جیسے جیسے ترقی آسمان سے باتیں کررہی ہے،،،ویسے ویسے
تبدیلی آرہی
ہے،،اس تبدیلی،،یا چینج کو،،جدّت یا موڈیریشن بھی کہا جاتا ہے،،جو انسان
اس کے ساتھ ساتھ خود کو نہیں بدل پاتا،،،وہ پیچھے رہ جاتا ہے،،،اس کے،،،
جونیئر یا اس کے بال بچے آگے نکل جاتےہیں۔
چلو یہ تو ہوئی سائنسٹفک اور سوشل پروموشنز،،،مگر حد تو یہ ہے،،کہ انسانی
صبح شام رات بھی فی زمانہ چینجز ہو رہی ہیں،،،جو کہ ذرا سمجھ سے بالاتر
ہیں،،،بات سمجھانے کے لیے ہمیں تھوڑا سا خود کو بھی چینج کرنا ہوگا،،،!!!
دیکھئے،،! پہلے صبح ہوتی تھی،،لوگ آلارم کلاک کو بند کرکے چیک کیاکرتے
تھے،،،اب سب سے پہلے سیل فون چیک کرتے ہیں۔
پہلے ضروری کام کا خود پر لوڈ چیک کیا جاتا تھا،،،اب،،،فیس بک پر سٹیٹس،،
اپ لوڈ کیا جاتا ہے،،،وہی اماں جی یا بیگم کے ہاتھ کا جلا پراٹھا کھا
کے،،،،!!!
فیس بک پر،،،واؤ،،،یمّی،،،ٹیسٹی،،،کا جھوٹا اسٹیٹس اپ لوڈ کردیتے ہیں،،،،!
جب
ماں یا بیگم سے اس بے ذائقہ ناشتے کا کہا جائے،،،تو آگے سے جواب ملتا ہے
اتنی سیلری اور ایسے منہ کو ایسا ہی ناشتہ دستیاب کیا جاسکتا ہے،،،!
پہلے لوگ گائے،،،یا،،،گوالے سے دودھ لے کر وہی گھسا پٹا جملہ کہا کرتے تھے
آج دودھ پتلا بہت ہے،،وہ بھی اک ہی جملہ سن سن کر ڈھیٹ ہو چکا ہوتاتھا،،،
بس چند رٹے ہوئے جملے کہہ دیا کرتا تھا،،،
بھینس نےکل پانی ذیادہ پی لیا تھا،یا،،ساری رات بھینس پانی میں ہی پارک تھی
آج کل ہم اسکی بجائےدیکھتےہیں کہ کونسے دودھ کے ڈبے میں کم کھاد ملی
ہوئی ہے،،،یا،،،ٹی وائٹنر تو نہیں لے آئے،،،
سائیکل کو بندہ یا پھر موٹر سائیکل کو کپڑا مارا جاتا تھا،،،وہی کپڑا بندہ
اپنےمنہ
پربھی مار لیا کرتا تھا،،،
اب انسانی منہ سے مہنگے لوشن،،،شیونگ کریم،،،جیل آگئے ہیں،،،بندہ ان کے
استعمال کے بعد،،تیسری مخلوق ذیادہ لگتا ہے،،بچوں کو بھی امی ابو کی شناخت
میں بہت مشکل پیش آتی ہے،،،
سیل فون اور مریضوں والا ناشتہ،،،،یہ آج کی صبح کے وہ پیرا میٹرز
ہیں،،،جسے،،،
آپ چینج کہہ سکتے ہیں،،،
پہلے لوگ صبح اٹھ کر ورزش،،،سیر سپاٹے کو نکل جایا کرتے تھے،،نیوز پیپر
پڑھے
جاتے تھے،،،بس آج کل یہ دیکھتے ہیں،،،تازہ دھماکا کہاں ہوا ہے،،،
دوستوں،،،رشتے داروں ،،،بھائی بہنوں سے ملا جاتا تھا،،،اب فیس بک پر ہی
ہیلو،،،
ہائے ہوجاتی ہے،،،
بچے ماموں کو نہیں پہچانتے،،،ماموں کو پتا ہی نہیں ہوتاکہ اس کے خاندان کی
آبادی پڑوسی ملک چائنہ کے برابر ہونے والی ہے،بات نکلے گی تو دور تک جائے
گی،،،اسی لیے بقیہ رام کہانی پھر کبھی،،،،!!!!
|