کسی زمانہ میں پی آئی اے دنیا کی اہم ترین فضائی کمپنیوں
میں سے ایک تھی اس کی سر پرستی میں عالم اسلام کی بہت ساری فضائی کمپنیوں
نے جنم لیااور ترقی کے مراحل طے کیے پاکستان کے اندر بلیو ائیر لائن نامی
فضائی کمپنی ہمارے ہی محترم وزیر اعظم خاقان عباسی کی ملکیہ ہے اور اب ان
کا ایسا بیان دینا کہ اگر پی آئی اے خسارے میں جارہی ہے تو اسے بیچ ڈالنے
میں کیا حرج ہے؟ ذرا غور فرمائیں کہ ایک فضائی کمپنی کا پاکستانی مالک ایسی
باتیں کیوں کر رہا ہے ان کی ذاتی فضائی سروس کیوں منافع بخش ہے؟اور اسی ملک
کی دوسری کمپنی پی آئی اے کیوں اور کیسے خسارے میں جارہی ہے؟ ائیر مارشل
نور خان کے دور میں پی آئی اے بہت منافع بخش تھی اب کئی سالوں سے اس کو
یونین ازم نے سیاسی بکھیڑوں میں ڈال رکھا ہے جس سیاسی گروہ کی بھی یونین
منتخب ہوکر سودا کا ر ایجنٹ بن جاتی ہے وہ اپنے خاص ڈھیروں بندے اہم عہدوں
پر بھرتی کروالیتی ہے اور یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہنے سے اب حالت یہاں تک
پہنچ چکی ہے کہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ افسران ایسے ہیں جو کہ اہم ترین عہدوں
پر براجمان اور قابض ہیں مگر کبھی اپنی دیوٹیوں پر نہیں آتے اور بدستور
سالوں سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول فرما رہے ہیں دوسری طرف سر پلس
ملازمین کی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ایک طیارے کے لیے 7سے8 درجن سے بھی زائد
ملازم بھرتی کیے گئے ہیں جب کہ اتنی زیادہ تعداد کی قطعاً ضرورت نہ ہے اور
یہ سبھی بھاری مشاہرے اور مراعات حاصل کر رہے ہیں پی آئی کے ملازمین کی
تنخواہیں پہلے ہی ملک کے تمام دیگر اداروں سے دو تین گناہ زیادہ ہیں اور
یوں"اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں نوں"کی صورت مکمل قائم ہے پی آئی
اے ہمارا ایسا قومی ادارہ ہے جس کے ذریعے ہمارے اہم افراد اندرون و بیرون
ملک سفر کرتے ہیں اور زیادہ تروی وی آئی پی شخصیات بھی اسی میں سفر کرنے پر
ہمہ قسم تحفظ اور فخر محسوس کرتی ہیں اگر یہ ادارہ کسی غیر کو بک گیاتو
کوئی بھی انہونی واردات ممکن ہوسکتی ہے جیسے کہ سابق صدر ضیاء الحق کے
طیارے کے بارے میں آج تک چہ میگوئیاں جاری ہیں اب جو خطرہ منڈلاتا ہوا
موجود ہے وہ یہ کہ دوسرے اداروں کی فروختگی یا نجکاری کی طرح یہاں بھی
خریدار خود ہی حکومت کے اہم افراد ہوں گے مگر فرنٹ پر نام کوئی دوسرا ہوگا
تاکہ پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے اور یہ عمل ٹیلی فون کی
فروختگی نما نجکاری میں واضح ہوچکا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ کھربوں روپوں کی
ڈیل ہورہی ہو اور ہمارے ملک کے مقتدر طبقات کے لوگ ایسا بٹیرا پنے ہاتھ سے
نکل جانے دیں پھر جو بھی اسے خریدے گا وہ صرف منافع کمانے کے لیے نہ کہ
اپنا انویسٹ شدہ سرمایہ ضائع کرنے کے لیے ۔جو چند افراد پر مشتمل کمیٹی
کمپنی یا گروہ اسے خریدے گاوہ فوراً سینکڑوں افراد کی چھٹی کروڈالے گا اور
پی آئی اے کا مزدور بیروزگاری کے شکنجوں میں پھنس کر رُل جائے گا ۔اگر یہ
ادارہ سفید ہاتھی بنا خسارے میں جارہا ہے تو کوئی باکردار ومحنتی شخص اس کا
سربراہ مقرر کرکے ادارے کی اصلاح کی جاسکتی ہے وہ کسی رد عمل کو در خور
