تقریباًنو (9) لاکھ کی آبادی پر مشتمل ملائیشیا کے مغربی
ساحل پر واقع شہر’’ ملاکہ‘‘ اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کے باعث سیاحوں کے
لئے بے پناہ کشش کا باعث ہے ۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے اور ریاست ’’ملاکہ‘‘ کا
صدر مقام ہے۔روایت ہے کہ عرب جب تجارت کی غرض سے اس خطے میں آئے تو انہوں
نے یہاں ایک ملاکت یعنی مارکیٹ بسائی۔ اسی ملاکت کے حوالے سے اس علاقے کا
نام آہستہ آ ہستہ ’’ ملاکہ‘‘ ہو گیا۔
مجھے سنگا پور سے کولالمپورجاتے ہوئے راستے میں ایک دن ملاکہ ٹھہرنا
تھا۔ملاکہ میں ایک فیکٹری کے مالک سے ملاقات طے تھی ۔ اس کی فیکٹری بھی
دیکھنی تھی۔ملاکا میں وہ شخص میرا منتظر تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ ہم نے
ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں کچھ کاروباری گفتگو کی ، کھانا کھایا اور فیکٹری
دیکھنے کا وقت طے کرکے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔صبح عین وقت پر وہ شخص
مجھے اپنی فیکٹری لے جانے کے لئے ہوٹل کی لابی میں موجود تھا۔اس کی شاندار
گاڑی میں ہم فیکٹری پہنچے تومجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ شخص اپنے علاقے کا
بہت بڑا ایکسپورٹر تھا ۔میرا اندازہ تھا کہ کروڑوں کا مال بیچنے والا بہت
عظیم الشان فیکٹری کا مالک ہو گا۔مگر حیرانی ہوئی کہ انڈسٹریل ایریا میں
بمشکل ایک کنال پر بنی ہوئی عمارت کے ایک فلور پر اس کی مکمل فیکٹری
تھی۔فیکٹری کے داخلی دروازے کے ساتھ دو تین کمرے، جن میں ایک دفتر، ایک
آرام کا کمرہ، واش روم اور کچن وغیرہ تھے۔اس سے آگے ہال تھاشاید 35 X 40 فٹ
کا یا تھوڑا سا زیادہ ہو گا۔ہال کی پچھلی طرف دو بڑے بڑے کمرے تھے، ایک
تیار مال اور دوسرا خام مال کا سٹور۔
ہال میں بڑی ترتیب سے چھ مشینیں لگی تھیں۔ ہر مشین پر ربن نما مختلف کپڑا
بن رہا تھا۔مشینوں کے چلنے کی آواز بہت معمولی تھی۔ ہال کے فرش پر کہیں
کوئی تیل یا کہیں کوئی میل نظر نہیں آرہی تھی۔میرے لئے سب سے حیران کن بات
یہ تھی کہ چھ مشینیں جو چل رہی تھیں ان پر کام کرنے والے چھ کے چھ آپریٹر
بشمول ایک عورت وہیل چیئر پر بیٹھ کر کام کر رہے تھے اور وہ تمام معذور تھے۔
ایک عورت انہیں خام مال سٹور سے لا کر دے رہی تھی ۔میں نے حیران ہو کر
فیکٹری مالک سے پوچھا، آپ کی فیکٹری میں کتنے لوگ کام کر رہے ہیں، جواب ملا۔
کل آٹھ آدمی کام کر تے ہیں جن میں یہ چھہ معذور شامل ہیں۔میں نے اس کی طرف
دیکھ کر کہا۔ ساتویں خام مال فراہم کرنے والی یہ عورت اور آٹھواں کون۔
فیکٹری مالک نے ہنس کر کہا، آٹھواں میں خود۔میں صبح آنے کے بعد دو تین
گھنٹے فیکٹری کے دفتری کام کرتا ہوں ۔ اور باقی وقت ان ساتوں کے ساتھ کام
کرتا ہو۔ مال تیار ہونے کے بعداسے پوری طرح چیک کرنا اور پھر پیک کرنامیری
ذمہ داری ہے۔ اسی لئے میرے مال کے بارے کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔
میں اس کی باتیں سننے کی بجائے ان معذوروں کو کام کرتے دیکھنے میں مشغول
تھا۔ ان میں ایک منگول تھا۔ اس کا سر آگے پیچھے جھول رہا تھا۔ مگر وہ مستی
میں پوری طرح ٹھیک کام کر رہا تھا۔میں نے فیکٹری مالک سے پوچھا، یہ کام
خراب نہیں کرتے؟ وہ ہنس دیا۔ یہ لوگ ہمارے سرکاری اداروں کے ٹرینڈ لوگ
ہیں۔ہم کسی معذور کو بے سہارا اور بے بس نہیں چھوڑتے، حکومتی سطح پر ہم اسے
اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ ایک قابل عزت زندگی گزار سکیں، کار آمد شہری بن
سکیں۔یہاں آ پ کو کوئی معذور بے روز گار نہیں ملے گا۔میں نے خصوصی طور پر
