’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ
نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ
کام ایسے ہیں جنہیں جو شخص بھی ایمان کی حالت میں سر انجام دے گا وہ جنت
میں داخل ہو جائے گا۔ جو شخص وضو، رکوع، سجود اور اوقات کا خیال رکھ کر
پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو
تو بیت اﷲ کا حج کرے اور زکوٰۃ ادا کرکے اپنے نفس کی پاکیزگی کا سامان کرے
اور امانت ادا کرے۔
:: أبوداودشریف،کتاب الصلاة،1 / 116، الرقم : 429،
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی
دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا،
حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
:: بخاری شریف، کتاب الإيمان، 1 / 21، الرقم : 8
حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ قضاعہ کے ایک شخص
نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں
اگر میں گواہی دوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اﷲ تعالیٰ
کے (سچے) رسول ہیں، پانچوں نمازیں پڑھوں، ماہ رمضان کے روزے بھی رکھوں اور
اس ماہ میں قیام بھی کروں اور زکوٰۃ بھی ادا کروں؟ تو حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس حالت میں فوت ہوجائے وہ (روز
قیامت) صدیقوں اور شہیدوں میں سے ہو گا۔
:: بيهقی شریف، شعب الإيمان، 3 / 308، الرقم : 3617،
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کسی شخص نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلام
خوب نکھرا تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام گزشتہ خطائیں معاف فرما دیتا ہے اور
پھر اس کے بعد اس کا بدلہ ہے، اس کی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا
تک ہے اور برائی کا صرف اسی کے برابر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے
بھی درگزر فرما دے۔
:: بخاری شریف، کتاب الإِيْمَانِ، 1 / 24، الرقم : 41
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا
: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے جس کو انجام دینے سے میں جنت میں
داخل ہو سکوں۔ (اس شخص کو آگے بڑھتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے مخاطب ہوتے دیکھ کر) لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسے کیا ہوا ہے؟
کیوں اس طرح بات کر رہا ہے؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : کچھ نہیں ہوا۔ اسے مجھ سے کام ہے۔ اسے کہنے دو۔ پھر آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی
عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا
کرو اور رشتہ داروں سے میل جول اور حسنِ سلوک کرو۔
:: بخاری شریف،کتاب الزکاة، 2 / 505، الرقم : 1332
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا : یا
رسول اللہ! میری ایسے عمل کی طرف راہنمائی فرمائیں جسے انجام دینے سے جنت
میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی
عبادت اس طرح کرو کہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ
بناؤ۔ فرض نمازیں اور مقررہ زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس
اعرابی نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں ان
اَحکام پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ پس جب وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کسی جنتی کو دیکھنے کی سعادت
حاصل کرنا چاہے تو اسے دیکھ لے۔
:: بخاری شریف،کتاب الزکاة،2 / 506، الرقم : 1333، |