اعتنا نہ سمجھے ا ور زبردستی نااہل بھرتی کیے گئے افراد کی چھٹی کروا کر
اہل اور قابل افراد کی تعیناتی کرسکتا ہے ۔ اور ملازمین کو بیرون ملک مفت
سفر و دیگر فضول مراعات کو بند کر ڈالے تو پی آئی اے کا خسارا کم ہوکر
منافع میں بدل سکتاہے کئی گراؤنڈ کیے گئے طیاروں کی مرمت کا کام اعلیٰ
صلاحیتوں کے مالک افراد کی کمپنیوں سے ذاتی نگرانی میں بہت کم رقوم خرچ
کرکے کروائی جاسکتی ہے یہ طیارے بھی پروازوں کے قابل ہو کر منافع بخش کردار
ادا کرسکتے ہیں ایک طیارہ بیرون ملک بیچ ڈالاگیا مگر ریکارڈ نہ ہونے جیسے
دھاندلے تو یک قلم ختم ہوسکتے ہیں جب سربراہ گہرائی میں جائے گا تو اسے اس
کمپنی کے نظام میں بیشتر لوپ ہول نظر آئیں گے جن کو بند کرنے سے کروڑوں
روپوں کی بچت ہوگی پی آئی اے ملازمین کی بہت ساری تنظیمیں اس کی قطعاً
فروختگی نہیں چاہتیں ہڑتالیں و مظاہرے کر رہی ہیں کہ اس طرح ان کا مستقبل
بھی تاریک ہوگا اور اس میں تخریب کاری کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے کہ
بیرون ملک سے لائے گئے افراد کی بھرتی سے ملک دشمن ایجنسیاں اپنے ایجنٹ بھی
شامل کرواسکتی ہیں اور جب بھی نیا خریدار مالک بنے گاتو وہ اپنے عزیز و
اقارب و دوست احباب کو لازماً بھرتی کرے گا اور ہمارے پہلے سے بیچے گئے
ادارے ٹیلی فون کی طرح 1/3حصہ تعداد کو زبردستی گولڈن ہینڈ شیک دیکر فارغ
کریگا اور انھیں رقوم حاصل کرنے کے لیے سالوں چکر لگانے پڑیں گے اور جس طرح
ٹیلی فون کی نجکاری فروختگی پر عمارات و دفاتر کی کل رقوم سے بھی تقریباً
دسواں حصہ رقوم پر اسے فروخت کر ڈالا گیا تھا اسی طرح پی آئی اے کی قیمتی
عمارات، دفاتر اور طیاروں کی فروختگی کا بھی یہی حشر ہوگا اور خریدار اس کی
عمارات کو کمرشل بنیادوں پر بیچ بیچ کر سرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے رہیں
گے اور راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ2018کے انتخابات سے قبل ہی پی آئی اے کی
فروختگی کا واضح مطلب نظر آرہا ہے کہ انتخابات کے لیے شریفوں اور پارٹی کے
اہم عہدوں پر براجمان افراد کو ڈھیروں سرمایہ حاصل ہوسکے تاکہ آئندہ انتخاب
جو کہ پہلے کی طرح اب بھی مہنگے روپے پیسے کا کھیل بن چکا ہے اس کے لیے
زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا ہو سکیں۔کہ جو امید وار جتنی زیادہ رقم خرچ کرے
گا وہ اتنے ہی زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوسکے گا کہ اب کی بار تو کوئی
ووٹر بھی خرید و فروخت کے کریہہ بدبودار عمل سے گزرے بغیر ووٹ دینے کو تیار
نہیں ووٹر کو پتا ہے کہ ہمارے منتخب وڈیرے جاگیردار یا سود خور نودولتیے
سرمایہ دار نے بھی انتخاب مال بنانے کے لیے لڑنا ہے تو وہ بھی کیوں نہ اس
کے جتنے کپڑے انتخابات کے دوران اتارسکیں وہ اتار لیں ۔حکومتی امیدواروں کے
لیے یہ بھی آسانی ہے کہ جو آجکل ڈویلپمنٹ فنڈز وصول ہورہے ہیں انہیں
انتخابات کی جنگ میں جھونک کر جیتو اور پھر عوام کی کھالیں اتار اتار کر ان
رقوم کو پورا کرلو ڈھیروں مال خرچ کرکے کسی نہ کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرکے
منتخب ہو جانا مفاد پرست طبقات کے جغادری سیاستدانوں کا بائیں ہاتھ کا کھیل
ہے اور اسی طرح نا اہل لوگوں سے اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔ |