نسل کشی اور خطرات کے بیچ پسی جا رہی امت اپنوں کے
ہاتھوں زیر تیغ
میرے کچھ دانشور دوستوں کا اصرار رہا ہے کہ عالم عربی میں برپا جنگوں کا
معاملہ روز اول سے براہ راست اسرائیل امریکہ کی سازشوں سے جڑا ہے اور وہی
ساری تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔کچھ لکھے پڑھے اصحاب اپنی اس بات پر بضد ہیں کہ
یہ سارا کھیل دراصل ’’حق و باطل ‘‘کی ناگزیر جنگ کا حصہ ہے اور آج نہیں تو
کل یہی کچھ ہونا تھا، اچھا ہوا کہ داعش وجود میں آئی اوراس نے خلافت قائم
کرتے ہو ئے پہلی فرصت میں اُمت مسلمہ کے بیچ ’’کینسر سے زیادہ خطرناک‘‘
شیعہ حضرات کے خلاف جنگ چھیڑ کر ان کی نسل کشی کا آغاز کر لیا ۔بہارِ عرب
کے بعد جب شام اور عراق میں داعش چھا جانے لگی تو کچھ اصحاب کا شدید اصرار
بڑھا کہ میں بھی داعش کی حمایت میں کچھ نہ کچھ لکھ کر ثوابِ دارین حاصل
کروں ۔زمینی سطح پریہ جنگ اگر چہ برصغیر سے ہزاروں کلو میٹر دور عالم عربی
میں لڑی جا رہی تھی مگریہاں منبر و محراب سے لیکر میڈیا و اخبارات تک ایسی
لفظی جنگ چھڑی تھی کہ گویا یہ وہاں نہیں یہاں والوں کے ہی عزت و آبرو کا
معاملہ ہو۔بہت سارے مجھ سے عرصہ دراز تک ناراض رہے کہ میں اس مسئلے پر براہ
راست لکھنے سے اس لئے اپنا دامن بچا رہا ہوں کہ میں اہلِ تشیع کو ناراض
نہیں کرنا چاہتا ہوں اور کچھ احباب اس حد تک مشتعل تھے کہ اس مسئلے پر اپنی
رائے کھل کر نہ دینے پر وہ انھوں نے مجھ پر منافقت کی لیبل چسپاں کرنے سے
بھی گریز نہیں کیا ۔ اس مسئلے پر عرصہ دراز تک میں نے اس لئے خاموشی اختیار
کی تھی کہ میرے نزدیک یہ خالصتاََ شیعہ سنی مسئلہ نہیں تھا میرا ماننا تھا
کہ جغرافیائی طور پر عالم عربی سے بہت دور ہونے کے سبب ہمیں ’’دیکھو اور
انتظارکرو‘‘ کی پالیسی اپنا کر تب تک صبر وضبط کا مظاہرا کرنا چاہیے جب تک
تصویر کے تمام تر پہلو کھل کرسامنے نہیں آتے ہیں ۔
شیعہ سنی دونوں مسالک کے علماء ،خطباء اور قلمکاروں نے موسم اس قدر گرما
دیا تھا کہ کسی بھی لکھے پڑھے کا اس مسئلے سے دامن بچانا ناقابل برداشت
صبرکا متقاضی تھا جو عمومی حالات میں ممکن نہیں ہوتا ہے ۔پھر معاملے نے اس
قدر طول کھینچ لیا کہ خود سنیوں کے بیچ مصر میں ’’اخوان المسلمون ‘‘کی
حکومت گرانے کے بعد ایسی خلیج پیدا ہوئی جس کو برسوں تک پاٹنا ممکن نہیں ہے
اس لئے کہ ’’خون بہنا اور عصمتیں لٹنا‘‘کسی کے اسباب لٹنے کے برابر ہرگز
نہیں ہوتاہے ۔اس مسئلے کو اگر ہم ’’مسلکی یا فکری تعصب سے بالاتر ہو کر‘‘
بھی سطحی طور پر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو بھی یہ بات سمجھنی مشکل ہو گی
کہ عالم عربی اچانک اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں اور کیسے ہو گیا ؟خلافت
کے خاتمے کے ساتھ ہی عالم عیسائیت کے سامنے تیرہ سو برس پرانی ناقابل عبور
علامتی دیوار ڈھا دینے کے بعد اُمت مسلمہ کو بانٹنا آسان ہوگیا تھاکہ اچانک
علامہ محمد اقبا ل، جمال الدین افغانی ،امام حسن البنا شہیدبعض اختلافات کے
باوجود ابتداء میں مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
اورسید قطب شہیدکی تحریرات اور تحاریک نے نوجوان نسل کو نیاانداز فکر دیکر
اسلام کے نام پر ’’مر مٹنے کا ایسا بے مثال حوصلہ ‘‘عطا کیا کہ پورا عالم
کفر لرزہ براندام ہوا ۔اس کی نقد مثال سویت یونین کی افغانستان میں شکست
