’’معزز اراکین عدالت !سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا
چاہتا ہوں۔کہ جو الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں ۔ اُن میں صداقت نام کی کوئی
چیز نہیں پائی جاتی۔اور اُن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن یہ بات بھی
ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ گواہوں نے جو شہادتیں میرے خلاف آپ کے سامنے پیش
کیں۔ اُن میں بڑی خوب صورتی پائی جاتی ہے اور جھوٹے الزامات بڑی خوب صورتی
سے میرے خلاف گھڑے۔جن کو سُن کر ایک لمحے کے لئے میں خود بھی پریشان
ہوگیا۔لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے توانہوں نے ایک لفظ بھی حق پر مبنی
نہیں کہا۔
معزز اراکین عدالت !مجھ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں اور جو شہادتیں میرے
خلاف پیش کی گئیں وہ سراسر بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے مجھے جھوٹا اور چالاک
شخص کہا۔ جناب اُن کی یہ بات غلط ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حق بات کہنا
چالاکی اور مکاری ہے تو پھر میں ہزار درجہ چالاک اور مکار ہوں۔
معزز اراکین عدالت !میری باتیں حق اور انصاف پر مبنی ہوتی ہیں اگر آپ مجھے
موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو ضرور سزا دیں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں
سزا سے ڈر جاؤں گاتو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔کیوں کہ میرے دل میں حق کی
تڑپ پائی جاتی ہے۔ اس لئے مجھے موت کی بھی پرواہ نہیں ہے۔حق پرست آدمی ذلت
کی زندگی سے عزت کی موت مرنا پسند کر ے گا۔اگر عدالت مجھے اس بات پر بَری
کرتی ہے کہ میں آئندہ اپنا وقت تلاشِ حق اور ذوقِ علم میں صَرف نہیں کروں
گا تو یہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔
معزز اراکین عدالت !میں خدا کی اطاعت کو آپ کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہوں۔
میں اپنی زندگی کے آخری لمحے تک حق کی تلاش کرتا رہوں گا۔ میں یہ بات کہنے
میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق گوئی سے باز نہیں رکھ
سکتی۔ حتیٰ کہ موت کا خوف بھی نہیں‘‘۔
یہ اُس تقریر کا خلاصہ ہے جو سقراط نے عدالت میں کی تھی۔ اس پر الزام تھا
کہ وہ نوجوان نسل کو بگاڑنے کا کام کر رہا ہے۔ عدالت میں موجود 366 اراکین
نے سقراط کو سزائے موت سنائی جب کہ 144 اراکین نے فیصلے کی مخالفت کی۔
سقراط نے موت کی سزا ملنے کے فیصلے کے بعد زہر کا پیالہ پیا اور اس دارِ
فانی سے رخصت ہوا۔آپ کی موت نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ حق بات کہنے سے کبھی
نہیں ڈرنا چاہیئے۔جب سقراط قید ہوا تو دوستوں اور شاگردوں نے اُس کو قید سے
فرار ہونے کا مشورہ دیا۔ لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔’’میں قانون
کی خلاف ورزی نہیں کروں گا‘‘۔
سقراط کی موت سے ایتھنز تو ایک داناشخص سے محروم ہوگیا تھالیکن اُس نے حق
گوئی کا درس رہتی دنیا کے لئے چھوڑا۔ تاریخِ عالم ایسی مثالوں سے بھری پڑی
ہے لیکن اس پر عمل کرنے کے لئے آئین جوانمرداں چاہیئے۔ یہ سچ ہے کہ حق گوئی
میں کڑواہٹ ہوگی۔ دوسروں کو آپ کی بات بُری محسوس ہوگی۔ لیکن درحقیقت اسی
میں اصلاح ہے ،اسی میں بہتری ہے اور اسی میں کامیابی ہے۔ اﷲ ہمیں حق بات
کہنے، سننے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |