جعلساز

جعلسازی اور فراڈ ہر دور میں جانے پہچانے نام رہے ہیں۔ آج کے دور میں دھوکہ دہی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کے انداز بدل گئے ہیں۔ کوئی بڑا فراڈ کرتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ کوئی سیاسی اور کوئی معاشرتی۔یہ وبا یہاں اس قدر پھیل رہی ہے کہ پاک فوج کو بھی انتباہ کرنا پڑا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل آصف غفور عوام کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ بعض جعل ساز خود کو فوجی افسر یا اہلکار بتا کر لوگوں سے فون پر ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات لیتے ہیں ، فون کالز پر مردم شماری کی تصدیق کی آڑ میں عوام کے شناختی کارڈ اور بینک کھاتوں وغیرہ کی تفصیل حاصل کر کے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ عوام سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی فون کالز کا کوئی جواب نہ دیں۔ کیوں کہ یہ کالز فوج نہیں کرتی۔ اگر کوئی فوج کے نام پر کال کرے تو ہیلپ لائن 1135اور 1125پر اطلاع دی جائے۔ فوج کے نام پر عوام کو لوٹنے کا یہ سلسلہ شاید دیگر راستے مسدود ہونے کے بعد تلاش کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے عوام کو موبائل فون، ایس ایم ایس یا ای میل پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لوٹا گیا ہے۔ تقریباً ہر کسی کو موبال پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے کال موصول ہوئی ہو گی۔ جس میں خوشخبری سنائی جاتی رہی کہ آپ کا نام ہزاروں روپے کی امداد کے لئے منتخب ہوا ہے۔ یا مکان، گاڑی کی نوید سنائی گئی۔ لاٹری کے نام پر بھی لوٹ مار جاری رہی ہے۔ ٹوکن اور فال کے نام پر بھی عوام کو لوٹا جاتا رہا ہے۔ کبوتر فال نکالنے والے بھی جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ قسمت بتانے والے بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ دوشیزاؤں کی ٹولیاں بھی گھروں میں جعلسازی کے لئے وارد ہوئیں۔ مختلف اشیاء کی فروخت کے نام پر جعلسازی ہوئی۔ افریقہ سے کسی یتیم اور معصوم دوشیزہ نے بھی ای میل پر ہزاروں لوگوں کو اپنی دولت مندی اور اس میں کسی کو حصہ دار یا شراکت دار بنانے کے لئے پیشکش کی۔ ایسے لا تعداد حربے آزمائے گئے ہیں۔ جو آج بھی جاری ہیں۔ لوگ حرص اور لالچ میں آ کر یا راتوں رات مالدار بننے کے لئے ان کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ ان فراڈیوں کا جال انوکھا اور دل چسپ ہوتا ہے۔ یہ ان کی ہمت ہے کہ وہ اب فوج کے نام پر جعلسازی کرنے لگے ہیں۔ کئی لوگ پکڑے بھی گئے ہیں۔ آج اے ٹی ایمز بھی فراڈ کا زریعہ بن رہے ہیں۔ بعض چینی گروہ بھی اس فراڈ میں ملوث نکلے ہیں۔

ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور دیگر کئی ایجنسیاں سائبر اور ای کرائمز کی روک تھام کرسکتی ہیں۔ شاید وہ بے بس ہو چکی ہیں۔ اگر کسی موبائل نمبر سے کوئی فریبی کال آتی ہے۔ اس کا پتہ چلانے میں زیادہ مشکل کیوں در پیش رہتی ہے۔ موبائل نمبر یا ایس ایم اایس یا ای میل کی شناخت کیوں نہیں ہو پاتی۔ شاید یہاں ٹیکنالوجی اس قدر جدید یا کار آمد نہیں بن سکی۔ جس کی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ لوگ فراڈ کیوں کرتے ہیں۔ دوسروں کا محنت و مشقت سے کمایا گیا مال جعلساز کو کیسے ہضم ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ رزق حلال کے بجائے حرام اور ممنوعہ طور طریقوں کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ یہ اصل میں معاشرے میں نام و نمود، دولت کی حرص، لوگوں کا معیار زندگی بلند ہونا، حرام کمائی، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، اور دیگر وجوہات ہیں کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ عناصر اس طرف نکل رہے ہیں۔ نیز میرٹ کی مامالی، رشوت، سفارشی کلچر بھی لوگوں کو اس جانب راغب کر رہا ہے۔ اگر سماجی انصاف نا پید ہو جائے، مادیت پرستی روایت بن رہی ہو، رشوت اور سفارش سے نکمے اور نا اہل لوگ نوازے جائیں۔ وہ عوام کی کمائی پر مدبرانہ اور قانوی طور ہاتھ صاف کر رہے ہوں، ایسے میں ایک محنت کش کا تصور بدل جاتا ہے۔ تا ہم یہ بالکل درست نہیں کہ ایک ذمہ دار اور اچھا شہری بھی غلط راستے پر چل پڑے۔ اگر اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ، کسی نے حق تلف کیا تو اس کا انتقام معاشرہ سے نہیں لیا جا سکتا۔ یہ تادیبی کارروائی ہے۔ اس لئے سماجی انصاف ان جرائم کو کم کر سکتا ہے۔ ہمارے سامنے لا تعداد ادارے ، سرکاری، نیم سرکاری یا غیر سرکاری ہیں۔ جو ملازمین کی بھرتی کے لئے من مانی کرتے ہیں۔ اسامی کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ تحریری امتحان، انٹرویو، اہلیت کا معیار نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ صرف اپنی انا کی تسکین، نوکری پکی کرنے یا اپنی مراعات میں اضافے کے لئے ارباب اقتدار کو خوش کیا جاتا ہے۔ نا اہل لوگوں کو تقرر کیا جاتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو معاشرے میں نئے مجرم اور نئے جرائم متعارف کراتے ہیں۔ اس پر قابو پانے کے لئے احساس ضروری ہے۔ اقدار یا کردار کے سامنے سب کم تر ہے۔ برا عہدہ یا بڑا پیکیج اگر کوئی اپنے لئے پسند کرتا ہے تو اسے دوسروں کا بھی کچھ خیال کرنا چاہیئے۔ اگر ایف آئی اے یا پی ٹی اے یا دیگر متعلقہ لوگ خواب خرگوش میں ہیں تو ان کو بیدار کرنے کے لیئے معاشرے کو متحرک ہونا چاہیئے۔ معاشرہ کیا ہے۔ یہی گلی، محلہ ، گاؤں، اور اس کے باشندے۔ یہ کوئی جواز نہیں کہ کسی پر کسی نے ظلم کیا تو سزا وار تمام لوگ ٹھہرائے جائیں۔ جو کسی بھی طور پر غلط کام کرے ، اسے سزا ملے۔ جو اچھا کام کرے ، اسے جزا ملے ۔ سزا اور جزا کا نظام متحرک ہونا ضروری ہے۔ پھر پاک فوج کے ترجمان کو شاید عوام کو جعلسازوں سے خبردار کرنے کی ضرورت درپیش نہ آئے۔ پھر شاید کسی کا مال حرام کی راہ نہ چلا جائے۔ اور کوئی سادہ لوح ، پاک فوج کی محبت اور اعتماد کی آڑ میں دھوکے میں نہ آ سکے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555265 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More