تھی ۔عالم عربی کے حکمرانوں نے اسرائیل کے سامنے اس کی عسکری صلاحیت دیکھ
کر آہستہ آہستہ عملی طور پر ہتھیار ڈالدیئے تھے کہ ’’جسمانی طورپر مکمل
معذور ‘‘اخوان المسلمون سے متاثر ازہری عالم دین ’’شہید شیخ احمد یسٰین
ؒ‘‘نے ایک ایسے انتفاضہ کی بنیاد ڈال دی جو عالم عربی کے حکمرانوں اور
افواج کے مقابلے میں بالکل ایک بے کس اور کمزور تحریک تھی ۔حماس نے نہ صرف
مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ حیرت انگیز طور پر صدیوں سے متاثراس مسلم ذہن
کو بدل ڈالا جو ہر چھوٹی بڑی برائی کے پیچھے’’بے ریاست ‘‘ یہودی ہاتھ
دیکھنے یا دکھانے کا خوگر ہو چکا تھا ۔انہی حالات میں شیعوں کے بیچ امام
خمینی کے ہاتھوں ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہوا جس نے عالمی سطح پر شیعوں
میں ایک نئی سوچ پیدا کردی نہیں تو اہل تشیع کے ہاں ’’امامِ غائب‘‘کے آنے
کی باتیں اس قدر عام ہوچکی تھی کہ جو کرنا ہے امام کو کرنا ہے ہم نے بس دعا
کرنی ہے اور بات ختم ۔امام خمینی نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اس طرح
چاہے نا چاہے مسلمانوں میں خلافت کی کمی کا شدید احساس جنم لینے لگا ۔خلافت
کے خاتمے کے اعلان کے بعد فلسطین کے چھن جانے اور اس کے خلاف جہاد کا آغاز
اور افغانستان میں روس کی شکست نے متذکرہ بالا علماء اور دانشوروں کے درد
کو ایک عملی صورت بخشی جو مغرب کے لئے خلافت کے خاتمے سے بھی زیادہ منحوس
امر تھا لہذا اس علمی اور عملی لہر کو روکنے کے لئے انگریز دماغ نے اپنی
زبردست توانائیاں خرچ کیں ۔کیونکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں نے دنیا کی
ایک ایٹمی قوت اور بہترین فوج کو ناکوں چنے چبھوائے تھے۔اسے حوصلہ پاکر نا
صرف فلسطینی عوام کا حوصلہ بڑھا بلکہ کشمیر سے لیکر بوسنیا تک اورچیچنیا سے
لیکر فلپائین تک پرعزم نوجوانوں نے سروں پر کفن باندھ کر غاصب اور ظالم
طاقتوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا جن میں بدقسمتی سے عقل و دانش کی شدید کمی
ضرور تھی مگر یہ مغربی اور عیسائی بلاک کے لئے سخت پریشان کن امر تھا
۔انھوں نے اپنے اعلیٰ دماغ دانشوروں اور ماہرین کو حکومتی سرپرستی میں اس
کے تجزیہ اور توڑ پرلگا دیا جبکہ ہماری یہ جہادی فورس انتہائی غیر منظم
اورعلم و تربیت سے بھی کوری تھی بلکہ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سویت یونین کو
پارہ پارہ کرنے والی قوت اور اسے متاثر ہو کر سارے عالم میں غیر منظم
مجاہدین کی جماعتوں کو حکومتی سرپرستی کا بھی ایک خطرناک چیلنج درپیش رہا
۔انہیں آج تک کسی بھی سنی المسلک حکومت نے قبول نہیں کیا بلکہ کبھی مخالفین
کو بلیک میل کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کبھی بغیر کسی
ہچکچاہٹ کے بیچ بھی ڈالا۔
ہماری اکثر حکومتیں سیکولر ہیں لہذا انہیں علامہ اقبال سے لیکر سید مودودی
تک ہر عالم سے شدید اختلاف ہی نہیں ہے بلکہ ان میں شدید نفرت بھی پائی
جارہی ہے اگر چہ اس نفرت کے اظہار کے لئے یہ لوگ ان دانشوروں کا نام براہ
راست بہت کم لیتے ہیں بلکہ ان کے نظریوں کو انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے
ناموں کی آڑ لیکر نا صرف رد کرتے ہیں بلکہ انہیں جیلوں میں رکھنے ،پھانسیوں
