ننھی پری زینب کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر
رکھ دیا ہے گو کہ بچوں سے زیادتی کایہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے کہ
زینب جیسی ان گنت کلیاں ہر سال درندوں کے ہاتھوں مسلی جا تی ہیں کہ اس سے
پہلے بھی قصور شہر کی ہی 11 بچیاں درندوں کی درندگی کا شکار ہوکر موت کے
گھاٹ اتاری جا چکی ہیں لیکن آج کل جس تواتر سے اس قبیح فعل پر گفتگو
،مباحثے اور احتجاج ہو رہا ہے وہ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کیونکہ فطری
طور پر جنسی استحصال پربات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ اور پردہ داری حائل ہوتی ہے
اسی لیے ایسے واقعات میں سے چند ایک ہی رپورٹ ہوتے ہیں وہ بھی بعد ازاں
دیمک زدہ الماریوں کی نذر ہو جاتے ہیں بدیں وجہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بچوں
سے زیادتی، تشدد اور قتل وغارت گری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بچے اور بچیاں بالکل محفو ظ
نہیں رہے اور مجرم دندناتے پھر رہے ہیں ۔مجرم پکڑے نہیں جاتے اور اگر چالان
ہو جائیں تو عدالتیں مہربان ہوجاتی ہیں اور اگر عدالتیں سزائیں سنا دیں تو
سیاست مہربان ہو جاتی ہے ۔
تاہم آج والدین پر یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے
واقعات اتنے عام ہو چکے ہیں کہ ان کے بچے اس گھٹن زدہ ماحول میں قطعاً
محفوظ نہیں ہیں ۔ارباب اختیار بھی بے بس نظر آتے ہیں اور اُلٹا والدین کو
ہی مؤرد الزام ٹھہراتے ہیں ۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قریبی رشتہ دار اور
خونی رشتوں کے ہاتھوں ہی بچے زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں لیکن گذشتہ
چار سالہ رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ اس قبیح فعل کو قریبی رشتے داروں کے
علاوہ سکول اور مدرسہ کے استاد ،دوکاندار اور علاقے کے با اثر افراد کے
بگڑے ہوئے فرزندان بھی سر انجام دیتے ہیں جس کیوجہ سے بچوں کے ذہن پر ڈر
اور خوف کے نفسیاتی اثرات انھیں والدین کو آپ بیتی بتانے سے روکتے ہیں ۔
حالیہ تحقیق کے مطابق ایسے واقعات اگر رپورٹ بھی ہو جائیں تو بھی ان پر
کوئی خاص ایکشن نہیں لیا جاتا سوائے اس کے کہ ٹی وی چینلز پر پٹی چل جاتی
ہے کہ خادم اعلیٰ نے’’ ایکشن‘‘ لے لیا ہے اور متعلقہ پولیس افسران کو’’
معطل‘‘ کر دیا ہے حالانکہ معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ سبھی افسران’’ بحال‘‘ کر
دئیے جاتے ہیں جبکہ درد و کرب کا شکار بچیاں معاشرتی پھٹکار ، نفسیاتی
اثرات ، گھریلو طنز و تشنیع کے زیر اثر یا تو خود سوزی کر لیتی ہیں اور یا
برائی کے راستے پر سکون کی تلاش میں چل پڑتی ہیں، کچھ آمنہ جیسی باہمت اور
اذیت پسند بھی ہوتی ہیں کہ تھانوں کے آگے خود کو آگ لگا لیتی ہیں اور کچھ
کو برہنہ پورے گاؤں میں گھمایا جاتا ہے لیکن کوئی آواز نہیں اٹھتی اور نہ
ہی کوئی شمع جلتی ہے تو ایسی بچیاں کہاں بچتی ہیں ؟
اگر گذشتہ تین برسوں کے اعدادو شمار کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو ہم یہ کہنے
پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ موجودہ حکومت چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم
کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور گڈ گورننس کا خواب سراب ہو چکا
ہے ۔2015 میں قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کا سب سے بڑا سکینڈل سامنے آیا
جس کے مطابق 2006 سے 2014 کے دوران حسین والا ضلع قصور میں 280 سے 300 بچوں
کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیو زبنائی گئیں اور پھر ان ویڈیوز
کے ذریعے والدین کو بلیک میل کر کے پیسے بٹورے گئے ۔اس واقعے میں تفتیش کے
