جناب موسیٰ ابن جعفر نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
حضرت علی ؑ نے جناب سلمان فارسی سے پوچھا:کیا تم مجھے اپنے ابتدائی حالات
کے سلسلے میں نہیں بتاؤگے ؟
آپ نے عرض کیا :میں شیرا ز سے تعلق رکھتا ہوں اور میں اپنے والد کا سب سے
اچھا فرزند تھا ۔ایک روز تہوار کے دن میں ان کے ساتھ صومعہ (عبادت خانہ )میں
تھا ۔وہاں ایک شخص نے کہا:’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبو د
نہیں ہے ۔ جناب عیسیٰ روح اﷲ ہیں اور محمد اﷲ کے حبیب ہیں ۔بس اسی وقت سے
ان کی محبت میرے رگ و خوں میں پوست ہو گئی ۔
میرے والد نے کہا : تم اگتے ہو ئے سورج کی پرستش کیوں نہیں کرتے ہیں؟
میں نے ان سے اس سلسلہ میں بحث کی اور دلیل چاہی یہاں تک کہ وہ خاموش
ہوگئے۔جب میں اپنے گھر پہونچا تو چھت کے نیچے ایک آویزاں کتاب دیکھی ۔میں
نے اپنی ماں سے کہا:یہ کتاب کیسی ہے ؟
انہوں نے کہا :اے روزبہ! جب ہم وہاں سے(تہوار) سے پلٹے تو ہم نے اس کتاب کو
یہاں( لٹکتے ہوئے )پایا ۔اس لئے اس کتاب تک پہونچنے کی کوشش مت کرنا ۔نہیں
تو تمہارے ابو تمہیں مار دیں گے ۔میں نے اپنی والدہ سے گزارش کی اور اب شب
کی تاریکی چھاچکی تھی اور میرے والدین سوگئے تھے ۔میں کھڑا ہوا اور اس کتا
ب کو لے لیا ۔اس میں لکھا ہوا تھا ’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ‘‘شرو ع کرتا
ہوں اس اﷲ کے نام جو بڑا رحمان و رحیم ہے ۔یہ اﷲ کا جناب آدم سے عہد ہے کہ
اﷲ جناب آدم کی نسل سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمد ہوگا اور جو
مکارم اخلاق کی تعلیم دے گا اور بتوں کی پرستش سے منع کرے گا ۔اے روزبہ! (جناب)عیسیٰ
کے وصی کے وصی کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔وہ تمہیں مقصد کی
جانب رہنمائی کریں گے ۔پھر میرے حواس کھو گئے۔
میرے والدین سمجھ گئے اور مجھے ایک کنویں میں ڈال دیا اور کہا: باہر مت
نکلناورنہ تمہیں مارڈالیں گے ۔میں نے کہا ـ:آپ جو چاہیں وہ کریں لیکن میرے
سینہ سے محمد کی محبت نہیں نکل سکتی ۔میں عربی نہیں جانتا تھا ۔لیکن اﷲ نے
مجھے اس روز عربی زبان کی تعلیم دی۔انہوں نے مجھے روٹی کا ایک چھوٹا سا
ٹکڑا دیا۔میں نے کنویں میں ایک طویل مدت گزاری ۔میں نے آسمان کی طرف ہاتھ
بلند کیا اور کہا:اے میرے خدا! بیشک! تو نے میرے دل میں محمداور ان کے وصی
کی محبت ڈال دی ہے تواب تو ہی مجھے ان کے وسیلہ سے نجات دے !
