عالم بالا میں صبح سے مرحوم مولوی صاحبان ھڑتال پر ہیں۔یہ
ھڑتال انھوں نے قاری نجم الدین کی گرفتاری کے خلاف کی ہے،جس کے ہاتھوں
ناگہانی طور پر کراچی کا رہنے والا حسین ولد سلیم کو جہان ابدی کا ٹکٹ تھم
گیا۔مولوی صاحبان سمجھتے ہیکہ یہ سراسر زیادتی ہے۔۔ مولویوں کی تقریر جاری
تھی۔۔صدر ھڑتال کا کہنا تھا کہ زمین پر ھمارے بھائیوں پر مزید ظلم نا منظور
ھے۔ایک اور معزز کا کہنا تھا کہ ھم پاکستانی معاشرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ
اپنے ذہین ترین بچوں کو ڈاکٹر،انجینئر اور وکیل بناتے ہیں اور مولوی بننے
کیلئے لولے لنگڑے اور معزور بچوں کو بھیج دیتے ہیں تو برائے کرم ھمارے
معزور فیصلوں پہ طنز نہ کریں۔بچوں کو 30000 ھزار کی فیس والے سکولوں میں
پڑھاتے ہیں اور مولوی کو 10 روپے دے کر بھی سو سو بکواس کرتے ہیں۔ڈاکٹر اور
وکیل کو لاکھوں دیتے ہیں اور مولوی کو فقط10 ھزار۔اور لاٹھی تو ھمیں بھی
خروں سے زیادہ پڑی ہے۔ہماری بھی جسمانی و دماغی جنازے نکالے گئے لیکن مجال
ہے ھم نے کچھ بولا ھو۔۔ اور یہ آپکی اپنی نفسیات کہتی ہے کہ مارنا بچے
کیلئے ٹھیک نہیں پھر بھی جب ہمیں مر پڑ رہی تھی آپ خاموش تھے تو ھم کیوں
اپنے اسلاف کی روایات کو توڑیں
ایک اور مولوی صاحب نے کہا ھم پر تنقید کرنے والوں کو شرم آنا چاہے کہ انکو
ھم نے نکاح پڑھا کر ھوا کی بیٹی ان پہ حلال کی ہے۔خود کو وضو کرنا نہیں آتا
ھمارے فیصلوں پہ تنقید کرتے ہیں۔نکاح ھو،میت ھو،فوتگی ھو مولوی لیکن پر بھی
مولوی پہ تنقید در تنقید۔۔ اسکے بعد ایک اور مولانا صاحب آئے جو اپنے وقت
میں تاریخ پر ید طولئ رکھتے تھے،اس نے کہا یہ مولوی حضرات تھے جنہوں نے
ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اولیں ھڑتال کی،1857کی جنگ آزادی میں یہں پگڑی
والی ٹولی تھی جو انگریز کیلئے لوہے کا چناء ثابت ھوئی۔۔ اور جب پاکستان
بنا تو حکومت چودھری نے کی ھر شر کا ہائیڈروجن بمب مولوی پہ،
اسرائیل،میانمار،انڈیا امریکہ ھر ایک مسلم دشمن ٹولے کے خلاف مظاہرے
مولوی،کیا اسلام صرف مولوی کا ہے؟
فرشتے یہ سب تماشہ دیکھ کر حیران تھے،اسی اثناء میں ایک اور صاحب گرجتے
برستے آئے اور کہنے لگے کہ مولوی نام سے بدنام ہے ورنہ تاریخ پاکستان کے
70سالوں میں ایک بھی مولوی صدر اور وزیر آعظم نہیں بنا،نہ لیاقت علی خان
مولوی تھے نہ قائد اعظم نہ زرداری و نواز شریف اور نہ ہی یہ کلب،شراب خانے
اور کسبی خانے مولویوں کی ایجاد ہیں لیکن اب بھی معاشرے کے الزامات اور
توئمات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ایک مولوی کار لے، اس پہ طنز کہ تیر، پیدل چلے
پھر طنز کے تیر۔خود اس رمضان اس رمضان مسجد کے دیدار کو آتے ہیں جبکہ ھم ھر
دن پانچ وقت اپنے ڈیوٹی پر حاضر ھوتے ہیں پھر بھی معاشرہ ذلت و تحقیر کے
سوا کچھ نہیں دیتا اسی لئے ھم پہ الزام نہ درھیں بلکیں ھمارے بھائی صاحب کو
رہا کریں۔۔۔ |