دوران یہ انکشاف بھی ہواکہ پولیس سمیت مقامی اعلیٰ سیاسی عہدے داران بھی اس
گھناؤنے کھیل میں شریک تھے۔اس قبیح فعل پر حکومتی ردعمل انتہائی مایوس کن
تھا کہ رانا ثنا اﷲ نے واشگاف الفاظ میں بیان داغا کہ قصور میں اس قسم کا
کوئی واقعہ نہیں ہوا یہ زمین کا تنازع تھا جس کیوجہ سے الزام لگایا جا رہا
ہے ۔میڈیا کیطرف سے رانا ثنا اﷲ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ
میڈیا لٹنے والے بچوں اور والدین کو مسلسل کوریج دے رہا تھا مگر نتیجہ
ندارد کہ مذکورہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب نے محکمہ
داخلہ کو ہدایات جاری کیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی
بنائی جائے جو کہ ایسے تمام واقعات کی تفتیش کرے ۔لیکن عدالت عالیہ لاہور
نے معذرت کر لی کہ ایسے کیسسز کی جوڈیشل انکوائری نہیں ہو سکتی ۔سیاسی اور
قانونی طور پر خاموشی کے بعد بچوں سے زیادتی کے خلاف مقامی آبادی بالخصوص
متاثرہ بچوں کے والدین نے شدید احتجاج کیا پولیس نے احتجاج روکنے کی کوشش
کی تو مظاہرین نے پتھراؤ کیا جبکہ جواباً پولیس نے لاٹھی چارج کیا مگر
انصاف فراہم نہیں کیا ۔
ایک غیر سرکاری ادارے ’’ساحل ‘‘نے 2017میں ’’ظالمانہ اعدادو شمار ‘‘ کے نام
سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں روزانہ تقریباً 11 بچے جنسی
زیادتی کا شکار بنتے ہیں ۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ 2016 کے دوران بچوں سے
جنسی زیادتی کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ادارے کے سروے کے مطابق
2016 میں بچوں سے جنسی تشدد کے 4139 واقعات رپورٹ ہوئے جو بڑے جرائم رپورٹ
ہوئے ان میں اغوا کے 1455 ،ریپ کے 502 ،بچوں کے ساتھ بد فعلی کے 453 ، گینگ
ریپ کے 271،اجتماعی زیادتی کے 268 ،جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس
رپورٹ ہوئے جوکہ 2015 سے دس گنا زیادہ ہیں کیونکہ سال 2015 میں 3768
مجرمانہ واقعات رونما ہوئے ۔اس رپورٹ میں واضح کیاگیا کہ ان واقعات میں سب
سے زیادہ سنگین جرم زیادتی کاشکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے کہ زیادتی کے
بعد قتل کے سو واقعات کی تفصیل پائی گئی ۔
ساحل کی 2017کی ششماہی رپورٹ کے اعدادو شمار کے مطابق جنوری سے جون تک ملک
بھر سے زیادتی کے 1764واقعات رپورٹ ہوئے جس میں 1067 واقعات میں لڑکیوں کو
جبکہ 697 واقعات میں لڑکوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس میں دس سال سے کم
عمر بچوں کی تعداد 438 تھی ۔انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 2017 میں بچوں
سے جنسی زیادتی کے واقعات گذشتہ دو سالوں سے بھی دس گناہ زیادہ رہے جبکہ
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی کے 142 ، 253 ریپ کیسز
،313 گینگ ریپ کی ایف آئی آر درج کی گئیں ۔اگر ان جنسی تشدد کے واقعات کو
صوبائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو پنجاب سرفہرست نظر آتا ہے کیونکہ سندھ میں
تو وڈیروں کے ہاتھوں ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں لیکن باقی صوبوں میں یہ
تعداد ان دو صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔تمام رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ
ہر روز 11بچے جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں گذشتہ تین سالوں کے اعداد و
شمار کے مطابق بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں 22 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جوکہ
کافی تشویشناک ہے ۔بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں میں اجنبی ، واقف کار
