عرب معاشرے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے جس میں بہت سارے
اتا ر چڑھاؤ آتے رہے دین اسلام سے پہلے عر ب معا شرہ مختلف برائیو ں ‘ رسم
رواج ‘ اور جاہلت میں غرق تھا ۔دین اسلام کی روشنی سے نہ صرف پور عرب روشن
ہو بلکہ پوری دنیا میں اس کی روشنی پھیل گئی آج مو جو دہ سعودی عرب جو کبھی
سلطنت عـثما نیہ کے قبضے میں رہا اور با قا عدہ مملکت سعودی عرب کا قیا
م1932 ء میں برطا نیہ کی رضا مند ی سے ہو ا سعودی عرب کو اس وقت دنیا میں
اہمیت ملنا شروع ہو ئی جب 1937 ء میں مشرقی علاقے ’’الاحساء‘‘ میں تیل دریا
فت ہو ا اور تیل کی فر وخت سے آمد ن میں آضا فہ کے ساتھ ترقی اور خوشحالی
کے دور کی ابتداء ہو ئی ۔ سعودی عرب میں تیل کی پیداوار سے 1958 میں فر وخت
کا منا فع کا تخمینہ 30 کر وڑ ڈالر تھا جو کو یت کے بعد عرب ریاستوں میں سب
سے زیادہ تھا تیل کی پیداوار کے منافع کی وجہ سے مختلف ترقیا تی منصوبوں پر
کام کیا گیاساتھ ہی انتظامی امو ار چلانے کے لئے قوانین بھی تشکیل دیے گئے
1992 میں اختیار کیے گئے قوانین کے مطابق قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکو
مت کی بنیا د ہو گی ۔ ملک میں کوئی سیا سی جما عت نہیں البتہ 2005 میں بلد
یاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا سعودی عرب میں قا نون ساز ی وزراء کی کو
نسل کر تی ہے جو شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہے ۔سعودی عرب میں 1960 کی
دہا ئی تک اکثریت آبا دی خانہ بد وشوں پر مشتمل تھی لیکن ترقی کے ساتھ ملک
کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہو گئی تعلیم کے میدان میں سعودی عرب نے 1945 میں
سکولوں کے قیا م کا جامع پر وگرام بنایا گیا اور 1957 میں سعودی عرب میں
پہلی یو نیورسٹی قا ئم کی گئی اور اب سعودی عر ب میں سرکاری طور چودہ یو
نیورسٹیا ں قا ئم ہو چکی ہیں ۔
سعودی عرب میں تیل کی پیداوار سے ہی ترقی کے دور کی شروعات ہو ئی جس کا سفر
کا فی طویل رہا سعودی حکو مت میں بادشاہت قا ئم ہو نے کے باجود عوامی
سہولیات دینے میں کسی بھی جمہو ری ملک سے زیادہ بہتر رہا ۔ دنیا میں ہو نے
والی ترقی ا ور ٹیکنالو جی کی دوڑ میں آئندہ دو سے تین دہا ئیوں میں بڑی
تبدیلیاں رونما ہوں گئیں ۔ اور تیل کی صنعت پر انحصار کر نے والے ممالک کے
لئے اس نئے دور میں شد ید پر یشانی بڑھ جا ئے گی جن ممالک نے تیل کی صنعت
کے زوال پذیر ہونے کا اند از ہ لگا چکے ہیں۔ تو وہ اپنے نظام کو تبد یل کر
تے جا رہے ہیں اس صورت حال کو سعودی عرب نے بھی محسوس کر لیا ہے ۔ جب 2015
میں شاہ سلیمان نے اقتدار سنبھالا تو ا ن کے آنے سے سعودی عرب میں تبدیلیوں
کا آغا ز ہو گیا تھا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے شہز ادہ محمد بن سلیمان کو تخت
کے قریب کر دیا اور اسے اپنا ولی عہدہ نامز د کر دیا۔