انہیں رکھا ہے اس لئے کہ ایک تو یہ مستحق لوگ ہیں ان کی مدد کرنا بھی ہمارا
فرض ہے اور دوسرا یہ لوگ فیکٹری کو کسی قسم کے بھی مسائل سے دو چار نہیں
کرتے۔ چپ چاپ دل لگا کر اپنا کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت اکاون لاکھ معذور افراد ہیں جن میں تیرہ لاکھ سے زیادہ
عورتیں بھی شامل ہیں۔ گو ہم خانہ پری کے طور پر معذوروں کے لئے بہت کچھ کر
رہے ہیں ۔ساڑھے پانچ سو کے قریب سکول اور دو سو سے زیادہ این جی اوزمعذوروں
کی فلاح کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں مگر سوائے ایک اندھے لوگوں کی کرکٹ
ٹیم کے عملی طور پر معذور لوگ کہیں بھی کار آمد شہری کے طور پر نظر نہیں
آتے۔ سرکاری سکولوں میں آئے دن وہاں کام کرنے والے اہلکاروں کا بچوں کے
ساتھ برا سلوک ایک عام شکایت ہے۔ پرائیوٹ سکول اور این جی اوز معذور بچوں
کے نام پر خالص کاروبار میں مصروف ہیں۔ انہیں خدمت خلق سے کوئی سروکار نہیں۔
کھانا یا رہائش فراہم کرکے اورچھوٹے بچوں کی معمولی تعلیمی سرگرمی دکھا کر
یہ چندے اور بھاری رقوم موصول کر لیتے ہیں اور اپنے اخراجات اور بہت کچھ
تنخواہ اور دیگر مدات میں بھی اسی سے نکالتے ہیں ۔ البتہ گداگری پاکستان
میں معذوروں کا سب سے بڑا کا م یا دھندہ ہے۔
گداگری کی بات کریں توبہت سے ہولناک انکشافات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں
اس وقت ڈھائی کڑور افراد باقاعدہ بھیک مانگ کر گزر اوقات کرتے ہیں۔ گو
پاکستان میں گداگری ایک جرم ہے جس کی سزا تین سال تک ہے مگر پولیس بھکاریوں
کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے۔اس لئے کہ انہیں گرفتار
کرنا خود کو مشکل میں ڈالنا ہے۔عدالتیں بھی بھکاریوں کو سنجیدگی سے نہیں
لیتیں، جیل چلے جانا بھکاریوں کو بھی مشکل نہیں لگتا۔ بہت کم ہیں جو ضمانت
میں دلچسپی لیتے ہیں۔ حکومت کی ہمت ہے جب تک انہیں رکھ سکے رکھ لے۔مگر
ڈھائی کڑور بھکاریوں کو پکڑنا اورجیلوں میں رکھنا ممکن ہی نہیں۔پھر رنگ
بھرنگے بھکاری ہیں ۔ ہر ایک کی نفسیات ، ہر ایک کا طرز عمل دوسرے سے بہت
مختلف ہے۔ مشترک چیز فقط ایک ہے اور وہ ہے بھوک ، غربت اور جہالت۔
نرینہ اولاد کی خواہش میں لوگ بعض مزاروں پر منتیں مانگتے ہیں اور ان دعاؤں
اور منتوں کے نتیجے میں جب بیٹا ہوتا ہے تو اسے مزار پر بیٹھے ملنگوں کے
سپرد کر جاتے ہیں ۔ وہ لوگ اس کے سر پر ایک لوہے کا خود یا لوہے کا کڑا
چڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بچہ تو جوان ہو جاتا ہے مگر اس کا سر
بڑھنے نہیں پاتا۔ دماغ اور سر سے متعلقہ تمام اعضا بیکار رہ جاتے ہیں۔ یہ
’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ کہلاتے اور بھیک مانگنے کے کام آتے ہیں۔ حکومت نے اس
بری رسم پر پچھلے سالوں میں سختی سے قابو پایا ہے۔مگر اس وقت بھی بیس ہزار
(20,000) کے لگ بھگ یہ دولے شاہ کے چوہے مزاروں، مسجدوں، شہروں اور قصبوں
کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتے نظر آ تے ہیں۔
اغواہ کاروں کا ایک منظم گروہ چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ
دیتا اور انہیں خود معذور بنا دیتا ہے ۔ ان بچوں کو ان کے گھروں سے دور لے
جا کر ان سے گداگری کا کام لیتا ہے۔یہ بچے گروپ کی صورت میں کام کرتے ہیں۔
کسی چوک میں ڈیرا لگایا۔ دس بارہ بچے کسی ایک شخص کی نگرانی میں چوک کے
گردونواح میں پھیل جاتے اور بھیک مانگتے ہیں۔ نگران ان پر نظر رکھتا اور
