ایک نوجوان ایک سادھو کے پاس گیا اور کہا ’’مہراج! میں
بہت پریشان ہوں، برائے مہربانی یہ بتائیں کہ پریشانی کے ابھی اور کتنے دِن
ہیں؟‘‘۔ مہراج نے کچھ’ہندسوں کو ضرب تقسیم کر کے بتایا کہ ’تین سال‘۔
نوجوان خوش ہوتا ہوا بولا ’’اس کے بعد ہمارے اچھے دن آ جائیں گے‘‘۔ مہراج
نے کہا ’’نہیں بچّہ! اتنے دنوں میں تمہاری عادت پڑ جائے گی‘‘۔
ملک میں انتخاب سے پہلے سیاسی جماعتیں عوام کو سبز باغ دکھاتی ہیں اور جب
انہیں دکھائے گئے سبز باغوں پرانتخاب جیت کر حکومت بناتی ہیں تب ان کو پتہ
چلتا ہے کہ ان کے کیے گئے وعدے کتنے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔پھر عوام کی
توجہ بھٹکانے کے لیے کچھ نئے ڈراؤنے بھوت بنا کر کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ان
کے پاس سب سے بڑا بھوت ’مسلمان‘ اور اس سے جوڑ کر ’ لو جہاد‘، ’گائے‘، ’تین
طلاق‘،’چار شادیاں‘، ’برقع‘، ’مسلم عورتوں کا حج‘، ’مدرسہ ‘ ،’مسجد‘، اور
پتہ نہیں کیا کیا۔یعنی پونے چار سال حکومت بنے ہو گئے ہیں اور اتنے دنوں سے
صرف مسلمان ہی ڈیل کیے جا رہے ہیں۔یہ مسلمان حال کے بھی ہے اورماضی کے بھی
ہیں۔جو مر گئے ہیں ان کو بھی آج ویلن بنایا جا رہا ہے۔یہی بہادر بھکتوں کی
شان ہے جو اپنی بہادری دکھانے کے لیے راہ چلتے آدمی گھیر کر یا جھنڈ کے
ساتھ گھر میں گھس کر نہتّوں کو مار لیتے ہیں چاہے وہ عیسائی ہوں، دلت ہوں
یا پھر مسلمان ۔ بہادری کی حد تو وہاں ختم ہو جاتی ہے جب ایک بھکت مسلمان
کی ٹوپی لگا کر بندھے ہوئے بندر کو مارتا ہے ٹھیک اُسی طرح جیسے گوڈسے نے
ختنہ کراکر گاندھی جی کو قتل کیا تھا۔ اصل مدعہ سے عوام کاذہن ہٹانے کے لیے
اس طرح کی ہرکتیں کی جاتی ہیں۔اس وقت جو مسائل بھارت میں ہیں وہ ہے ’بے
روزگاری، غربت اورآسمان چھوتی قیمتیں‘۔لیکن چاچا چودھری کی کھوپڑی میں یہ
گھسا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرتے ہی بھارت میں دودھ کی ندیاں بہنے
لگیں گی اور گائے کو صرف’گوبر‘ اور ’پیشاب‘کرنے کے لیے رہ جائے گی۔
بے روزگاری بہت بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے انھوں نے پچیس کروڑ روزگار فراہم
کرنے کی بات کی تھی کتنی مدت میں کرنی تھی اس کا کچھ اتا پتہ نہیں۔روزگار
کی فراہمی کے لیے’میک ان انڈیا‘، ’ڈِجِٹل انڈیا‘ ، ’اسٹارٹ اپ انڈیا‘ اور
’اسمارٹ سٹیز‘ کی اسکیمیں شروع کی گئی تھیں جو روزگار فراہم تو کرا نہیں
پائیں بلکہ’ خود گٹر نشیں‘ہو گئیں۔
جولائی 2014سے دسمبر2016 تک آٹھ اہم شعبوں -مینوفیکچرنگ، تجارت، تعمیرات،
تعلیم، صحت، انفارمیشن ٹکنالوجی، نقل و حمل،رہائش اور رستورانت میں صرف
6,41,000روزگار مل سکے تھے۔جبکہ انہیں شعبوں میں جولائی 2011سے دسمبر
2013میں 12,80,000 روزگار موجود تھے۔ اسی طرح ’پردھان منتری ایمپلائمنٹ
جنریشن پروگرام(PMEGP)‘کے تحت دیہی اور شہری علاقوں میں4,28,000 روزگار
2012-13 میں فراہم کرائے گئے تھے جبکہ 2015-16میں روزگار کے یہ اعداد
3,23,362 تھے۔ اس طرح سے24.4فیصدکی کمی روزگار ،میں آئی۔میک ان انڈیا کی
بات اگر کی جائے تو ۱۲؍سو کروڑ روپے کا سردار پٹیل کا عظیم اسٹیچو چین میں
بن رہا ہے۔ناگپورمیٹرو ریلوے کے کوچ کے لیے 851کروڑ کا ٹھیکہ بھی چین جیسے
جگری دوست کودیا گیا۔بھارت کے ہُنر مندوں کا مستقبل سنوارنے کے بجائے چین
کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے حکومت کے پاس بہت سی اسکیمیں ہیں جن کا علم ان کو نہیں ہے۔
یہ بیچارے اگر معلومات حاصل کرنے جاتے ہیں تو کوئی بتلانے والا نہیں۔اگر
کسی طرح سے کوئی اسکیم پسند بھی آگئی تو اس کی منظوری کے لیے اڑچنیں اور اس
