پنجاب یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر جناب زکریا ذاکر نے
اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ان کی نامزدگی اس لحاظ سے بہت عمدہ اور
اچھا فیصلہ ہے کہ ان کا تعلق اسی جامعہ سے ہے۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، لکھنا
، پڑھنا سبھی کا تعلق اسی جامعہ سے ر ہا ہے وہ یہاں کے کلچر، یہاں کے ماحول،
یہاں کے اساتذہ، یہاں کے طلبا اور یہاں کے سارے اسرار و رموز سے پوری طرح
آگاہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کے سبھی گروپوں ، طلبا کے مختلف گروہوں اور
انتظامی عملے سمیت سب نے انہیں خوش آمدید کہا ہے، اور ان کے لئے نیک تمناؤں
کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی سب کی امیدوں پر پورا اترنے کی
مکمل سعی کریں گے اور جامعہ پنجاب میں اپنے عہد کو یادگار اور مثالی بنانے
کے لئے پوری محنت کریں گے۔ڈاکٹر مجاہد کامران نے پیسٹھ (65) سال سے زیادہ
عمر کے بزرگ اساتذہ کو انتہائی تکریم دی تھی۔ڈاکٹر ظفر معین کے دور میں
انہیں کچھ شکایات تھیں۔ امید ہے کہ ان شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ جز
وقتی اساتذہ کے بہت کم تدریسی معاوضے کا مسئلہ بھی دیر سے حل طلب ہے یقیناً
ڈاکٹر صاحب اس پرخصوصی توجہ دیں گے۔
اس موقعہ پر میرے ذہن میں بہت سی باتیں آ رہی ہیں۔ برادرم ڈاکٹر مجاہد
کامران اپنے چار چار سال کے دو عہد گزارنے کے بعد اگلے چار سالہ عہد کے لئے
بھی امیدوار تھے۔سلیکشن کمیٹی نے اگلے عہد کے لئے تین نام دئیے ، ڈاکٹر
مجاہد کامران، ڈاکٹر ظفر معین ناصر اور ڈاکٹر زکریا ذاکر،کہ وزیر اعلیٰ اس
میں سے اپنی پسند کے ایک امیدوار کو وائس چانسلر نامزد کر دیں۔ اس دوران
کچھ لوگ ہائی کورٹ چلے گئے۔ ہائی کورٹ نے کیس کے ساتھ ڈیڑھ سال کھیلا اور
ایک فیصلہ سا دے دیا۔اس فیصلے کی روشنی میں صحیح انصاف حکومت پنجاب کر رہی
ہے۔ چار سالہ عہد کا وہ حصہ کہ کیس کورٹ میں تھا، ڈاکٹر مجاہد کامران کے
حصے میں آیا۔ وہ مزے سے ڈیڑھ دو سال گزار گئے۔ پھر ڈاکٹر ظفر معین ناصر آئے
اور سال ڈیڑھ سال گزار کر چلے گئے۔ اب تیسرے ڈاکٹر زکریا ذاکر آئے ہیں ،
امید ہے یہ بھی ایک دو سال گزار لیں گے۔ یہی ہوتا ہے اصلی اور سچا انصاف۔
تینوں امیدواروں میں سے کسی کی حق تلفی نہیں ہوئی ، کسی کی دل آزاری نہیں
ہوئی ۔دو نے عہدے کا جھولا باری باری جھولا اور خوب جھولا، اب تیسرے صاحب
کی جھولا جھولنے کی باری آ چکی، امید ہے یہ بھی بھرپور جھولیں گے۔مگر ان
میں سے کوئی بھی مستقل نہیں تھا اور نہ ہے، ہر ایک قائم مقام ہی رہا۔ مستقل
بس ان کے سر پر مسلط ایک وزیر ہائر ایجوکیشن ہی تھا اور ہے جو بلیک میلنگ
سمیت ان قائم مقام حضرات کو ڈرانے کا ہر حربہ جانتا ہے۔اﷲ کرے اگلے ڈیڑھ
سال میں حکومت کسی کو مستقل وائس چانسلر لگا دے ورنہ پریشانی یہ ہے کہ اب
چوتھا نام کہاں سے آئے گا۔
قائم مقام شخص بہت سے فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہوتا یوں وہ ایک ادھورا وائس
چانسلر ہوتا ہے۔لوگ اس سے بہت سی توقعات وابستہ کئے ہوتے ہیں مگر وہ بہت
سارے معاملات میں بہت مجبور ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں ہر ادارے میں بلند ترین
عہدہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کا حق ہوتا ہے۔یہی اصل میں میرٹ ہے۔ لوگ
اس عہدے کے حصول کے لئے محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ اس کے خواب دیکھتے
ہیں۔مگر حکومتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ انہیں بلند تریں عہدے پر اپنے
پٹھو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں ایسا شخص درکار ہوتا جو کاسہ لیسی جانتا ہو،
حکومتی مفاد میں اپنی عزت اور وقار کو بھی داؤ پر لگانا جانتا ہو۔ اس مقصد