اپریل 2016 میں شہز ادہ محمد بن سلیما ن نے کو نسل آف اکنا مک اینڈ
ڈیولپمنٹ افئیر کے صدر کی حیثیت سے ملک میں بڑے پیمانے پر معا شی اور سما
جی پر وگرام شروع کیے جس میں سلطنت کے تیل کے انحصا ر کو ختم کر نا تھا ۔
اور ان کے ویژن 2030 کے تحت ایک نیا منصوبہ متعارف کر وایا جس کے تحت ملک
میں تیل پر انحصار ختم کرنے کے لئے ویلتھ فنڈ کا قیا م کیا جس کے لئے رقم
سعودی آئل کمپنی کے پانچ فیصد حصص فروخت کرکے حاصل کیا جا ئے گا اور یہ رقم
دنیا بھر کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے کا م لا ئی جا ئے گی جس
کی آمد ن کے بعد سعودی عرب تیل کی آمد ن کا محتا ج نہیں رہے گا
سعودی عرب میں جہاں ہر آنے والے دن میں تبدیلی کی کوئی نئی خبر یں سننے
کوملتی ہیں خاص کر معاشی حو الوں سے اقدامات کیے جارہے ہیں تودوسری طرف ملک
کو لو ٹنے اور تجو ریا ں بھر نے والے شہزادوں کو بھی قانون کے شکنجے میں
جکڑا جارہا ہے اوراب تک کئی ارب پتی شہز ادوں کو قید میں رکھ کر ان سے لو
ٹی ہو ئی دولت وصول کی گئی ۔کر پشن کے خاتمے کے ساتھ اداروں کی کار کر دگی
کو بہتر بنا نے کے لئے 2030 کے ویژن کے تحت سرکاری اداروں کو ’’ای گورنس ‘‘
کے نظام پر منتقل کر دیا جا ئے گا ۔سعودی عرب میں معاشی اور قا نو نی
تبدیلیوں کے ساتھ سماجی تبدیلیاں بھی لا ئی جا رہی ہیں جس میں خا ص کر
خواتین کو با اختیار بنایا جا رہا ہے سعودی عرب میں خواتین کی تعداد کل آبا
دی کا 45فیصد بنتی ہے اگر خواتین کی تعلیم کی با ت کی جا ئے تو خواتین کی
کل تعد اد کا 54 فیصد اعلی تعلیم یا فتہ خواتین پر مشتمل ہے جو سعودی عرب
کی ترقی میں اپنا کر دارادا کر نا چا ہتی ہیں ‘سعودی عرب میں 2015 میں پہلی
بار 30فیصد خٰو اتین کو مشاورتی کو نسل کا رکن بنا یا گیا ۔ اسی طر ح گز
شتہ سال خواتین کو سعودی عرب میں گاڑی چلانے کی اجاز ت دی گئی سعودی عرب
میں خو اتین کے لئے گا ڑیوں کے شوروم بھی کھل گئے ہیں اور خواتین کو اس
مقصد کے تحت تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے گاڑی چلانے پر عمل درآمد مکمل طور
پر 24جون 2018 سے ہو گا ۔اس کے علاوہ سعودی عرب میں پہلی خاتون سفیر بھی
تعینات کی گئی ہے تو ساتھ ہی ایک ربوٹ جس کو خاتون کا روپ دیا گیا ہے سو
فیہ کو سعودی شہر یت دی گئی ۔ سال2018 میں ہی خواتین کوسٹیڈ یم میں میچ
دیکھنے کی اجازت دی گئی اور ایک سٹیڈ یم میں میچ دیکھنے لئے خواتین کی 30
فیصد نشستیں مختص کی گئیں ۔ سعودی عرب کے شہر ریا ـض میں میوز ک کنسرٹ
منعقد کیا گیا جس میں پہلی مر تبہ ایک لبنا نی خاتون گلو کارہ نے پر فارم
کیا ۔اب وہاں سینما گھر قا ئم کیے جا رہے ہیں حال ہی میں ایک اینی میٹیڈ
فلم کی نما ئش بھی کی گئی ہے ویژن 2030 تک ملک میں تین سو سینما گھر اور
2000چھوٹے سینما ہالز قائم کیے جا ئیں گے
دنیا کا جدید شہر ’’نیوم‘‘ سٹی کا منصوبہ