پر چڑھانے اور جلاوطن کر کے ذلیل کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔یہی ہے
وہ اصل کام جو مغرب نے کیا اور جو وہ تسلسل کے ساتھ بغیر ٹاسک دئے ان
ظالموں سے کراتا ہے ۔اس قوت کو ختم کرنے کے لئے انھوں نے سب سے زیادہ میڈیا
اور قلم کا بھرپور استعمال کیا حتیٰ کہ حسب ِ ضرورت امریکہ،مغربی ممالک
،پاکستان اور سعودی عربیہ کی طرح انہیں کبھی مجاہد اور کبھی دہشت گرد قرار
دیدیا ۔اس کے لئے انہیں جس میدان میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا
تھا وہ تھا انہی اسلامی یا جہادی قوتوں کو آپس میں تقسیم کرنا اس لئے کہ
روس کے خلاف افغان جہاد نے ایک معجزہ یہ بھی دکھایا تھا کہ نہ صرف شیعہ سنی
تفریق موجودہونے کے باوجودکم ہوتی ہوئی نظر آتنے لگی تھی بلکہ سنیوں میں
اخوانی ،سلفی اور دیو بندی وغیرہ مسائل موجود ہونے کے باوجود عملی طور پر
غیر مؤثر ہو چکے تھے ۔اس پر مغربی طاقتوں نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل
کر سب سے پہلے مسلمان سیکولروں کو میدان میں اتارا اورساتھ ہی ساتھ بعض
مذہبی افراد اور تنظیموں کی خدمات بھی خرید کر نئے نئے مباحث کا دروازہ حسب
سابقہ کھلوا کر صورتحال اس سطح تک پہنچا دی کہ عوام تو عوام خواص بھی سنگین
نوعیت کے ساتھ اس مرض کے شکار ہو گئے ۔حد یہ کہ وہ ’’مجاہدین ‘‘بھی جو کبھی
بھی ان مسائل کی جانب توجہ نہیں کرتے تھے اور میں نے بارہا کہا اور لکھا ہے
کہ یہی آخری جماعت بلا لحاظ مسلک و مشرب اس مہم کے نشانے پر تھی ۔عالمی
سامراج اور طاغوت کا نشانہ دراصل وہ عربی و عجمی مجاہدین تھے جنہوں نے سویت
یونین کے بکھراؤ کے بعد اسرائیل کے دانت ’’الجہاد،حماس اور حزب اﷲ ‘‘کے
ناموں اور پرچموں تلے کھٹے کر دئے تھے ۔عالمی طاغوت نے بوسنیا میں بھی ان
کی جراتمندی کا مشاہداہ کیا تھا ۔پھر انھوں نے جب دیکھا کہ مخصوص علماء
چاہیے وہ شیعہ ہوں یا سنی ،سلفی ہوں یا اخوانی ،دیوبندی ہوں یا جماعت
اسلامی سے متاثر ایک مخصوص طبقہ’’ اسلام کے نام پر کٹ مرنے ‘‘ کے لئے جگہ
جگہ کشمیر سے لیکر فلپائین تک مورچے کھول بیٹھا ہے تو انھوں نے عراق میں
امریکہ کے نکلتے ہی بیمار ذہنیت رکھنے والے تنگ نظر جماعتوں کے ہاتھوں
’’شیعہ سنی مظالم ‘‘کی ناقابل برداشت اور قابل ملامت سانحات کو جنم دیکر
اصحاب نبی ﷺ ، ازواج مطہراتؓ،اہل بیت ؓ،اختلاف خلافت ،فضیلتِ صحابہؓاور اہل
بیت عظامؓ کے متعلق بارہ تیرہ سوسال پرانی کہانی کو کچھ اس انداز میں پھرسے
بعض زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے براہ راست ٹیلی ویژن چینلز سے شروع کروایاکہ
گویا کوئی نئی تحقیق اور کہانی ہو جو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کا آغاز کس نے کیا ہے ممکن ہے یہ’’ شیعہ ذاکرین
‘‘کی بعض صحابہؓ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کا نتیجہ ہو یا جدیدسنی
ناصبیوں کی کارستانی ہو جن کا اوڑھنا بچھونا ہی اہل بیت ؓ کی تنقیص کرنا ہے
۔میرے نزدیک پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ عالم اسلام کا وہ سرمایہ ہی ’’دہشت
گردی کے نام پر ‘‘فنا کیا جا رہا ہے جس نے سویت یونین کو روس میں تبدیل
کردیا اور جنہوں انتہائی قلیل وسائل کی شکل میں غزہ کے محصور شہر میں رہ کر
دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے اسرائیل کی نکیل کس لی اور جنہوں نے
عالم کفر کی تمام اتحادی افواج اور ان کے ساتھ ہم رکاب عالم اسلام کو
امریکی کی سرپرستی میں افغانستان کے پہاڑوں میں ذلیل و خوار کردیا ۔حیرت یہ
کہ عالم اسلام کی سرکاری فوجوں پر جن غیر مسلم افواج کانام سنتے ہی لرزہ
طاری ہوتا ہے اور جن کے جرنیل کانپنے لگتے ہیں،ناقص فوجی صلاحیت اورنا کے
برابر وسائل کے باوجود ان ’’شیر دل ‘‘سپوتوں نے روس ،امریکہ اوراسرائیل کو
نا صرف پریشان رکھا بلکہ حقیقت میں ان کی ناک کاٹ ڈالی ۔المیہ یہ کہ انہی
قیمتی افراد کو عالم اسلام کی باون حکومتوں میں سے کوئی ایک بھی قبول کرنے
کے لئے تیار نہیں ہوئی ہے بلکہ الٹاانہیں بیچنے کے لئے دلالی کر کے نیویارک
اور لندن کے بازاروں میں’’مالِ فیی‘‘کی طرح فروخت کیا جا رہا ہے ۔عالم
طاغوت نے اسی قبیل کے نوجوانوں کو پہلے عراق میں صدام کی حکومت گراتے ہی
ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کردیا پھر شام سے لیکر فلسطین ،لیبیا
،یمن،افغانستان اور پاکستان تک ہی نہیں بلکہ عملاََسارے عالم اسلام میں اس
طور پرایک دوسرے کے سامنے لایا کہ اب نا صرف ان کی ترجیحات تبدیل ہو چکی
ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کا اس قدر خون بہا چکے ہیں کہ اب پہلی والی صورت
پیدا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔انہی افراد نے نا صرف شام ،عراق ،یمن
اور پاکستان میں آپسی رسہ کشی کی وجہ سے ان ملکوں کی معیشت کو تباہ و
بربادکر دیا ہے ۔جب یہی قوت درست سمت پر تھی تو سویت یونین سکڑ گیا ،فلسطین
کی سرزمین پر اسرائیل عاجز آگیا اور امریکہ ذلیل ہوا مگر جب ان کا قبلہ
تبدیل کردیا گیا تو انھوں سارے عرب ممالک کو تاراج کر کے ہی دم لیا ۔میرا
خدشہ یہی تھا کہ اس آپسی سر پھٹول میں نا ہی شیعہ جیتیں گے نا ہی سنی بلکہ
دونوں تباہ و برباد ہو جائیں ۔بعض نادان دوست اب بھی اس ’’ذلتناک شکست کو
فتح ‘‘قرار دیکر آپ اپنا دل بہلا رہے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ معاملہ
ماتم کرنے کا ہے اس لئے کہ بلا لحاظ مسلک و مشرب اور رنگ و نسل یہ’’بہادر
قوم ‘‘دشمن کی اس سازش کو سمجھنے میں ناکام رہی یہاں تک ان کے اندر دشمن کے
ایجنٹوں نے درونِ خانہ قیامت برپا کردی۔اب امریکہ ،روس،اسرائیل یا کسی نیٹو
کو اپنی فوجیں بھیج کر جوکھم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب داعش اسرائیل
اور امریکہ کاکام خود انجام دینے کا اعلان کر چکی ہے ۔یہی حال دوسری جہادی
تنظیموں کا ہے جو ایک دوسرے کو مارنے یا انتقام لینے کی تاک میں بیٹھی ہیں۔
اس طویل وضاحت کے بعد آپ کو یہ بات سمجھنے میں کوئی اُلجھن باقی نہیں رہی
ہوگی کہ آخر داعش نے اسرائیل یا امریکہ کو نشانہ بنانے کے بجائے اب حماس کے
خلاف اعلانِ جنگ کیوں کیا ہے ؟حد یہ کہ یہ سارا کھیل اسلام اور جہاد کے نام
پر جاری ہے ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ "عبداللطیف موسٰی" نے 14 اگست 2009ء کو
غزہ پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کی "مسجد ابن تیمیہ" میں ایک تقریرکی جس
میں اس نے کہا کہ’’ہم اسلامی نظام کی اس عمارت کو اپنی لاشوں پر تعمیر کریں
گے اور اس میں حدود الہٰی جاری کرکے شریعت اسلامی کے احکام نافذ کریں گے،