سے چھٹکارا پانے اور منصوبہ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے رشوتیں ۔
بہر حال نوجوان کو کوششیں جاری رکھنی چاہئے، تھک ہار کر بیٹھنا سماجی موت
ہے۔اگر کسی میں ہمت اور حوصلہ ہے تو چھوٹے کام کو بڑھا سکتا ہے۔ اسی نسبت
کی دوکہانیاں سُن لیں شائد آپ کے لیے مددگار ہوں
:
’’چپراسی کی ملازمت کے لیے ایک لڑکے کی درخواست اس لیے نہیں منظور کی گئی
کہ اس پر ’ای -میل آئی․ڈی․‘ نہیں لکھا گیا تھا۔کمپنی کے آفسر نے کہا ’ای -میلـ
آئی․ڈی․‘ لے کر آؤ، تبھی نوکری مل پائے گی۔وہ بیچارہ معمولی پڑھا لکھا
دیہات کا لڑکا تھا اس نے اپنے والد کو فون کیا کہ ’ای -میلـ آئی․ڈی․‘ اگر
اس کے پاس ہو تو کسی کے ہاتھ بھجوا دے۔ اس کے والد نے کہا ’ٹھہر بیٹوا! میں
تیری اماں سے پوچھتا ہوں، میرے پاس تو ہے نہ‘۔اسے کسی طرح سے پتہ چلا کہ
کمپیوٹر پر انٹر نٹ چلانے والا’ ای -میل آئی․ڈیـ ․ بناتے ہیں۔وہ ایک سائبر
کیفے میں گیااوراپنی بات کہی۔ کیفے والے نے ساٹھ روپئے مانگے۔ لیکن اس کے
پاس روپئے کم تھے لہذا وہ دوسرے دن آنے کو کہہ کر چلا گیا اور اس نے بازار
جا کر کچھ ٹماٹر خریدے اور گھر گھر جا کر ٹماٹر فروخت کیے۔اب اس کے پاس دو
’ ’ای -میلـ آئی․ڈی․‘ بنانے کے پیسے آگئے تھے لیکن وہ پھر منڈی گیا اور پھر
ٹماٹر خریدا اور بیچنے پر کافی منافہ کمایا پھر وہ پانچ سال میں ملک بھر
میں تازی سبزی سپلائی کرنے والی کمپنی کا مالک بن گیا‘۔اگر ’ای․میل․ آئی ․ڈیـ‘
کے پیچے پڑ ا ہوتا تو چپراسی ہی رہتا۔
ایک دوسری کہانی بھی سن لیں’’ دو لڑکے تھے ، ایک کی عمر پانچ سال کی تھی
اور دوسرے کی عمر سات سال ۔ دونو ں بڑے اچھے دوست تھے، ہر وقت ساتھ ساتھ
رہتے تھے اور کھیلا کرتے تھے۔ ایک دِن کھیلتے کھیلتے گاؤں سے کافی دور نکل
گئے۔وہاں گھانس اور جھاڑیوں کے بیچ ایک کنواں تھاجس میں بڑا لڑکا جس کی عمر
سات سال تھی، گر گیا،چھوٹا لڑکابہت پریشان ہوا اس نے بہت بچاؤ بچاؤ کی آواز
لگائی لیکن کوئی مدد کو نہیں آیا۔اب جو کرنا تھا اُسی چھوٹے بچے کو کرنا
تھا۔یہ غنیمت تھا کہ کنویں کی جگت پر رسّی سے بندھی ایک ڈول رکھی تھی۔چھوٹے
لڑکے نے ڈول کو کنویں میں ڈالا اور اُس بڑے بچے سے کہا کہ تم اس پر بیٹھ
جاؤ۔اب چھوٹے لڑکے نے رسّی کو کھینچنا شروع کیا اور کھینچتے کھینچتے بڑی
مشکلوں سے لڑکا باہر آگیا۔اور دونوں دوست ہنستے کھیلتے اپنے گھروں کو لوٹ
گئے۔
لڑکوں نے جب یہ بات لوگوں کا بتائی تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ اس چھوٹے
لڑکے نے بڑے لڑکے کو کنویں سے باہر نکالا۔لوگوں کو کسی طرح سے یقین نہیں آ
رہا تھا اور سب یہی کہہ رہے تھے کہ بچے جھوٹ بو رہے ہیں۔لیکن ایک بڑے میاں
نے بچوں کی بات کی تائید کی۔لوگوں ان سے پوچھا آپ ایسا کس بنا پر کہہ رہے
ہیں؟
وہ اس لیے کہ وہاں پر کوئی اور نہیں تھا جوبچے سے یہ کہتا ’’تم ایسا نہیں
کر سکو گے اور اسی لیے چھوٹے بچے نے بڑے بچے کو کنویں سے نکال لیا ‘‘۔بڑے
میاں نے جواب دیا۔
پہلی کہانی میں اگر کوئی اس سے پوچھ لیتا کہ ’ای․ میل آئی․ڈی․‘ کھولنے کے
لیے پیسہ کہاں سے لاؤگے؟ تو شاید وہ کچھ نہ کر پاتا۔ لہذا’اپنی زمین پرکھڑے
ہو کر نئے آسمان کی تلاش میں لگے رہو‘۔یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ فوراً کامیاب
ہو جائیں،وقت لگ سکتا ہے ، پریشانیاں آ سکتی ہیں اس کے بعد کامیابی بھی آپ
کو تلاش کرتی ہوئی آئے گی شرط یہ ہے کہ ایمان والوں کا ایمانداری کا دامن
نہ چھوٹے۔اسطرح سے اپنے بے روزگاری خود دور کریں اور دوسروں کوروزگار فراہم
کرنے کا ذریعہ بنیں- |