پھر ایک شخص سفید پوشاک زیب تن کئے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ۔اے
روزبہ!کھڑے ہوجاؤ !اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے صومعہ تک لے آیا ۔میں
وہاں تک گیا ۔راہب نے کہا :تم روزبہ ہو؟
میں نے کہا:ہاں ! میں اس کے پاس دو سال تک رہا اور اس کی خدمت کی ۔جب وہ
جاکنی کے عالم میں تھا توا س نے مجھے انطاکیہ کے راہب کے پاس جانے کی ہدایت
کی ۔اس نے مجھے ایک تختی دی جس پر حضرت محمدکے صفات لکھے ہوئے تھے ۔جب میں
اس راہب کے پاس پہونچا تو اس نے مجھ سے پوچھا :کیا تم روزبہ ہو؟میں نے
کہاـ:ہاں ! اس نے میرا استقبال کیا اور میں نے اس کی بھی دو سال خدمت کی ۔اس
نے مجھے محمد اور اس وصی کے صفات بتائے ۔جب وہ جاکنی کے عالم میں تھا توا س
نے مجھ سے کہا:اے روزبہ ! محمد کا ظہور(ولادت)قریب ہے ۔ اس کی موت کے بعد
میں ایک گروہ کے ساتھ حجاز کو روانہ ہو گیا اور ان کی خدمت کی ۔ایک با ر ا
ن لوگو ں نے ایک بھیڑ ذبح کی ،اسے بھونا ،شراب بنائی اور مجھ سے کہا:کھاؤ
اورپیؤ !لیکن میں نے انکار کردیا ۔انہوں نے مجھے مارنا چاہالیکن میں نے ان
سے کہا:مجھے مت مارو۔میں آپ کی خدمت کروں گا ۔
انہوں نے مجھے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا ۔اس نے مجھ سے میری کہا نی پوچھی
۔میں نے ابتدا سے انتہا تک سب بتا دیا ۔اس نے کہا :میں تم سے اور محمد سے
نفرت کرتا ہو ں اور اپنے گھر سے نکال باہر کر دیا ۔اس کے گھر کے دراوزہ کے
قریب ڈھیرساری ریت تھی اس نے کہاکہ اگر تم نے یہ ساری ریت یہاں سے وہاں
منتقل نہیں کی تو میں تمہیں مار ڈالوں گا ۔میں نے رات ہی سے کام کو کرنا
شروع کردیا ۔
ابھی میں نے تھوڑی سی ریت منتقل کی تھی کہ میں تھک گیا ۔میں نے کہا:اے میرے
خدا!تو نے ہی میرے دل میں محمد اور ان کے وصی کی محبت ڈالی ہے اب توہی ان
کے وسیلہ سے مجھے نجات دے!پس اﷲ نے ہوا چلادی اور ساری ریت اسی مقام پر جا
پہونچی جہاں کے لئے یہودی نے کہا تھا ۔صبح یہودی نے مجھ سے کہا :تم جادو گر
ہو!میں تمہیں اس محلہ سے باہر لے جا ؤ ں گا تاکہ ہم تمہارے شر سے محفوظ رہ
سکیں ۔وہ مجھے وہاں سے باہر لے آیا اور ایک شریف عورت کے ہاتھوں فروخت
کردیا ۔اس نے میرے ساتھ پیار ومحبت کا برتاؤ کیا ۔اس نے مجھے ایک باغ میں
بھیج دیا اور کہا :کھاؤ،ہدیہ کرو اور خیرات کرو ۔ایک روز جبکہ میں با غ میں
موجود تھا ۔میں نے دیکھا کہ سات گروہ آرہا ہے اور بادل ان کے سر پر سایا
کئے ہوئے ہے ۔میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا اور کہا کہ بیشک ! ان کے درمیان
ایک نبی ضرور ہے ۔(الخرائج والجرائح ج ۳ ص۱۰۷۸۔۱۰۸۱ )
حضرت امام محمد باقر ؑ نے ارشاد فرمایا :بیشک !اﷲ نے حضرت محمد ؐ کو جن
وانس کیے درمیان مبعوث کیا اور آپ کے بعد بارہ وصی بھی قرار دیئے ۔ان میں
سے کچھ گذر گئے اور کچھ باقی ہیں اور ہر ایک عملی طور پر سنت پر عمل پیرا
رہا ۔ وہ اوصیاء جو حضرت محمد ؐ کے بعد آئے وہ سب جناب عیسیٰ کے اوصیاء کی
سنت پر تھے اور ان کے اوصیاء کی تعداد بھی بارہ تھی۔حضرت امیرالمومنین نے
جناب عیسیٰ کی طرح سنت پرتھے ۔(الکافی، شیخ کلینی،ص ۵۳۲ح ۱۰)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم)
|