مشکل راستے قسط نمبر60

میں کچھ لمحے انہیں دیکھتی رہی ۔۔۔۔ پھر نظریں نیچے کر لی تھیں ۔۔۔۔۔ نا جانے کیوں آنکھیں چھلک جانے کو بے تاب تھیں ۔۔۔۔

خالہ بی آپ نے صحیح کہا مگر یہ جھوٹ میں نے اپنوں کی خاطر بولا تھا ۔۔۔۔۔ جن کی حفاظت کے لئے ضروری تھا کہ میں ان سے دور چلی جاؤں ۔۔۔۔

ہممم ! کھل کر بتاؤ بیٹی ۔۔۔۔ شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے جھکا سر اُٹھا کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ اور غمگین سی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی تھی ۔۔۔۔

میرا اصل نام عائیشہ دانیال علی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں بھی کبھی اپنوں کے درمیان رہ رہی تھی ۔۔۔۔ بہت خوبصورت زندگی تھی اماں بی سنئیہ ککو اور میں ۔۔۔۔۔ پھر اچانک اماں بی کا قتل ہوگیا اور پھر سب کچھ ہی بدل گیا ۔۔۔۔ ان کی موت کے بعد انکی ڈائری میرے حوالے کی گئی جس میں میری ذات سے جُڑا ایک بہت بڑا راز مجھ پر کھلا ۔۔۔۔۔۔۔

میں تھوڑی دیر کو رکی تھی ۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے محبت سے شانوں پر میرے ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔ پھر میں انہیں اپنی زندگی کا وہ کڑوا سچ بتانے لگی تھی ۔۔۔۔۔ وہ خاموش چپ چاپ مجھے سن رہی تھیں ۔۔۔۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں حیرت ہلکورے لینے لگی تھی ۔۔۔۔ اور گاڑی گھر کی جانب رواں دواں ۔۔۔۔۔

××××××××××

انسپکٹر ذیشان احمد عرف ذکی تین ہفتوں کے بعد واپس گھر لوٹ آیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بھی آدھی رات کو واپسی ہوئی تھی اس کی ۔۔۔۔۔ جس مشن پر اسے بھیجا گیا تھا وہ اللہ کے فضل سے کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا ۔۔۔۔۔ مگر دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے پہنچاتے ان کے ہاتھوں وہ شدید زخمی بھی ہوگیا تھا ۔۔۔۔ آئی ایس آئی کی اسٹریٹیجی دشمن سے متعلق چینج ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔ شواہد جمع ہوجانے کے بعد غداروں کو کسی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے قتل کردینے کے احکامات ان سیکرٹ ایجنٹس کو دے دئے گئے تھے ۔۔۔۔۔ اب انہیں کس طرح سے ٹارگٹ کرنا ہے یہ ان سیکرٹ ایجنٹس کا کام تھا ۔۔۔۔۔ جو وطن پر قربان ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔۔۔۔ جن کے چیف کمانڈر ڈی آئی جی آف سندھ تھے ۔۔۔۔۔۔ بہر حال وہ زخمی حالت میں تھا ۔۔۔۔ ویسے اس نے اپنا مشن اللہ کے فضل سے پندرا دن میں پورا کرلیا تھا مگر شدید ذخمی ہونے کے سبب مزید دس دن گھر سے دور پاکستان کے ناردرن ایریا میں بسر کرنے پڑگئے تھے ۔۔۔۔۔ پورچ میں اپنی بلیک پجیرو کھڑی کر کے وہ مین ڈور کھول کر گھر کے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔
تو سیڑھیوں سے اترتی نائلہ اسفند پر نظر پڑ گئی ۔۔۔۔ وہ بھی اسے دیکھ کر ٹھٹکی تھی اور پھر واپس سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی ۔۔۔

ایکسکیوزمی محترمہ ۔۔۔۔۔

اس کی پکار پر پلٹ کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

میرے خیال میں میں آپ کے لئے اُتنا ہی بےزرر ہوں جتنا کہ اس گھر میں دوسرے افراد ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ جس کام کے لئے آپ نیچے آرہی تھیں ۔۔۔۔ وہ کام کیجئے پلیز ۔۔۔۔۔

اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔ نائلہ خاموش اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی ۔۔۔۔ اچانک اس کی نظر فرش پر اس سرخ لکیر پر پڑی تھی ۔۔۔۔ وہ چونکی تھی ۔۔۔۔۔

ایک منٹ پلیز ۔۔۔۔ذکی

وہ حیرت سے مُڑا تھا اور اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔

کیا آپ زخمی ہیں ۔۔۔۔

میں سمجھا نہیں ۔۔۔۔۔

آپ کے پیر سے خون نکل رہا ہے ۔۔۔۔۔ یہ دیکھیں ۔۔۔۔

نائلہ نے فرش پر خون سے بنتی لکیر اور اس کے پیر کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ تو وہ چونکا تھا ۔۔۔۔ زخم گہرا تھا ۔۔۔۔ شاید اسٹچز کھل گئی تھیں۔۔۔۔ اور خون دوبارہ رس پڑا تھا ۔۔۔۔۔

آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔

رُکھائی سے بولتا ہوا وہ واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔ کمرے میں پہنچ کر وہ فوراً غسل خانے کے اندر گیا تھا ۔۔۔۔ اور فرسٹ ایڈ باکس سے ایک ایک شیشی جو ہرے محلول سے بھری ہوئی تھی نکالی تھی ۔۔۔۔ اور کپڑے اتار کر اپنے زخم پر لگانے لگا تھا ۔۔۔۔ ایسڈ ٹائپ کا یہ محلول جسم کے متاثرہ حصے پر لگتے ہی ببلز سے بنے لگے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر خون رسنا بند ہوگیا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ کپڑے تبدیل کرکے باہر نکل آیا ۔۔۔۔ ابھی وہ اپنے بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