بھاگنے نہیں دیتا۔عموماً بچے بھاگتے بھی نہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ
بھاگنے کی کوشش میں پکڑے جانے کی صورت میں انہیں بدترین سزاؤں کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔
خواجہ سراؤں کا پیشہ کبھی محلوں اور گلیوں میں ناچ گانا تھا۔ اب بہت سے اس
پیشے کو چھوڑ کر گداگری کا پیشہ اختیار کرچکے اس لئے کہ یہ کام نسبتاً آسان
اور بہتر ہے۔ محلوں میں وہ لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتے تھے ۔ نوجون ان سے
چھیڑخانیا ں کرتے تھے۔لیکن فطری طور پر محروم اس طبقے کے ساتھ بحیثیت
بھکاری لوگ ہمدردی اور رحمدلی کا اظہار کرتے اور آسانی سے بھیک دیتے ہیں۔
حکومتی سطح پر کچھ کاوشیں ان کی بہتر زندگی کے حوالے سے ہوئیں تو ہیں مگر
بہت کم خواجہ سراؤں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔زیادہ تر فقط گداگری ہی کرتے
ہیں۔اس وقت گیارہ ہزار(11,000) سے زیادہ خواجہ سرا بھکاری پیشے سے منسلک
ہیں۔
ایک پیشہ ور گروہ گاؤں اور چھوٹے قصبوں سے معذور اور بوڑھے مرد اور خواتین
کو جو کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے باقاعدہ خرید کر بڑے شہروں میں لے
آتا ہے اور انہیں مانگنے کے لئے صبح صبح اپنی گاڑیوں میں لا کرشہر کے مختلف
چوکوں اور سڑکوں کے کنارے بٹھا دیتا ہے اور شام کو واپس لے جاتا ہے۔ کمزور
عقیدے والے لوگ بوڑھے اور معذور لوگوں کی دعاؤں کی طلب میں اتنی معقول بھیک
دیتے ہیں کہ انہیں خرید کر لانے والے لوگوں کے لئے اب یہ ایک انتہائی نفع
بخش کاروبار بن چکاہے۔
غریب اور بے روزگار لوگ مجبوری کی حالت میں بھیک مانگنے پر مائل ہوتے ہیں ۔
شروع میں ان کا خیال ہوتا ہے کہ حالات بدلتے ہی وہ بھیک مانگنا چھوڑ جائیں
گے مگر آسانی اور بغیر محنت سے دن بھر میں معقول رقم ہاتھ آجانے کی لت ان
کے رگ وپے میں ایسی بستی ہے کہ وہ واپس اپنی دنیا میں جانا پسندنہیں کرتے۔
پچھلے چند سالوں میں اس پیشے نے اس قدر ترقی کی ہے کہ ہمارے بازار، گلیاں،
مزارات، مسجدیں اور تمام اہم مقامات پیشہ ور بھکاریوں سے لدے پھدے نظر آتے
ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔بھکاریوں کی یہ بڑھتی
ہوئی تعداد نہ صرف الارمنگ ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث
بھی ہے۔
گداگری کے سد باب کے لئے بتدریج کام کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے ہٹے کٹے
اور صحت مند لوگوں کے بھیک مانگنے پر پابندی عائد کی جائے اور پولیس اور
عدالتوں کو ان کے خلاف بھر پور کاروائی کا کہا جائے۔چائلڈ پروٹیکشن کے
محکمے کو آہستہ آہستہ سڑکوں سے بھیک مانگتے بچوں کو اٹھانے اور ان کو مختلف
سماجی انجمنوں اور یتیم خانوں کے سپرد کئے جانے کا کام سونپا جائے ۔ وہ بچے
جو اغوا کرکے لائے گئے ہو ان کے والدین کا پتہ لگا کر سپردگی کی کوشش کی
جائے۔ خواجہ سراؤں کو انڈسٹریل ٹریننگ دے کرانہیں مختلف فیکٹریوں میں
کھپایا جائے۔ یہ لوگ عموماً گروپ کی صورت رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی ٹریننگ
اسی پس منظر کے مطابق ہو تو بہتر ہے۔بوڑھے اور معذور لوگوں کی ذمہ دار
حکومت وقت ہے ان کے لئے بڑے بڑے ہومز بنانے کی ضرورت ہے۔ نوجوان معذوروں کے
لئے بھی کچھ ٹھوس اقدامات درکار ہیں کہ وہ معاشرے کے لئے بوجھ نہ کہلائیں۔
گو یہ ایک لمبا کام ہے اور اصل میں بے روزگاری اورغربت کے خاتمے سے جڑا ہے
مگر اس کے لئے ابتدا تو کرنی ہو گی۔ امید ہے حکومت اس سنگیں مسئلے پر سوچے
گی اور اس کے سدباب کے لئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔
|