی، سرکاری ملازمت کے
اوقات میں پرائیویٹ ڈیوٹی، سرکاری ڈیوٹی پرنہ جانے اورذاتی کاروبارکرنے،
مرداراورحرام گوشت کاکاروبارکرنے، میڈیاپراشتہارات میں عورت کی تصاویراوربے
ہودہ تشہیر،مردکوطلاق دینے کاشرعی حق ہونے کے باوجودنکاح نامہ میں طلاق کی
صورت میں جرمانہ لکھاجانا، مردکوچارشادیوں کی شرعی اجازت کے باوجودپہلی
بیوی سے اجازت کی شرط، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے انشورنس کی مدمیں
کٹوتی جیسے مسائل پربھی متفقہ فتویٰ اورقومی بیانیہ جاری کرنے کی ضرورت
ہے۔تمام مکاتب فکرکے علماء کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان مسائل پربھی متفقہ
فتویٰ جاری کریں۔ |