آزاد جموں وکشمیر کے تاجروں کی جانب سے نئے ٹیکسز کے
اطلاق کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا گیا ہے ریاست میں سرکاری ملازمتوں کے
بعد روزگار کا ذریعہ تجارت یعنی دکانداری ہے اس کے علاوہ یہاں چھوٹی بڑی
صنعت سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر کے وہ تما م زرائع روزگار جن کا وجود یا قیام
ہونا چاہیے تھا یہاں کی قبائل طرز تعصبات سمیت مختلف وجوہات کے باعث فروغ
پاسکے نہ فروغ دینے کی کوششیں کی گئیں ،گزشتہ 10 سال کے دوران بطور
وزیرسیاحت پہلے طاہر کھوکھر نے مری سے لے کر کوہالہ تک چاکنگ سمیت دیگر
سرگرمیوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے سیاحت کی طرف کاوشیں کیں جس میں میڈیا ،
خصوصا الیکٹرانک میڈیا کا بہت ہی کلیدی کردار رہا ۔امیرالدین مغل نے نیلم
جنت نظیر کو متعارف کروانے میں سرگرم جدوجہد کی تو عارف عرفی ، امتیاز
اعوان، اسلم میر اور ان کی ٹیموں سمیت دیگر سب ہی کا متحرک کردار قابل فخر
ہے جس کے ثمرات سے اب سیاحت تیسرا بڑا ذریعہ روزگار بن چکا ہے تاہم اس میں
بھی سرکاری سطح پر وزیرسیاحت دوست جرات مندانہ اقدامات اور پھر عوام خصوصاً
اس روزگار سے منسلک تاجروں کو وسعت قلبی ، سیاحوں کو رحمت الہٰی تصور کرتے
ہوئے مہمان نوازی کو بالا دستی دینی ہوگی، تاہم سیاحت بھی ہوٹلنگ ، ریسٹ
ہاؤسز ، دکانداری ، یعنی تاجروں کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور حالیہ بڑھتی
ہوئی مہنگائی کی لہر کے ساتھ عام آدمی کا برا حال ہو چکا ہے مگر سرکاری
ملازمین کے بعد تاجروں جن کا معاش قابل اطمینان رہتا ہے تشویش کا شکا ر
ہوئے ہیں ایسے میں ٹیکسز کے حوالے سے مذید فکرمندی لاحق ہونا جبلتی عمل ہے
۔ گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے خلاف بہت منظم اور اجتماعی یکجہتی کے ساتھ
کامیاب تحریک چلائی گئی اب آزاد کشمیر میں مرکزی انجمن تاجران کے چیئرمین
شوکت نواز میر کی دعوت پر 10 اضلاع کے تاجروں نے اکٹھے ہوکر اپنا چارٹر آف
ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے مزاحمتی تحریک کا اعلان کیا ہے کوئی شک نہیں کہ جس
طرح شہریوں کے ریاست پر حق ہیں اسی طرح ریاست کا بھی شہریوں پر حق ہے اور
اس میں ٹیکسز کا ہونا لازمی ہے تاہم اس کا نفاذ بھی رفتہ رفتہ ہونا چاہیے
ایک ہی بار ایک ہی وقت میں اسکی توقع کرنا بہتری کے بجا ئے نقصان کا باعث
نہ بن جائے ۔ یہ آزاد کشمیر کے سارے معاشرے کا بہت بڑا نقص ہے یہاں ہر اچھی
بات اور کام کے لئے دوسروں کو مشورہ دیا جاتا ہے مگر خود معذوری جیسا طرز
عمل کا شکار ہو جاتے ہیں اس حوالے سے ٹیکسز سے منسلک حکام اور تاجروں کو
ملک کر قابل عمل حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ، قانون ساز اسمبلی سے
ملازمین تنظیموں کے لئے پاس کردہ قانون پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں اور
طریقہ کار کے تعین کے بعد محکمہ صحت سے لیکر اکلاس کے ملازمین تک کا احتجاج
پر ہونا سبہی کے لئے لمحہ فکریہ ہے الکاس کے ملازمین کا احتجاج اور گولڈن
ہینڈ شیک کا مطالبہ ثابت کرتا ہے بعض دیگر محکموں کی طرح اکلاس کا قیام بھی
محض ملازم بھرتی کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا ،یہ ملازمین اب اپنے مستقبل سے
خوف زدہ احتجاج پر ہیں جن کے لئے آبرو مندانہ فیصلہ کر کے خزانے پر بوجھ
ختم کرنے کے لئے اس کے ساتھ دیگر محکموں کی طرف بھی بڑھنا چاہیے تو محکمہ
صحت کے ملازمین کا احتجاج جاری رہتاتھا اور اب پھر شروع کیا گیا ہے یہ
احتجاج کرنے والے مقاصد حاصل کر ہی لیتے ہیں مگر چراغ تلے اندھیرے کے مصداق
اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا گزشتہ دس سال سے عباس انسٹیوٹ ہسپتال سے لے کر دیگر
جگہوں پر کم و بیش 100 ملازم صرف پانچ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر فل ڈیوٹی
وڈیرے کے مزارعے کی طرح کرتے ہیں اور آج تک ان مجبور محکوم بیچاروں کی طرف
توجہ دینا کسی نے گوارہ نہیں کی ہے ۔ یہی حال پرائیویٹ سیکٹر کا بھی ہے جن
کی المناک کہانیاں سننے والا بھی کوئی نہیں ہے کیونکہ برادری علاقہ زبان
سیاسی لبادہ اوڑھ کر نا خدا بنے بیٹھے ہیں ایسے میں چیف سیکرٹری سمیت لینڈ
افیسران کا وجود پہلے بھی غنیمت رہا ہے اور اب بھی ہونا چاہیے ان کو اپنے
وجود کا خوف خدا کرتے ہوئے احساس بھی دلانا چاہیے ۔ |