شہز ادہ محمد بن سلیمان کے ویژن2030 کے تحت سعودی عرب میں دنیا کا جدید شہر
آبادبسایا جا ئے گا ۔مستقبل میں یہ شہر کسی سا ئنس فیکشن فلم کی مائند ہو
گا ہر کام روبوٹ کر یں گے اور انسانوں کو احکامات بھی ربوٹ دیں گے ‘ ساتھ
ہی شہر کے انتظامات یعنی ٹریفک کنٹرول‘ دفتری کام سب کچھ نیوم سٹی میں
روبوٹ اور جد ید طرز سے ہو گا ۔ ’’نیوم ‘‘ سٹی بحر احمر کے ساحل و عقابہ
خلیج سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے میں 26 ہزار پانچ سو مر بع کلو میٹر پر
پر بسایا جا ئے گا۔ جو ایشیاء ‘ افر یقہ اور یورپ کو تجارتی سرگرمیوں سے جو
ڑے گا اور اس منصوبے کو مصر و اردن تک تو سیع دینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا
گیا ہے اس منصوبے پر 500 ارب ڈالر خرچ ہو نگے اس شہر کے بعد سعودی عر ب کی
دوبئی اور دوحہ کی طرح ایک نئی پہچان ہو گئی ۔ یہ دنیا کا پہلا سرما یہ
دارانہ شہر ہو گا ۔ بحر احمر ‘ خلیج عقابہ‘اور سوئز کینال استعمال کر نے
والے بحر ی راستوں کے ساتھ واقع ’’نیوم ‘‘ کنگ سلمان برج گیٹ وے ثابت ہو گا
۔جس سے تجارت کے نئے دور کا آغاز ہو گا ۔ اس ’’نیوم ‘‘ منصوبے میں 9 شعبوں
میں توجہ مر کو ز رکھی جائے گی جس میں توانا ئی ‘ ٹیکنالو جی ‘ با ئیو
ٹیکنالو جی ‘ خوراک ‘ ڈیجیٹل سا ئنسز ‘ جد ید مینو فیکچرنگ ‘ میڈیا ‘ اور
تفر یح کے شعبے شامل ہیں ۔ اس شہر میں سعودی قوانین نہیں ہو ں گے بلکہ اس
شہر کے لئے الگ سے قوانین ہوں گے جو غیر ممالک سے آنے والوں کے لئے کسی قسم
کی پر یشانی کا با عث نہ بنیں ‘ اس شہر کے میں رہنے والوں کو زیادہ لبرل
طرز ز ند گی میسرہو گا ‘جہاں پر تفریح کے دوسر ے مو اقعوں کے ساتھ میو زک
کنسرٹ بھی ہو ا کر یں گے لیکن اس شہر کے آباد ہو نے سے پہلے سعودی عرب میں
قوانین میں تبدیل لائی جارہی ہے اور میو ز ک کنسرٹ بھی ہو رہے ہیں خواتین
کو بااختیار بنانے کے ساتھ آزادی بھی دی جا رہی ہے ۔ریاض میں ہو نے والی
’’فیو چر انو یسٹمینٹ اینیشٹیو‘‘ کا نفر نس میں روبوٹ صوفیہ کو دی جانے
والی سعودی عرب کی شہر یت ’’نیوم ‘‘ منصوبے کی پہلی اینٹ تھی ۔نیوم سٹی کے
علاوہ سعودی عرب میں بھی روبوٹ کا دور شروع ہو نے والا ہے جس طر ح سعودی
عرب میں شہزادہ محمد سلیمان تبدیلیاں لا رہا ہے کیا آنے والے دور میں سعودی
عرب کو یہ تبدیلیا ں ترقی کا راہ پر لے جا ئیں گی کیا عالم اسلام ان
تبدیلیوں کو قبول کر ئے گا یا خود اسلام پسند سعودی معاشرہ بھی اس ماحول کو
پسند کر ئے گا یہ تو آنے والا وقت بتا ئے گا لیکن دنیا کے غریب ممالک کے با
شند وں کو روز گار دینے والا سعودی عرب ان کے لئے اپنے درواز ے بند کر تا
جا رہا ہے ایک اند از ے کے مطابق دنیا بھر سے 70 لاکھ تارکین وطن جن میں
پاکستانی 9 لاکھ کے قریب ہیں ان کا مستقبل خطرے میں ہے کیونکہ پاکستان کے
ساتھ دیگر ترقی پذیر ممالک میں پہلے ہی بہت بے روز گاری ہے |