تاکہ ایک بار پھر اس زندگی اور اسلام کا مزہ چکھ لیں‘‘ ۔اس نے اپنی تنظیم
کا نام جند انصار اﷲ رکھا ۔ اس تحریک نے اسرائیل کے ساتھ غزہ پٹی کی 22
روزہ جنگ کے دوران اعلان کیا کہ جس طرح صہیونی کافر ہیں، اسی طرح حرکت
مقاومت اسلامی (حماس) بھی کافر ہے اور اس لحاظ سے ان دو کے درمیان کوئی فرق
نہیں ہے! حماس نے عزالدین قسام بریگیڈ کی ایک نامور شخصیت محمد جبریل
الشمالی کی ثالثی کے ذریعہ مذکورہ مسلح گروہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ محمد
جبریل مذاکرہ کرنے کی غرض سے مسجد میں داخل ہوا تو انہیں گولی مار کر
شہیدکر دیاگیا۔دونوں طرف کئی لوگوں کے قتل ہونے کے بعد یہ معاملہ ختم
ہوا۔حماس کے سیاسی دفتر کے بین الاقوامی تعلقات کے ذمہ دار "اسامہ حمدان"
نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ: "وحدت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں حماس کا
موقف مکمل طور پر اظہر من الشمس ہے، ہم امت واحدہ ہیں اور اس امت کو اپنے
دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہئے، جو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتا ہے،
وہ حقیقت میں اپنے ہی گھر کو نذر آتش کرتا ہے، اسلامی امت کے خرمن میں آگ
لگاتا ہے، ہم اس کے قائل ہیں کہ ہماری اصلی جنگ اسرائیل کے ساتھ ہے، جن کی
امریکہ حمایت کرتا ہے اور ہمارا حقیقی جہاد اسی غاصب حکومت سے ہے۔
ابو بکر البغدادی نے اس وقت ساری امت کو حیرت میں ڈالا تھا جب29جون 2014ء
کو شام و عراق کے وسیع و عریض علاقے پر حیر ت انگیز طور پر چند دنوں میں
قبضہ کر کے اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کیا مگر اس شخص کے منہ سے اس وقت
ایک بھی لفظ نہیں نکلاجب 8جولائی سے26اگست2014ء تک اسرائیل نے غزہ پر
میزائیلوں اور بموں کی بارش برساکر2310فلسطینیوں کو شہیداور10626کو زخمی
کردیاتھا ۔داعش کے تمام پرانے بیانات کی کڑیاں ملانے اورغور و فکرکرنے سے
یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اصل میں ان کے نزدیک اپنے علاوہ کوئی سچا پکا
مسلمان ہی نہیں ہے بلکہ ان کے سوا باقی سب گمراہ ہیں ۔اسے بھی حیرت انگیز
بات یہ تھی کہ انھوں افغانستان میں امریکی افواج کے ساتھ نبردآزما طالبان
کے خلاف بھی محاذ کھول کر امریکہ کے بجائے ان کے لوگوں کو مارنا شروع کردیا
۔یہ سوال ہر قاری کے ذہن میں پیدا ہونا چاہیے کہ آخر امت مسلمہ کے دشمن
نمبر ایک اسرائیل اور امریکہ کے خلاف لڑنے کے برعکس ان سے برسرپیکار
مجاہدین سے لڑجھگڑنے والا امت کو کہاں لے جانا چاہتا ہے ؟ایسے میں غیر
مسلموں یا غیر مسلکی مسلمانوں کے لئے ان کے ہاں کون سی جگہ ہوگی؟اور وہ
ایسی خلافت اور فکر کو کیوں اور کیسے قبول کریں گے؟داعش کے بے رحیمانہ قتل
عام اور امت مسلمہ کے مسلم مسالک و مکاتب فکر کے خلاف لکھنے اور بولنے کے
بعد یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ یہ زہریلی ذہنیت ان کی اپنی تخلیق نہیں
ہے بلکہ انھوں نے بعض علماء اور دانشوروں کی کتابوں سے یہ سوچ حاصل کی ہے
یہی وجہ ہے کہ میں نے کئی سال پہلے عرض کیا تھا امت مسلمہ کو اپنے لٹریچر
میں غیر سرکاری متبحرعلماء کے ذریعے تطہیر کرانی چاہیے نہیں تو داعش جیسے
گروہ پیدا ہوتے رہیں گے اور امت کو اسلام کے نام پر نقصان پہنچا کر مٹتے
رہیں گے ۔ |