،رشتہ دار ،پڑوسی ، مولوی ،اساتذہ ،ڈرائیور ، دوکاندار اور پولیس والے بھی
ملوث پائے گئے تھے ۔واضح رہے کہ یہ محتاط اعدادو شمار صرف ان کیسز کے ہیں
جوکہ رپورٹ کئے گئے کیونکہ ایسے واقعات رپورٹ بھی نہیں کئے جاتے اور اگر
کئے جائیں تو پولیس کی طرف سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے یاکیس کو ایسے توڑ
مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ ملزم با لآخر بری ہوجاتا ہے لہذا ایسے واقعات
میں فی زمانہ خاموشی کو بہترین حکمت عملی قرار دیا گیا ہے -
بہر حال یہ قبیح فعل صرف پاکستان میں ہی عام نہیں بلکہ آج پوری دنیا اس
مسئلے سے نبرد آزما ہے مگر نجات کا حل نہیں مل رہا۔بین الاقوامی مشاہدے کے
مطابق برطانیہ ، امریکہ ،جرمنی و دیگر مغربی ممالک میں جنسی استحصال کا
شکار ہونے والے بچوں کی اکثریت اپنے ہی خاندان کے افراد یا احباب کی ہوس کا
نشانہ بنی اور ایسے 85 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ان واقعات میں سے
پچھتر فیصد لڑکیاں ہیں اور یہ نو سال کی عمر کے آس پاس ہوئے دنیا بھر میں
جنسی استحصال کا شکار بچوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں رہتی ہے۔بھارت میں
بچوں کا جنسی استحصال وبائی شکل اختیار کر چکا ہے کہ ہر تین گھنٹے پر کسی
نہ کسی بچے یا بچی سے جنسی بد سلوکی ہوتی ہے جنوبی ہند کے ایم پی چندر
شیکھر نے تو اس مسئلے کا گنہگار پولیس اور حکومت کوقرار دیا ہے اور کہا ہے
کہ یہ وہ مسئلہ ہے جو رازداری اور انکار کی تہذیب کی چادر میں لپٹا ہوا ہے
اور حکومت کی بے حسی میں پروان چڑھ رہا ہے ۔سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ
ہے کہ اگر بچے نے کسی کو بتا بھی دیا تو بھی استحصال نہیں رکتا بلکہ والدین
بھی شاز و نادر ہی بچوں کے تحفظ کے لیے مداخلت کر پاتے ہیں ۔مختلف رپورٹس
کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ماؤں کے علم میں ہوتا ہے مگر وہ بچے
کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں بلکہ مجبوراًنظر انداز کر دیتی ہیں اور
یوں استحصال کرنے والے کا حوصلہ بڑھتا ہے ۔جائزے کے مطابق ایسی خواتین کو
تنہا رہ جانے یا خاندان سے الگ کئے جانے کا خوف ہوتا ہے اس لیے وہ خود بھی
نظر انداز کرتی ہیں اور بچی کو بھی یہی تلقین کرتی ہیں ۔اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ اس میں سب سے زیادہ قصور وار والدین کا ہے جوکہ بچوں کو مناسب
وقت نہیں دے پاتے یا انھیں ایسے لوگوں کے حوالے کر کے بھول جاتے ہیں جوکہ
کھلونوں سے کھیلنے والوں کو کھلونا سمجھ لیتے ہیں ۔
آج اس قبیح فعل کو روکنے کے اشد ضرورت ہے کیونکہ ہماری نسلیں داؤ پر لگ چکی
ہیں ۔حکمرانوں کے بچوں کے علاوہ کسی کے بچے محفوظ نہیں ہیں اور خطرات بڑھتے
ہی چلے جا رہے ہیں کہ کچرے کے ڈھیر پر جگر گوشوں کے کٹے پھٹے اور زخم زخم
لاشے دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے مگر حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ ایسے واقعات
ہوتے رہتے ہیں ان کو اتنا ہائی لائیٹ سیاست چمکانے کے لیے کیا جا رہا ہے
اور اگر احتجاج کے لیے آوازہ بلند کیا جائے تو سر عام سیدھے فائر کر کے
ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ اس ظلم پر اگر سوال کیا جاتا ہے تو سوال
کرنے والے کو غداروطن کہا جاتا ہے ۔۔اندھیر نگری چوپٹ راج کی مانند حکمران
کرسی کرسی کھیل رہے ہیں اور عیش و عشرت میں مست مئے پندار ہیں عوام جب
انصافی گھنٹہ بجاتے ہیں تو اسی کے نیچے آکر مر جاتے ہیں ۔آج عوام کو اپنی
مدد آپ کے تحت ایک بڑا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ اپنے بچوں کی حفاظت
کو ممکن بنایا جا سکے ۔ اگر آپ بچوں کو اعتماد دیں گے ،ان سے چھوٹی موٹی
