’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صدقہ
کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا : اگر
میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج لے جاؤں
گا۔ فرماتے ہیں کہ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے
عرض کیا : اس (مال) کے برابر ہی، اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سارا
مال لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر! گھر
والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا : ان کے لئے اللہ عزوجل اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے (دل میں) کہا : بخدا! میں
کبھی ان سے کسی (نیک) بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
:: سنن ترمذی،6 / 52، الرقم : 3675
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتا ہے : جب میرا بندہ
بُرے کام کا ارادہ کرے تو اس کی کوئی برائی نہ لکھو جب تک کہ وہ اس برائی
کا ارتکاب نہ کر لے، اور جب وہ برائی کر لے تو اس کے برابر ہی (گناہ) لکھو،
اور اگر میری وجہ سے ترک کردے تو اس (ترک گناہ) کو اس کے لئے ایک نیکی لکھ
دو۔ اور جب اس نے نیکی کا ارادہ کیا مگر نیکی نہ کر سکا تو اس کے لئے ایک
نیکی لکھ دو اور اگر وہ اسے کر لے تو اس نیکی کو اس کے لئے دس گنا سے سات
سو گنا تک لکھو۔
:: بخاری شریف،کتاب التوحيد، 6 / 2724، الرقم : 7062
’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں محسن کب
بنوں گا؟ فرمایا : جب تیرا پڑوسی تجھے کہے کہ تو محسن ہے تو تو محسن ہے،
اور جب وہ تجھے کہیں کہ تو برا ہے۔ تو تو برا ہے۔
:: سنن ابن ماجه، 2 / 1411، الرقم : 4222.4223
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، گناہ
کے بعد نیکی کیا کرو وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اخلاق حسنہ کے ساتھ پیش
آیا کرو۔
:: ترمذی شریف،کتاب البر والصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم،4 /
355، الرقم : 1987،
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب اولین و آخرین کے لوگوں کو جمع
فرمائے گا تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا :
کہاں ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے؟ کہاں ہیں صاحبانِ احسان؟ فرمایا
: لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آ کھڑا ہو گا۔ پس وہ (یعنی
اللہ تعالیٰ) فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جاننے والا ہے : تم کون ہو؟ پس وہ
لوگ کہیں گے : ہم اہلِ معرفت ہیں جنہیں تو نے اپنی معرفت عطا کی اور ہمیں
اس معرفت کا اہل بنایا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے سچ کہا، پھر دوسرے
گروہ سے پوچھے گا : تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے : ہم صاحبانِ احسان ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا :
’’صاحبانِ احسان پر اِلزام کی کوئی راہ نہیں۔‘‘ لہٰذا تم پر بھی (طعنہ زنی
کی) کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھر حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا :
یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے احوال اور سختیوں سے نجات دے دے گا۔
:: أبونعيم، کتاب الأربعين، 1 / 100، الرقم : 51 |