کون ۔۔۔۔ اندر آجائے پلیز ۔۔۔۔۔

دروازہ کھلا اور نائلہ اندر جھجھکتے ہوئے داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔ ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس پکڑے ہوئے ۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر چونکا تھا ۔۔۔۔

آآآپ ۔۔۔۔

یہ ہلدی دودھ پیلیں پلیز ۔۔۔۔

دیکھیں مم میں نہیں جانتی آپ کے کام کی نوعیت کیا ہے ۔۔۔۔ لیکن خالہ بی کل آپ کو دیکھیں گی تو پریشان ہو جائینگی ۔۔۔۔ ہلدی اینٹی سیپٹک مگر اس کے سائیڈ افیکٹس کچھ نہیں ہوتے ۔۔۔۔

وہ اس کے قریب سائیڈ ٹیبل پر دودھ کا گلاس رکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔ اور تیزی سے جانے کے لئے پلٹی ہی تھی کہ ۔۔

سنئے ۔۔۔۔۔

پلٹ کر اس کھڑوس انسپکٹر کو دیکھا تھا ۔۔۔

شکریہ ۔۔۔۔ مگر پلیز نانی جان کو اور چندہ پھوپھو کو اس انسیڈنٹ کے بارے میں کچھ مت بتائے گا ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ ایک بار پھر شکریہ آپ کا ۔۔۔

وہ سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی تھی ۔۔۔۔ تو وہ زیرلب مسکرایا تھا ۔۔۔۔۔ اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا دودھ کا گلاس اُٹھا لیا ۔۔۔

×××××××××××××××

ازمینہ اپنی ماں شکیلہ بیگم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔ خاموش اور چپ چاپ ۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے ہی دو دفع وہ بزرگ خاتوں دوبارا آئی تھیں اکیلے ۔۔۔۔ وہ مہربان لڑّکی ان کے ساتھ نہیں تھی ۔۔۔۔ دوبار ہی اس سے ملاقات ہوئی تھی اور دونوں دفع ہی اس نے جان بچائی تھی ۔۔۔ پہلی دفع ان غنڈوں سے بچایا تھا ۔۔۔۔اور دوسری بار اس شیطانی مخلوق سے اس کی بہن کو چھڑایا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اکیلے جب بزرگ خاتون آئی تھیں تو اس کی ماں شکیلہ بیگم کو منع کیا تھا کے ان دوست راحت جہاں کو اس لڑکی کے بارے میں کچھ نہ بتائیں کہ کس طرح اس نے نبیلہ کو شیطانی مخلوق سے چھڑا یا تھا ۔۔۔۔

یہ اس بچی کے حق میں بہتر نہیں ہوگا ۔۔۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا شکیلہ ۔۔۔۔۔

جی خالہ بی آپ بے فکر رہیں ۔۔۔۔ میں راحت کو کچھ نہیں بتاؤنگی ۔۔۔۔۔

ازمینہ وہیں کھڑی تھی جب یہ باتیں ہورہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ اس لڑکی سے ملنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ اسے لگا تھا کہ اسے دیکھ کر وہ بھی اسے پہچان گئی ہے ۔۔۔۔

کیا سوچ رہی ہو ازمینہ ۔۔۔۔۔

کک کچھ نہیں امی ۔۔۔۔۔ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔۔ ایک بات کہوں امی آپ سے ۔۔۔۔۔

ہاں بولو ۔۔۔۔

امی یہ وہی لڑکی تھی جس نے مجھے اور شزا کو ان غنڈوں سے بچایا تھا ۔۔۔۔۔

اچھا ۔۔۔۔۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ نائلہ ہی وہی لڑکی ہے ۔۔۔۔۔

جی امی ۔۔۔۔

بیٹا اللہ نائلہ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین ۔۔۔۔

آمین ۔۔۔۔

ماں کے نائلہ کو دعا دینے پر دل سے اس دعا کی قبولیت کے لئے آمین کہا تھا ۔۔۔۔۔ ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہی تھیں کہ نبیلہ بھی وہاں آکر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ کافی بدل گئی تھی ۔۔۔۔۔ ضدی انا پرست اور خودغرض نبیلہ کی جگہ یہ ایک مختلف نبیلہ تھی ۔۔۔۔ بہن سے سن چکی تھی کہ ایک اسی کی عمر کی لڑکی نے اسے اس ظالم سے بچایا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے والدین کو اور بہن کو بتایا تھا کہ کس طرح اس پارٹی میں اس کے دوستوں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی شامل تھے اوجا بورڈ پر روحوں کو بلانے کا گیم کھیلے تھے ۔۔۔۔ اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہوا مگر بعد میں جب اس کی دوست نے اسے گھر چھوڑا تب سے ہی اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ کوئی اس کے آس پاس موجود ہے ۔۔۔۔ پھر اسے کالا سایہ سا دکھائی دینے لگا ۔۔۔۔ پھر ایک دن جب وہ سورہی تھی تب اسے کوئی چیز اپنے سینے پر چڑھتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اس کے بعد وہ اپنے حواسوں میں نہ رہی ۔۔۔۔۔ بہر حال اللہ کے فضل سے وہ ٹھیک ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے اپنی تمام بری عادتیں ترک کردی تھیں ۔۔۔۔ مگر ایک ٹھپہ ایک داغ اس کی ذات پر لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی توہم پرستی کے شکار معاشرے میں جب کسی سے متعلق یہ خبر اُڑھ جائے کہ اس پر سایہ تھا تب دنیا اس تنگ کردی جاتی ہے ۔۔۔۔ اور اس کے والدین اور اسے یہ بات اچھی طرح سے پتہ تھی ۔۔۔۔

××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230319 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More