باتیں شئیر کریں یعنی دوستانہ ماحول بنائیں گے توبچے اپنی راز کی باتیں آپ
کو بتائیں گے ۔آپ بچوں کو بتائیں کہ اگر کوئی ان سے کسی بھی قسم کی بات یا
چھیڑ خانی کرے ،کوئی چیز کھانے یا کھیلنے کو دے تو وہ آپ کو بتائیں اور اس
پر انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اکثر والدین شرم کے مارے اپنے بچوں سے ایسی
باتیں نہیں کرتے جس کی وجہ سے جھجھک کا پردہ حائل ہو جاتا ہے کہ بچے بھی
اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات والدین کو نہیں بتاتے جب تک اس پردہ داری
اور ڈر کا خاتمہ نہیں ہوگا کہ ہمارے والدین نجانے کیا کہیں گے اور کیا وہ
یقین کریں گے ۔۔ تب تک ایسے مسائل بڑھتے رہیں گے۔
اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ فحاشی و
عریانی کو لگام دیکر اسلامی روایات کے مطابق اپنے ڈراموں اور پروگراموں کو
ترتیب دیا جائے کہ جن میں کامیاب زندگی گزارنے کا پیغام ہو ۔مجھے ایک بات
کی سمجھ نہیں آتی کہ بھارت اپنے ڈراموں اور پروگرامز میں روایتی بھارتی
لباس اور مذہب کو پروموٹ کرتاہے مگر ہم ہندو ازم ، مغربی لباس اور مغربی
روایات کو پیش کرتے ہیں ۔ ہمیں اپنی روایات ،لباس اور اقدار پر شرمندگی
محسوس ہوتی ہے جبکہ انھی روایات و اقدار کو لیکر قائد اعظمؒ نے دنیا کے
نقشے کو بدل دیا تھا اور دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم
ہیں کہ ان کی اقدار،روایات ،مذہب اورثقافت سب جدا ہیں مگر۔۔وائے ناکامی:
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج لبرلز جنسی تعلیم کو تعلیمی اداروں میں عام کرنے کا علم اٹھائے پھر رہے
ہیں۔ بھارت نے مغربی روایات کو عام کیا اور نتائج اتنے ہولناک ہیں کہ انھیں
ڈراموں کے ذریعے عورت کو ہمت کا سبق دینا پڑ رہا ہے ۔بد قسمتی سے ایک سوچے
سمجھے منصوبے کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کوSEX Free Country بنایا جا
رہا ہے ۔پہلے نصابی کتابوں سے اسلامی تعلیمات کو کم کیا گیا, پھر ختم نبوت
شق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور اب جنسی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مضمون
ترتیب دیا جارہا ہے کہ بچوں کے لیے SEX Awarenessوقت کی اہم ضرورت ہے
حالانکہ ارباب اختیار خود راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں کہ خوف الہی اور آخرت
سے بے خبر ہیں تو کیسے امن و امان اور محفوظ ریاست کا خواب دیکھا جا سکتا
ہے کہ اپنے بیشتر قبیح اعمال کی وجہ سے وہ بااختیار ہو کر بے اختیار ہیں
یہی وجہ ہے کہ اخلاقی جرائم بڑھ رہے ہیں۔سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا
کہ : اخلاقی جرائم لازمی طور پر خدا سے بے خوفی اور آخرت سے بے فکری کا
نتیجہ ہوتے ہیں ۔
مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج احیائے اسلامی اور احیائے تہذیب وقت کی
اہم ضرورت ہے ۔آج قرآن پاک کو نصابی مضمون کے طور پر ترجمے کے ساتھ پڑھانے
کی ضرورت ہے ۔ ایک صحت مند اسلامی معاشرہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔بے ہنگم
میڈیا کو لگام دینے کی ضرورت ہے ۔ اسلاف کی تعلیمات ،مشاہیر کے کارناموں
اور تاریخی حوالوں کو ڈراموں کے ذریعے پیش کرنے کی ضرورت ہے ایسے قبیح
جرائم کرنے والوں کوسر عام بیچ چوراہوں میں لٹکا کر سنگسار کرنے اور نشان
عبرت بنانے کی ضرورت ہے ۔آج اگر ہم بچوں کی معصومیت کو بچانا چاہتے ہیں تو
بالغ نظری کو عام کرنے کی بجائے بالغوں کی تربیت و اخلاق پر توجہ دینے کی
ضرورت ہے کہ اگر فرق مٹ گیا تو ہم بھی انھی ممالک کی صف میں کھڑے ہو جائیں
گے کہ جہاں رشتوں کا تقدس پامال اور عزتیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں ۔ |