کل صحافیوں کی ایک تنظیم پی ایف سی(پاکستان فیڈریشن آف
کالمسٹ) کی جانب سے قصور میں تعزیت کے لئے دعوت نامہ ملا تو میں نے اسے
غنیمت جانا اور ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں وہاں تعزیت کے لئے
جانے کا پروگرام بنا رہا تھا اور اس طرح مجھے اپنی تنظیم کے ساتھ جانے کا
موقع مل گیا۔تما م انتظام پی ایف سی کے مرکزی صدر ملک محمد سلمان اور ان کی
ٹیم جن میں اعجاز مہاوری صاحب ،ملک عدنان عالم صاحب ،حافظ مسعود چوہدری
صاحب ،ڈاکٹر عبداﷲ صاحب،میں ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور اور ثروت روبینہ صاحبہ
قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ پی ایف سی کے دوسرے ممبران حضرات بھی شامل
تھے۔ملک محمد سلمان اور ان کی ٹیم نے بڑے احسن طریقے سے مہمانوں کا پریس
کلب میں استقبال کیا ا لہذا جب تمام دوست صحافی پریس کلب میں جمع ہوئے تو
پہلے زینب کیس پرہی سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد تمام
صحافیوں کی چائے کے ساتھ تواضح کی گئی اور پھر گاڑی آنے پر تمام صحافی دوست
قصور شہر کے لئے روانہ ہوئے ۔راستے میں ایک بار پھر پی ایف سی کی ٹیم کی
جانب سے مشروب اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں مہیا کی گئی ہمارے ساتھ کچھ
خواتین کالم نگار اور اینکر پرسن بھی موجود تھیں اس کے علاوہ کئی اینکر
پرسن،سیاسی اور سماجی شخصیت بھی اس گروپ میں شامل تھے کیونکہ ان سب کا مقصد
صرف زینب بیٹی کے والد صاحب سے تعزیت کرنا تھا ۔خیر ہم سب اڑھائی بجے کے
قریب قصور پہنچ گئے جہاں قصور کے مقامی صحافیوں نے ہمارا بھر پور استقبال
کیا اور ہم ان کے ساتھ زینب کے گھر پہنچے تومقامی افراد کے علاوہ میڈیا
پرسن اور مقامی سیاسی حضرات نے ہمیں خوش آمدید کہا ۔پہلے تو ہمیں زینب کے
چچا اور ماموں نے کیس سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا اس کے بعد زینب کے والد
محترم تشریف لائے اور ان سے تعزیت اور فاتح شریف پڑھنے کے بعد انہوں نے کیس
سے متعلق کچھ تفصیلات صحافی دوستوں سے شیئر کیں اور انھوں نے تمام صحافی
برادری کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس کیس کی بھر پور معاونت کی ورنہ یہ
کیس بھی دوسرے کیسوں کی طرح فائل کا ایک حصہ بن جاتا۔
ہماری موجودگی میں ہی میاں افتخاراحمد اور ان کے ساتھی بھی پشاور سے تشریف
لے آئے ان سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا کیوں کہ ہم پہلے کافی دیر سے
موجود تھے اس لئے ہم نے واپسی کے لئے اجازت چاہی ۔زینب کے گھر سے واپسی پر
وہاں پریس کلب کے چند عہدیداروں نے ہمارے تمام صحافیوں کی ایک مقامی ہوٹل
میں دعوت کی جس کے لئے ہم ان کے شکر گذار ہیں کھانے کے دوران ہی تمام صحافی
دوستوں نے اپنا اپنا اتعارف کروایا اور اس کے بعد ہم ضلع کونسل کے چیئرمین
جناب ملک اعجاز احمد صاحب کی دعوت پر ضلع کونسل ہال پہنچے جہاں ان کے ساتھ
زینب کیس پر بریفنگ لی گئی اور صحافیوں نے ان سے چند سوالات بھی کئے اس کے
بعد وہاں بھی صحافیوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا کیونکہ ہم سب
صحافی دوست کھانا کھا چکے تھے اس لئے وہاں صرف کھیر پر ہی تکلف کیا گیا ۔قصور
کے لوگوں کی مہمان نوازی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔
اب اس کیس کو سلجھانے کی پوری طرح کوشش کی جا رہی ہے امید کرتے ہیں کہ زینب
کے قاتل کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا اور اسے واقعی قرار سزا دی جاے
گی۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ درندہ صفت انسان پھر کسی کلی کو مسک دے گا
تمام سیکورٹی ادارے وہاں مقامی پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں لیکن
ابھی بھی زینب کے گھر میں میڈیا کے لوگ موجود ہیں اس کے علاوہ ملک بھر سے
سیاسی ، سماجی ،دینی اور صحافیوں کا سلسلہ جاری ہے اس واقعہ پرپوری قوم
اکھٹی ہے اور زینب کے والدین کے ساتھ کھڑی ہے ہر پاکستانی زینب کی آواز بن
گیا ہے خدا کرے کہ یہ قاتل جلد گرفتار ہو تا کہ زینب اور دوسری بچیوں کے
گھر والوں کو انصاف ملے اور بچیوں کی روح کو بھی تسکین ملے۔
|