ضمنی الیکشن پی پی 20 اس لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا کہ اس
میں ایم این اے میجر (ر) طاہر اقبال اور سابق ضلعی ناظم سردار غلام عباس کے
درمیان دوڑ لگی ہوئی تھی۔ اگرچہ دونوں نے انتہائی پُرخلوص انداز میں چوہدری
سلطان حیدر کا الیکشن لڑا اور سخت محنت کی مگر حتمی نتائج کے مطابق سردار
غلام عباس نے یہ معرکہ جیت لیا۔ سردار غلام عباس کا ذاتی ووٹ بنک اپنی جگہ
پر موجود ہے اور اس نے اس الیکشن میں ثابت بھی کیا ہے کہ جس طرف سردار غلام
عباس کا اشارہ ہو گا ووٹ بنک اُسی طرف جائے گا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے کہ چکوال میں سردار اور اینٹی سردار ووٹ رہا ہے مگر سردار غلام
عباس کے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے سخت فیصلے کو بھی سردار غلام عباس کے
ووٹرز نے کھلے دِل سے تسلیم کیا اور اس کی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ سردار
غلام عباس نے حالیہ ضمنی الیکشن حلقہ پی پی 20 میں یونین کونسلز ڈھڈیال،
پادشہان، چک ملوک، بھیں، چک عمرا، جبیرپور سے اچھے ووٹ حاصل کئے اور چوہدری
سلطان حیدر کی کامیابی اور لیڈ میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ نادان دوست یہ
کہتے ہیں کہ اگر سردار غلام عباس کے ووٹ نکال دیں تو پھر لیڈ کم رہ جاتی ہے۔
تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں سردار غلام عباس
نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا تب بھی مسلم لیگ (ن) نے ہر حلقے
سے عمدہ لیڈ حاصل کی تھی۔ یہ ہنگامی فیصلے ہوتے ہیں اور جیسے حالات ہوں
ویسے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس بار سردار غلام عباس مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھے
اور اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے لئے ووٹ مانگے۔
قارئین محترم کو یاد ہو گا کہ جب سردار غلام عباس مسلم لیگ (ن) میں شامل
ہوئے تھے تو میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’سردار عباس
اب رک جانا!‘‘۔ اس کالم میں میرے الفاظ کچھ یوں تھے: ’’حکمران جماعت مسلم
لیگ (ن) میں شمولیت کے حوالے سے خبریں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں مگر
چند دن پہلے لاہور میں حمزہ شہباز کے ساتھ ملاقات کے بعد باقاعدہ اعلان
شمولیت کیا۔ اگرچہ ان کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر چکوال کے ارکان
پارلیمنٹ زیادہ خوش نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں سب پرانی تنخواہ پر کام
کرتے رہیں گے۔ سردار ذوالفقار دُلہہ کو بھی میرا مشورہ ہے کہ وہ جذباتی پن
ختم کریں اور جس طرح عوام کی خدمت کر رہے ہیں اس تسلسل کو جاری رکھیں‘‘۔
آج آپ دیکھ لیں کہ میرے تجزیے کے عین مطابق تمام لوگ پرانی تنخواہ پر کام
کر رہے ہیں۔ دیکھیں مسلم لیگ (ن) ایک بڑی جماعت ہے اور جو لوگ سیاسی بصیرت
رکھتے ہیں اُن کو پتہ ہے کہ آنے والا وقت بھی مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ ابھی
حالیہ ’’دی اکانومسٹ‘‘ کی رپورٹ کو پڑھ لینا چاہئے جس میں اُس نے لکھا ہے
کہ 2018ء کے الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) جیتے گی۔ اس لئے کوئی بھی یہ نہیں
چاہے گا کہ وہ اپوزیشن میں جائے، چونکہ اپوزیشن میں رہنے سے حلقے کے
ترقیاتی کام نہیں ہوتے۔ اور جو ووٹ دیتے ہیں وہ ترقیاتی کام بھی مانگتے
ہیں۔
میں دادِ تحسین پیش کرتا ہوں سردار غلام عباس کو جنہوں نے انتہائی خوبصورت
انداز میں حلقہ پی پی 20 کا الیکشن لڑا اور اپنے ووٹرز کو بند مٹھی میں
رکھنے میں کامیاب رہے اور اپنی بات پر ثابت قدم رہے کہ مسلم لیگ (ن) میں
بلامشروط آیا ہوں۔ یقینا ایسے لوگ ہی حکمران جماعت کے لئے کامیابی کی ضمانت
بنیں گے۔ یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سابق ایم این اے چوہدری ایاز
امیر بھی پی ٹی آئی میں آنے کے لئے پر تول رہے ہیں یا اُن کو پی ٹی آئی میں
شمولیت کے لئے مدعو کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما
راجہ عامر کیانی نے بھگوال ہاؤس میں چوہدری ایاز امیر سے ملاقات کی اور اُن
کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دی۔ میرے خیال میں اب بلی کو
تھیلے سے باہر آہی جانا چاہئے۔ اُن کا بیٹا چوہدری شاہ نواز امیر تو پہلے
ہی پی ٹی آئی کا حصہ بن چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ این اے 60 میں اُونٹ کس
کروٹ بیٹھتا ہے۔ ویسے میرے خیال میں اگر سردار غلام عباس بمقابلہ چوہدری
ایاز امیر دنگل پڑا تو مقابلہ سخت ہو گا۔ یہ الگ بات ہے جیت شیر کی ہو گی۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |