مفادات کے آڑ میں محنت کشوں کا قتل عام

پنجاب میں لاہور کے مین پیر مکھی روڈ پر گذشتہ روز باجوڑ سے تعلق رکھنے والے 2 مزدوروں کو قتل اور 1 کو زخمی کردیا گیا۔ یہ واقعہ محنت کش طبقے اور ملک میں بسنے والی قوموں کے درمیان بڑھتے ہوئے اتحاد پر کاری وار ہے جو خود اپنے حقوق کے لیے بلند ہوتی ہوئی آوازوں کو گھونٹنے کا موقع فراہم کرے گا۔ بعض عناصر اس صورتحال سے نفاق اور نفرت کو فروغ دینے کی قابل نفرت کوشش کر رہے ہیں۔یہ واقعہ ہمارے ارض پاکستان میں جاری ریاستی جبر کو مزید بڑھاوا دینے کا موقع فراہم کرے گا، جب کہ مزدوروں میں خوف اور عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کرے گا۔

یہ شہید مزدورنہ ہی کسی متنازعہ منصوبے پر کام کر رہے تھے اورنہ ہی کسی ریاستی تعمیراتی کمپنی کے ملازم تھے۔یہ مزدور پیر مکھی روڈ پر کباڑ کے جوتے اور کوٹ ٹھیلوں پر لگاکر اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کے تلاش میں تھے۔

اس سلسلے میں گذشتہ روز سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری کے جانب سے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی باجوڑ ایجنسی کے دوسرے بڑے تجارتی مرکز عنایت کلے بازار میں اس ریلی نے جلسے کی شکل اختیار کی اس موقع پر علاقے کے مشہور سماجی شخصیت ملک شاہ ولی خان ماموند کا کہنا تھا کہ اس سانحے پر تمام سیاسی،مذہبی جماعتوں اور حکومت کی بے حسی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ محنت کشوں کے اس بھیانک قتل عام پر میڈیا کی مجرمانہ خاموشی اوربے حسی اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ انھیں مزدور مسائل اور ان کی زندگیوں سے رتی بھر بھی ہمدردی نہیں ہے۔یہ امر باعث تشویش ہے کہ سی پیک اور دیگر نام نہاد ترقی کے منصوبوں کے نام پر قوموں کے وسائل اور محنت کش طبقے کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔

اس مسئلے کو قومیت کا رنگ دینے کی کوشش ہرگز نہ کی جائے ، افسوس علاقائی سیاسی لیڈروں پر ہیں جنہوں نے اس مسئلے کو مزید متنازعہ بنانے کے کوشش کرتا ہوئے متاثرہ خاندانوں کے گھروں کے چکر کاٹنے شروع کردیئے ہیں یہ تو نہ سیاسی مسئلہ ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک قوم کا معاملہ ہے اگر آج ہمارے مزدور قتل ہوئے ہیں تو کل کسی اور قوم کے بھی قتل ہوسکتے ہیں لیکن پھر بھی افسوس اس بات پر کہ جب بھی قومیت کی آڑ میں مزدوروں کا قتلِ عام ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مزدور طبقے کی دشمن قوم پرستی کی فکری، سیاسی اور اخلاقی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ جب کسی قوم کے قوم پرست کسی دوسری قوم کے مزدوروں کو غاصب قرار دے کر ان کا خون بہاتے ہیں تو باقی قوم کے قوم پرست چپ رہتے ہیں کیونکہ مرنے والے مزدوروں کا تعلق ان کی اپنی قوم سے نہیں ہوتا۔ لیکن جب ان کی قوم سے تعلق رکھنے والے مزدور قتل ہوتے ہیں تو یہ چیخ پڑتے ہیں، سخت احتجاج کرتے ہیں اور دہائیاں دیتے ہیں کہ ان کی قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم پر دوسرے لوگ خاموش کیوں ہیں؟ اس پر دوسری قوموں کے قوم پرست جوابا کہتے ہیں کہ جب ہماری قوم کے مزدور مرے تھے تب تم بھی تو خاموش تھے۔ ان میں سے ہر کسی کے دل میں مزدور کا درد اس وقت اٹھتا ہے جب وہ ان کی اپنی قوم کا ہو۔

اس افسوس ناک واقعہ کی شفاف تحقیقات کے ساتھ ساتھ پیر مکھی روڈ لاہور میں شہید ہونے والے ضیا الرحمٰن اور اول خان کے ورثا کو فی کس تیس لاکھ روپے اور زخمی کو دس لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے، پنجاب بھر میں پختون محنت کشوں کو تحفظ فراہم کیا جائے،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ پنجاب بھر میں پر پختون محنت کشوں سے روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک کا نوٹس لیکر لیبرقوانین کے اطلاق کو یقینی بنائے تاکہ لسانیت اور قوم پرستی کے جنون کو روکا جاسکے اور نفرت کی ہوا کو پھیلنے کا سدباب بھی ہوسکے، کیونکہ پنجاب میں سانحات میں شہید ہونے والے افراد کو فی کس تیس لاکھ معاوضہ ملتا ہے اگر کسی پختون محنت کش کے ورثا کو بھی یہ معاوضہ مل جائے تو تفریق کی فضا ختم ہوجائے گی۔
اس سلسلے میں قوم پرستوں کا کردار بھی قابل افسوس ہے کیونکہ قوم پرستوں کے نزدیک مزدور کا مزدور اور مجبور ہونا کافی نہیں بلکہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ وہ ان کی اپنی قوم کا فرد ہو۔ اگر دوسری قوم کا مزدور ان کے قومی علاقے میں روزگار کرے تو یہ انہیں منظور نہیں۔ البتہ اگر ان کی قوم کا مزدور دوسری قوموں کے علاقوں میں کام کرے تو انہیں اس پر اعتراض نہیں۔ ان کی قوم کے مزدوروں کا استحصال ان کی اپنی قوم کا امیر طبقہ کرے یا کسی دوسری

قوم کا انہیں کوئی پریشانی نہیں۔صرف مزدور طبقہ تمام قوموں کے مزدوروں کے طبقاتی اتحاد کے ذریعے ہی قومی اور دیگر تمام ناانصافیوں کا خاتمہ کرنے کا اہل ہے۔ قوم پرستی مزدوروں اور محنت کش عوام کے اس بین الاقوامی اتحاد کو تقسیم کرنے کے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے حکمران طبقہ مختلف طریقوں سے قوم پرستانہ سیاست کو ہوا دیتا رہتا ہے۔ طبقاتی شعور سے لیس ہر شخص کو قوم پرستی کے ذریعے مختلف قوموں کے مزدور طبقے اور محنت کش عوام میں پھوٹ ڈالنے اور تقسیم کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور قوم پرستی کی مکمل اور بھرپور مخالفت کر کے سیاسی منافقت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

Bilal Yasir
About the Author: Bilal Yasir Read More Articles by Bilal Yasir: 12 Articles with 19124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.