ایک معروف مقولہ ہے کہ "تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے ۔ہر
انسان کی طرح میں نے اس مقولے کی صداقت کا اپنی زندگی میں لا تعداد مرتبہ
مشاہدہ کیا ہے ڈاکٹر اور سیاست دان ہونے کے ناطے میرا واسطہ ،ہر روز مختلف
شعبہ ھائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے پڑتا ہے میں نے بہت سے ایسے
افراد کو دیکھا ہے جن کو کم و بیش ایک ہی طرح کے حالات کا سامنا ہوا تو ان
سب کے حالات کا نتیجہ تقریبا ایک ہی طرح کا نکلا ۔
اس مقولے کی صداقت صرف عام زندگی میں نظر نہیں آتی بلکہ سیاسی،مذہبی،دینی ،معاشرتی
اور اقتصادی حوالے سے بھی یہ مقولہ سو فیصد سچ ثابت ہوا ہے مثال کے طور پر
ایک ایسی قوم جو اندرونی خلفشار اور اختلاف کا شکار ہو وہ کبھی بھی دوسری
اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس لئے کہ بیرونی دشمن ناصرف کسی قوم کے
شیرازے کو بکھرنے سے بچاتا ہے بلکہ قوم میں یکجہتی کی نئی روح پھونک دیتا
ہے اس کے بر عکس اگر کسی قوم کو اندرونی دشمنوں کا سامنا ہو تو ایسی قوم کو
تباہی و بربادی کےلئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے وجود کو
چاٹنے کے لئے اندرونی دشمن ہی کافی ہوتے ہیں۔
عالم اسلام کے موجودہ حالات پر نگاہ دوڑائیں تو ایک مایوسی کی فضا ذہن کی
فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اسی طرح اگر وطن عزیز کے حالات دیکھیں تو
مایوسی کے بعد دست نیاز اللہ کی بارگاہ میں اٹھ جاتے ہیں اس لئے کہ حالات
جس طرف جا رہے ہیں پاکستانی قوم کے لئے اچھے نہیں ہیں مختلف فکری ،فقہی اور
علمی اختلافات کسی بھی قوم کی ترقی اور تحرک کا سبب بنتے ہیں لیکن جب یہی
اختلافات اس نھج تک پہنچ جائیں کہ ایک دوسرے کو مارنے مرنے پر نوبت آ جائے
تو نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں نکلتا ہے آج کے انسانی معاشرے ہر میدان میں
نت نئے افق ڈھونڈ کر اپنی نسلوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں دوسری
طرف جن لوگوں کا یہ فریضہ ہے کہ انسان کو اس کی معارج تک پہنچائیں وہ ایک
دوسرے کے دست و گریبان ہیں انتہائی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے مسائل کی بنیاد پر
نا صرف مخالف مسلک کی توہین کی جاتی ہے بلکہ اسی آن میں اسلام سے خارج قرار
دے دیا جاتا ہے مثال کے طور پر رسول اللہ ص نے ۲۰ نماز تراویح کی بیس
رکعتیں پڑھیں یا آٹھ اس نوعیت کے مسائل کی بنیاد میں نفرت کے وہ بیج عام
لوگوں میں بو دیئے گئے کہ یہ بیج تناور درخت بن کر اپنے ہی بھائیوں کا گلا
کاٹنے سے بھی نہیں گبھرائیں گے ۔
مولانا حافظ سعید بے شک ایک عالمی شخصیت ہیں پاکستان میں تعلیمی میدان میں
ان کی خدمات قابل تحسین ہیں لیکن حافظ صاحب کو ہمیشہ مسلک کی بنیاد پر ہی
دیکھا جاتا ہے اس لئے کہ بعض شدت پسند اہل حدیث نے دیوبندیوں کو اس حد تک
دھتکار ا ہے کہ حافظ صاحب کی شناخت ایک مسلک کے رھنما سے بڑ ھ کر کچھ نہیں
ہے ۔ ایک دور میں ایک خاص مسلک کے لوگوں کو ریاست نے جہاد کی ترغیب دے کر
اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا تو یہ مسلک پاکستان میں اس حد تک آگے چلا
گیا کہ دوسرے اکثریت والے مسالک پس منظر میں چلے گئے اس مسلک کو غیر معمولی
طور پر سپورٹ کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ عالمی سطح پر اس مسلک کے خلاف آوازیں
اٹھنے لگیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہماری ریاست نے پوری پاکستانی قوم کو
اعتماد میں لینے کی زحمت گوار نہیں کی اور صرف اہل حدیث کو ہمسایہ ملک کی
فوج کو سبق سکھانے کے لئے استعمال کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مولانا
حافظ سعید کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اگر ریاست کسی بھی طرح
کی کاروائی میں دوسرے مسالک بلکہ تمام پاکستانی قوم کو شامل رکھتی تو آج
نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ امریکہ اور بھارت جیسے لوگ کسی ایک خاص شخص کے
خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے ۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ریاست اپنی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لے اور دیکھے
کہ غلطی کہاں پر ہوئی اس کے بعد اس غلطی کا ازالہ کرے نہ کہ کسی ایک شخص کی
خاطر پوری پاکستانی قوم کے مفادات کو قربان کر دیا جائے ایک ایسی ہی غلطی
ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں کی جا چکی ہے جہاں صرف ایک شخص کو بچانے کے
لئے پوری افغانی قوم کو قربان کر دیا گیا اسامہ بن لادن کو بھی نہ بچایا جا
سکا اور لاکھوں مسلمان بچے،جوان بوڑھے عورتیں اپنی جان سے گئے ۔
اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے تو ایک شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرنے میں
کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیئے اور پورے پاکستان کو ایک شخص پر قربان کرنے سے
گریز کرنا چاہیئے ورنہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ
"تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے"
|