کے لئے سرچ کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جن کے ممبران تھوڑے معزز قسم کے گلو بٹ
ہوتے ہیں۔ وہ اپنے جیسا کوئی وفادار ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا تلاش
کردا شخص عام طور پر ادارے کے کلچر سے واقف نہیں ہوتا اور بعض تو ایجوکیشن
کلچر سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ساری سرچ کمیٹیاں کسی بہتر شخص کی تلاش کے لئے
نہیں، حکومتی مفادات کے بہتر تحفظ کی ضمانت دینے والے شخص کی تلاش کے لئے
ہوتی ہیں۔ انصاف تو یہ ہے کہ وائس چانسلر کی پوسٹ خالی ہو تو سینئر موسٹ
پروفیسر فوری چارج لے لے جو حقیقت میں اس کا استحقاق بھی ہے۔مضبوط اداروں
میں کبھی حکومت کو حقدار کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی جرات نہیں ہوتی۔ حکومت
آرمی چیف یا چیف جسٹس کے انتخاب کے لئے کبھی کوئی سرچ کمیٹی بنانے کی کوشش
تو کر کے دیکھے، سارے وزیروں کو ان کی اوقات نظر آ جائے گی۔
ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا، میں نہیں جانتا کہ اس میں وکلا نے کیا داؤ پیچ
دکھائے اور معزز جج صاحبان کو کیا بتایا۔ لیکن ایسے کیس کی نوبت ہی نہ آئے
اگر حکومت یونیورسٹی کے سب سے سینئر استاد کو وائس چانسلر اور دوسرے سینئر
کو پرو وائس چانسلر لگا دے۔یہ ایک خود کار عمل ہونا چاہئیے ۔ آزاد قومیں
ایسے ہی رویے اپناتی ہیں۔پرو وائس چانسلر کی پوسٹ موجود ہونے کے باوجود نظر
انداز کی جاتی ہے اور کسی بھی حق دار کو اس پر تعینات نہیں کیا جاتا۔کورٹ
کے فیصلے پر کوئی تنقید کرنے کی مجھ میں جرات نہیں۔مگر اس فیصلے سے حکومت
پنجاب کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ جو اور جس طرح چاہتی ہے کر رہی ہے۔ اس
نامکمل فیصلے ہی کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی آج تک ایک بحران کا شکار ہے اور
مستقل وائس چانسلر سے محروم۔یونیورسٹی کیلنڈر میں بڑے واضع انداز میں لکھا
ہے کہ وائس چانسلر کی غیر موجودگی میں سینئر ترین پروفیسر اس کا قائم مقام
ہو گا، مگر پنجاب یونیورسٹی کے معاملے میں یونیورسٹی کیلنڈر کو جانے کیوں
نظر انداز کیا گیا۔تین منتخب امیدواروں میں سے ایک کی نامزدگی خود کرتے وقت
ہائی کورٹ ا گر اس کی تعیناتی مستقل کہہ دیتا تو پنجاب یونیورسٹی بہت سی
مشکلات سے بچ جاتی۔پتہ نہیں کورٹ کو کیا بتایا گیا کہ اس نے نہ تو سینئر
موسٹ کے بارے کوئی رائے دی گئی اور نہ ہی مستقل تعیناتی کی گئی۔
پوری دنیا میں حکما کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے تمام نظام ٹھیک ہو جاتے ہیں
اگر اس ملک کا نظام عدل ٹھیک ہو جائے۔میں نے بارہا اپنی تحریروں میں جناب
چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ججوں
کو ہدایت کریں کہ جب کوئی فیصلہ لکھیں تو اس میں کوئی خامی نہ رہنے دیں۔
اسے چیک کر لیں کہ وہ فیصلہ اتنا بھر پور ہونا چائیے کہ کیس آسانی سے
دوبارہ ان کے سامنے نہ آئے۔ توہین عدالت کے کیسوں پر سخت ایکشن لیا جائے۔
ہمارے دفتری نظام کا یہ کمال ہے کہ کورٹ کے حکم کو ماننے کی بجائے اسے
ٹرخانے کا فن زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔ وہ شکایت کنندہ کو خراب کرتے اور بار
بار کورٹوں کا چکر لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ کمزور فیصلے کا نتیجہ کورٹوں
پر غیر ضروری بوجھ، اور سائل کی حد سے زیادہ پریشانی ہوتا ہے۔ سائل کو
وکیلوں کی بھاری فیسوں کا ایک بار پھر سامنا ہوتا ہے۔ کورٹس پر اس کے
اعتماد میں فرق آتا ہے۔ اگر عدالتیں پورے اور ٹھیک فیصلے دیں کہ جن کو
سرکاری اہلکار ٹرخا نہ سکیں ا ور اپنے احکامات پر عمل درآمد چاہے سختی سے
کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے اثرات پورے ملکی نظام پر ہوں گے۔ |