اسلام دشمن طاقتوں پر مسلم حکمرانوں کا بھروسہ

کیا دہشت گردی کا خاتمہ کبھی ہوپائے گا ؟ کیا عالمی طاقتیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرپائیں گے؟ ان سوالوں کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ نا ممکن ہے کیونکہ صدیوں سے دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں اور یہ تاقیام قیامت تک جاری رہینگے صرف انکے نام بدلتے جارہے ہیں ، ہمیشہ سے ہی حکمرانی اور اپنے رعب و بدبہ کو قائم کرنے یا برقرار رکھنے کے لئے حکمرانوں نے عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ ماضی میں بھی اسلام دشمن طاقتوں نے متحدہ طور پر مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہیں اور آج بھی اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑارہے ہیں ۔ مسلم حکمراں ان اسلام دشمن سازشوں کا ہمیشہ سے شکار ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ان ہی اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہیں۔شام کے حالات سے کون واقف نہیں ۔ شام کے لاکھوں پناہ گزینوں کی سلامتی کے لئے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی کاوشوں کو سراہا جاسکتا ہے ۔ ترکی شام میں امن و آمان کی فضاء قائم کرنے کے لئے کرد ملیشیا کو شام اور ترکی کے سرحدی علاقوں سے نکالنا چاہتاہے اسی سلسلہ میں ترکی نے امریکہ سے مطالبہ کیاہے کہ وہ شام میں کرد ملیشیا وائی پی جی کی پشت پناہی بند کرے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی صدر رجب طیب اردغان کے ترجمان نے ترک فوج کو عفرین کے علاقے سے نکالنے کے لئے فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے جو کردملیشیاء امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ کرد ملیشیا شمال مشرقی شام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اور دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی اہم اتحادی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ترکی کا موقف ہے کہ چونکہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ختم ہوچکی ہے اس لئے یہ اتحاد ختم ہوجانا چاہیے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردغان نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے ملک کا ہدف یہ ہے کہ 35لاکھر شامی پناہ گزینوں کی ان کے اپنے وطن واسپی کو ممکن بنایا جائے گا۔ اردغان نے اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا لیکن عفرین میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن ’’غصن الزیتون‘‘ اسی کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا ہیکہ ان کا ملک ترکی کے ساتھ مل کر شمالی شام کے حوالے سے اس کے سیکیوریٹی خدشات پر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ ترکی کی زمینی افواج شام کے شمالی حصے میں داخل ہوگئی ہے جس کا مقصد سرحدی علاقے سے کرد جنگجوؤں کو نکالنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک وزیر اعظم نے اس کارروائی کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ شام کے اندر 30کلو میٹر محفوظ زون قائم کرنا ہے۔ ترکی شام کے علاقے عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے جو کہ 2012سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے واشنگٹن میں مذاکرات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ شام میں برسرپیکار کرد فوجیوں کے ساتھ امریکی اتحاد کو کبھی قبول نہیں کرینگے۔ انہوں نے کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ خطے کے مستقبل میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان جس طرح دولت اسلامیہ اور دیگر نام نہاد جہادی تنظیموں کو دہشت گرد مانتے ہیں اسی طرح وہ عفرین میں موجود کرد ملیشیا کو بھی دہشت گرد مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عفرین سے کرد جنگجوؤں کو نکالنے اور 30کلو میٹر دور تک محفوظ زون بنانے کے لئے ترکی کی فوج عفرین میں کارروائی انجام دے رہی ہے۔ ترک فوج کی جانب سے شامی علاقے عفرین میں کی جانے والی کارروائی کے خلاف شامی صدر بشار الاسد نے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ عسکری کارروائی ’’دہشت گردی کے تعاون‘ کے مترادف ہے۔اسد کا کہنا تھاکہ ترکی شام میں دہشت گردوں کو تعاون فراہم کرتاہے۔ شام نے ترکی کی جانب سے کی جانے والی کارروائی پر ترکی کے طیاروں کو مار گرانے کی بھی دھمکی دی ہے۔شام کے علاوہ دیگر ملکوں نے بھی ترکی کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے، فرانس نے اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی صدر رجب طیب اردغان نے کہا ہے کہ ہم کرد باغیوں کا پیچھا کرینگے اور اس آپریشن کو بہت جلد مکمل کرینگے۔ انکا کہنا ہے کہ کرد ملیشیا امریکی حمایت سے بھی ترکی کو شکست نہیں دے سکتی، کرد ملیشیا کی حمایت کرنے والوں سے بھی سختی سے نمٹا جائے گا۔ترکی صدر کے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انکی فوج کرد ملیشیاء کی حمایت کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے ہچکچائیگی نہیں۔ عفرین میں کی جانے والی کارروائی کے تعلق سے امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ ترکی نے ان کے ملک کو عفرین میں فوجی کارروائی کے بارے میں پہلے ہی مطلع کردیا تھا اور یہ علاقہ شام میں امریکی فوج کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے۔جنرل جوزف کاکہناہیکہ شام میں داعش کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اور عفرین میں ترکی کے آپریشن سے داعش کے خلاف کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عالمِ عرب ترکی کی کارروائی کے خلاف کس قسم کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ سعودی عرب و دیگر عرب ممالک شام میں بشارالاسدکو اقتدار سے ہٹانے کے لئے سخت کوشش کرچکے ہیں اور دولت اسلامیہ کے خلاف بھی کارروائی کررہے ہیں۔ ایک طرف شام میں بشارالاسد کی فوج کا روس اور ایران ساتھ دے رہے ہیں تو دوسری جانب دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ اور دیگر اتحادی فوجیں کارروائی انجام دے ہیں جس کے ساتھ کرد ملیشیاء بھی شامل ہے ان حالات میں عرب ممالک اور ترکی کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ شام میں لاکھوں افراد آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں داعش کا خاتمہ مکمل طور پر ہوا یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ شام سے بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اتحادی ممالک ناکام ہوچکے ہیں۔ بشارالاسد کا ساتھ روس دے رہا ہے تو دوسری جانب بشارالاسد کے اپوزیشن کا ساتھ امریکہ اور اتحادی ممالک دے رہے ہیں ، امریکہ دولت اسلامیہ کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن اس کے پیچھے امریکہ کے اور کیا اسلام دشمن عزائم و مقاصد ہونگے اس سلسلہ میں عراق اور افغانستان کے حالات سے لگائے جاسکتے ہیں۔ ان دونوں اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے بیچ عام مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے اگر عالمِ اسلام کے حکمراں اپنے بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کے قتلِ عام کا احساس کرتے تو شایدشام کی خانہ جنگی پر قابو پالیا جاسکتا تھا۔ آج بھی شامی عوام بے سروسامانی کا شکار ہیں ، لاکھوں شامی بچوں کی تعلیم پر اثر پڑرہا ہے، کئی بچے یتیم و یسیر ہوچکے ہیں اس کے باوجود مسلم حکمراں اپنے اقتدار یا طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ان معصوم افراد کو کسی نہ کسی بہانے ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ادھر یمن کے حالات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق یمن کے ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں کو فوری ہنگامی امداد کی ضرورت ہے ۔ اس جنگ زدہ عرب ملک میں خانہ جنگی ، قحط اور ہیضے کی وبا کی وجہ سے ہزاروں افراد لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ 2015میں عبدربہ منصور ہادی صدر یمن کی درخواست پر سعودی عرب و دیگر اتحادی ممالک کی جانب سے کی جانے والی فوجی کارروائی کے نتیجہ میں اب تک کم و بیش نو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق یمن میں انسانی بحران کی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر تین بلین ڈالر کی امدادی رقم جاری کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔ یمن کے حوثی باغیوں کو ایرانی تعاون حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ خبریں منظر عام پر آچکی ہیں کہ حوثیوں کی جانب سے داغے گئے میزائل ایرانی تھے۔ یمن کے حوثی باغی ہوکہ شام کے اپوزیشن ۔ حکمرانوں اور اپوزیشن یا باغیوں کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی تباہ و برباد ہورہی ہے اور اگر اسی طرح ان ممالک میں خانہ جنگی کی نوبت برقرار رہتی ہے تو اس کے مزید سنگین نتائج نکل سکتے ہیں اسی لئے سعودی عرب ہو کہ ایران، امریکہ ہو کہ روس ان ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جو دہشت گردی پھیلارہے ہیں اسے بند کریں اور مشرقِ وسطی میں قیام امن کے لئے فوجی کارروائیوں کے بجائے مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ دنیا میں امن وسکون کی فضا بحال ہوسکے۔ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں کئی ممالک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ۔ مملکت سعودی عرب پر بھی اس کے بُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب ، یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی کی مدد کے بہانے جس طرح یمن میں فوجی کارروائی انجام دیا ہے اور حوثی باغیوں کو کچلنے کی کوشش کی اس میں اسے کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی یہ تو سعودی حکمراں ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ یمن اور شام کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ تین سال سے سعودی عرب کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود سعودی حکمراں یمن کی معیشت کو بہتر اور مستحکم بنانے کے لئے دو ارب ڈالر کی امداد یمن کے مرکزی بینک میں جمع کرائی ہے جس کا مقصد مقامی کرنسی کی قدر کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔سعودی سرکاری خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر سعودی حکام نے یمن کے مرکزی بینک میں دو ارب ڈالر کی رقم جمع کرا دی ہے۔ سعودی حکام نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس رقم کے نتیجے میں یمن کی معیشت اور یمنی شہریوں کے معاشی حالات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔واضح رہے کہ خانہ جنگی کا شکار یمن شدید مالی بحران کا شکار ہے ، اس سلسلے میں سعودی عرب کی جانب سے یمنی مرکزی بینک میں جمع کرائی گئی مجموعی رقم تین ارب ڈالر ہو گئی ہے۔یمن، شام، عراق، افغانستان کے عوام آج بھی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے انہیں پتہ نہیں کہ کب وہ کسی فوجی یا دہشت گردانہ کارروائی کا شکار ہوتے ہیں ۔ افغانستان میں آج بھی دہشت گردی کا ماحول ہے کب کون دہشت گردی کا شکار ہوجائے گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عالمی طاقت امریکہ ، افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ اس کے باوجود افغان صدر اشرف غنی لون امریکہ کی مزید مدد اور تعاون کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ امریکہ کی امداد کے بغیر افغان حکومت کا وجود باقی رہنا نہ ممکن ہے۔ اور افغان نیشنل آرمی کی بنیادیں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکیں گیں۔افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعرات18؍ جنوری کو افغان صدر اشر ف غنی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اقرار کیا کہ افغانستان کی حکومت مکمل طورپر واشنگٹن کے رحم و کرم پر ہے،مختلف ماہرین کا نقطہ نظر بالکل ٹھیک ہے، حکومت ابھی اس قابل نہیں کہ اپنی فوج کو امریکی امداد کے بغیر 6 ماہ تک چلا سکیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر امریکہ امداد سے ہاتھ کھنیچ لیتا تو انکی حکومت تیسرے روز ہی گر جائے گی،اشرف غنی نے اقرار کیا کہ پشتون بیلٹ کے بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور کابل حکومت انہیں بے دخل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔افغان صدر نے بتایا کہ افغانستان کو 21 بین الااقوامی دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے اور درجنوں خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے جارہے ہیں۔اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ‘ادھر خودکش حملہ آور پیدا کرنے کی فیکٹری ہے اور ہم محاذ جنگ میں ہیں، طالبان نے عوام کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ حکومت پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ذرائع ابلاع کے مطابق انٹرویو کے دوران جب صحافی نے افغان صدر سے سوال کیا کہ ‘اگر آپ اپنے دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتے تو کیسے پورے ملک کو بچا سکتے ہیں’، جس پر انہوں نے کہا کہ ‘آپ مجھے بتائیں کیا نیویارک پر حملہ روک سکتے ہیں؟ کیا آپ لندن کو حملوں سے بچا سکتے ہیں۔دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جون نیکولسن نے کہا کہ امریکہ کی نئی تزویزاتی حکمت عملی کے تحت پاکستان پر ‘تعاون، کے لیے سخت دباؤ ڈالا جارہا ہے، افغانستان میں امریکہ کا 16 واں برس ہے تاہم واشنگٹن طویل جنگ میں یقیناً کامیابی حاصل کریگا۔ امریکی فوج کے کمانڈر کا یہ یقین صرف بیان بازی کی حد تک ہے کیونکہ اتنے برس گزرنے کے باوجود امریکہ افغانستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے یہی نہیں بلکہ آج بھی دہشت گرد جہاں چاہے خودکش حملے، بم دھماکے اور فائرنگ کے ذریعہ کاررائیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسی دوران’کابل حملے میں اور امریکہ کی طویل جنگ، نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگی محاذ پر اپنے ڈھائی ہزار فوجیوں سمیت 10 کھرب ڈالر کی خطیر رقم کی قربانی دے چکا ہے لیکن افغانستان کا دارالحکومت تاحال نشانے پر ہے جبکہ جنگ کے اختتام کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔افغان صدر کی طرح جنرل نیکولسن نے اس امر پر امید کا اظہار کیا کہ نئی پالیسی کے تحت وہ جنگ کو اختتامی مرحلے میں دھکیل دیں گے اور اسی پالیسی سے جیت ممکن ہو گی۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ نے 1 ہزار عسکری مشیروں کو افغانستان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جیسا کہ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کو چھپانے کے لئے پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جو سراسر غلط ہے اب دیکھنا ہیکہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر مزید کس قسم کی کارروائی کرنے کے لئے پاکستان کو راضی کرتاہے۔ آج عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے سوپر پاور ممالک بھی دہشت گردی کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں ۔ شمالی کوریا کی جانب سے امریکہ کو دی جانے والی وارننگ نے عالمی طاقتوں کے حوصلے پست کردیئے ہے ۔ تیسری عالمی جنگ سوائے دنیا کی بربادی کے کچھ نہیں دے سکتی ہے اس لئے عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ دنیا میں امن و سلامتی کے پہل کریں ورنہ وہ خود بھی دہشت گردی کا شکار ہوسکتے ہیں۰۰۰
**

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.