سیف علی کی یاد میں

انٹر کرنے کے بعد میرا داخلہ شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہوا جی سی میں پہلے پہل دوست نہ بننے کی وجہ سے میرا رابطہ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ رہا کالج کی زندگی کو ہم یاد کرتے رہے اور پشاور شہر میں بائیک پر گھومنا ُپھرنا کالج میں احتجاج کرنا وغیرہ ۔۔یہ سب وہ باتیں ہیں جسے ہم کھبی بھی نہیں بھول سکتے ہماری دوستیاں نہ صرف کلاس فیلوز سے تھی بلکہ انتظامیہ سے بھی خوب گپ شپ اوردعا و سلام رہے ایک دن میں یونیورسٹی میں اپنے شعبے میں تھا کہ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی مین نے فون آٹینڈ کیا تو ایک سنسنی خیز خبر میرے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔مجھے کوئی بتا رہا تھا کہ ۔۔وقار !سیف علی ئے مڑ کہ(سیف علی کو مار دیا ) یاخدا یہ کیا ہوا کیا نہیں ۔۔یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سچ ہوگا ۔۔تھوڑی دیر بعد میں نے کئی دوستوں سے رابطہ کیا اور سب نے یہی خبر دی اور ہر بار مجھے ایسا لگتا کہ یہ پہلی بار ہی بتایا جارہا ہے سیف علی ہماری کلاس کے پراکٹر اور ہمارے معزز دوستوں میں سے تھے نوجوان ،گول چہرہ ،لمبے بال دراز قد شخصیت کے مالک تھے ۔ اس میں اور بھی ایسی صلاحیتیں تھی جس کی بنا پر اسے پاکستان کی سیاسی جماعت میں بھی ایک عہدے سے نوازا گیا تھا یہ نوجوان ایک دن پشاور کے مشہور و مصروف ترین بازار قصہ خوانی میں سے گزر رہے تھے اور گھر کی طرف رواں دواں تھے کہ اچانک چند اسلحہ لیس افراد نے اس پر فائرنگ کی اور اسے خون میں لت پت چھوڑ کر اسلحہ لہراتے ہوئے چلے گئے بعدازاں اسے ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جدم توڑ گئے آج بھی جب میرا گزر اس بازار سے ہوتا ہے تو دل خوں کے آنسو رونے لگتا ہے کہ کس طرح ایک بھرے بازار میں نوجوان محفوظ نہیں رہ سکتا اور یہ مسئلہ صرف ایک نوجوان کا نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کا ہے یعنی کہ شہریوں کی زندگیاں اب مصروف ترین بازاروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔۔یہ خبر اس واقعے کے دوسرے روز مقامی میڈیا پر گردش کرتی رہی اور کچھ ہی دنوں میں سیف علی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ خبر کا بھی خاتمہ ہوگیالیکن کئی دہایؤں سے بدامنی،بے انصافی ،شہریوں کی زندگیوں کا عدم تحفظ اور معاشی بدحالی جیسے بدتریں اور زندگی اجیرن بنانے والی چیزوں کا خاتمہ نہیں ہوسکااور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے چٹکارا پانے کے لئے حکومتیں بدلتی رہتی ہے اور حکمران دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کئے ہوئے وعدے کھبی بھی وفا نہیں کئے گئے۔یہ صرف ایک سیف علی نہیں بلکہ ایسے ہزاروں نوجوان لقمہ اجل بن گئے اور ان کے ورثاء سے خوں بہا کے وعدے بھی کئے جاتے ہیں لیکن وہ امداد بھی ان کو نہیں ملتااور ان ہی کی وجہ سے حکمران لواحقین سے وعدے کرکے اپنے ووٹ ہی کم از کم پکے کرلیتے ہے:
موت سے تیرے دردمندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہو گی

سیف علی کا ایک خاندان بن گیا تھا اسکی شادی میٹرک میں ہی ہوگئی تھی اور اب وہ ایک بیٹی کا باپ بھی تھا والدین انکے آبائی علاقے میں رہتے تھے اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈبگری گیٹ میں کرائے کے مکان میں رہرہا تھا تعلیم گاوں میں میسر نہیں تھی اسلئے انکو مجبورا شہر منتقل ہونا پڑا صرف یہی نہیں بلکہ شہر میں زندگی کی اور بھی بہتر سہولیات میسر ہوتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب شہر میں زندگی بہتریں سہولیات سے تو منور ہوسکے لیکن زندگی کی حفاظت نہ ہو سکے تو ان سہولیات سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہیاور اس طرح بھرے بازار میں شہری زندگی کا عدم تحفظ انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے دلسوز واقعات سے نمٹنے کے لئے اگر بھرپور اقدامات نہ کئے گئے اور ان مسائل کا حل نہ کیا گیا تو آئندہ کی کسی قسم کے ایسے واقعے کے نہ ہونے کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی شہری کے دلوں سے خوف نکالا جاسکتا ہے اور جب تک خوف کا ماحول قائم رہے گا تب تک زندگی کے بہترین سہولیات کا استعمال ممکن نہیں اور نہ ہی سیف علی جیسے نوجوانوان بے خوف و خطر شہر میں زندگی گزار سکینگے۔

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 30296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.