پاکستان میں موسم پانچ منائے جاتے ہیں۔ سردی ، گرمی،
بہار، خزاں، شادی کا موسم
ہم کچھ کریں یا نہ کریں مگر سردیوں میں ہائے ہائے کتنی سردی ہے اور گرمیوں
میں ہائے ہائے کتنی گرمی ہے ضرور کرتے ہیں۔ اس سب سے ہاں سردی نہ تو گھٹتی
ہے نہ بڑھتی ہے۔ مگر ہمارے بولنے اور کھانے کی رفتار ضرور بڑھ جاتی
ہے۔انسان کو مزہ آئے یا نہ آئے مگر سردیوں میں چٹخارے دار اور گرمیوں میں
مزید چٹخارے دار کھانے ضرور کھائیگا۔
انسان کے پاس موسم میں نئے کپڑے آجائیں تو پھر اسکا مزہ مزید دوبالا ہو
جاتا ہے وہ اس طرح سے کہ انسان کو کپڑے بنانے اور کھانے کا موقع دیا جائے
تو انسان کھا کھا کر وزن بڑھاتا ہے اور پھر پُرانے کپڑوں میں فٹ نہ ہونے پر
وہ مزید طیش میں آجاتا ہے اور نئے کپڑے بناتا ہے جن کی خوشی میں پھر کھانے
لگتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ پھر ان میں فٹ ہونے میں ناکام ہو جاتا
ہے۔
ہمارے ہاں ویسے بھی گرمی میں نانی گھر اور سردی میں مری جانے کا رواج بہت
عام ہے۔ سو ہم ان دو موسموں کو مزید اپنے انداز میں اڑانا چاہتے ہیں اور
مزید مزے کے لئے اکثر جب پتہ ہو بھی کہ مری میں ٹریفک جام ہو گی گاڑی لے کر
پہنچ جاتے ہیں۔ جب گرمی میں پتہ ہو کہ سمندر میں طوفاں آنے والا ہے تب دفعہ
نافز ہونے پر بھی وہاں دفع ہونا پسند ضرور کرتے ہیں۔
انسانوں کا بھی کیا کیجیئے انسان کے پاس دل ایک ہے اور اسکے نخرے بے شمار
ہیں۔ شادی کے سیزن میں الماری بےشک کتنی ہی کپڑوں سے بھری پڑی ہو ہمیں پھر
بھی نیا جوڑا سلوانا ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ نہ کچھ نیا چاہئے ہوتا ہے۔ ہم کچھ
نہ کچھ کے چکر میں اپنا بجٹ خاصا شوقیہ آوٹ بھی کرا بیٹھتے ہیں۔ مگر ہم
خوشی سے تیار ہوتے ہیں۔
ہم انساں ایک دوسرے کی شادی کی دعا اس لئے نہیں کر رہے ہوتے کہ جی کسی کا
گھر بس جائے بلکہ اس لئے کر رہے ہوتے ہیں کہ جی اچھی بریانی کھانے کا دل
چاہ رہا ہے۔ ہمیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ ہونی اپنی باری پر ہی ہے ہاں پھر بھی
شادیوں کا سیزن بھی ہمارے ہاں ایک جوڑی ملانے کے اعتبار سے اہم موسم ضرور
سمجھا جاتا ہے ۔
مگر جو سب سے غالب موسم ہوتا ہے وہ دل کا موسم ہوتا ہے۔ انسان جس کے ساتھ
ہر موسم انجوائے کر سکتا ہے۔ وہ دل کا ہی موسم ہے۔ اسی لئے دل موڈ پرسنالٹی
پر کام کرنا ہر انسان کے لئے اپنی جگہ ضروری ہے۔ ان پر کام کر کے ہی انسان
انجوائے کرنا سیکھ سکتا ہے۔ |