آج کا دن بہت بوجھل تھا۔دوست کی شادی قریب ہے۔اس کے ساتھ
دن کا
کچھ حصہ گزارا،،،مسکراہٹیں،،شرارتیں بس بازار سے آفس اور پھر گھر کی،،
راہ لی۔
اک بچہ جو ہمارے سامنے قلقاریاں مارتا ہوا پلا بڑھا،،،اس کی معصومیت
اس کی سعادت مندی بے شک آج کے دور میں کم کم ہی نظر آتی ہیں۔گھر
کے حالات اچھے ہوں تو بچے ذیادہ شرارتی اور زندہ دل ہو جاتے ہیں۔
کسی کام سے بازار جانا ہوا۔وہ بچہ چودہ اگست کی جھنڈیاں بیچ رہا تھا،،،ہم
اس کے پاس گئے۔ارے،،،! کس کے سٹال پر بیٹھے ہو،،،؟
اس کے چہرے پر اک زخمی بے روح سی مسکراہٹ آکر غائب ہو گئی۔جھٹ
سے بولا،،،آپ کہاں غائب ہو گئے ہو بھائی،،،ہم نے کہا،،،عرصہ ہوا وہ
ایریا،،،
چھوڑ دیا۔اورشفٹ ہو گئے ہم۔
بولا،،اچھےلوگ تو وہاں کوئی رہے نہیں۔اس کے بعد اس نے جو کریدنے پر بتایا۔
ماں بنا علاج کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر گئی،،،بابا کے گھٹنے جواب دے گئے
ہیں،،،چل پھر نہیں سکتے۔بڑا بھائی باہرچلا گیا ،،،مڑ کر خبر بھی نہ
لی،،،پڑوسی
پوچھتے بھی نہیں،،،بڑی مشکل سے رات تک دو سو پچاس روپے تک مل جاتے
ہیں۔چودہ اگست کے بعد کیا کروں گا کچھ پتا نہیں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اس کا بچپن،،ماں،،باپ،،بھائی کا چہرہ گھوم گیا،،!!
باپ نے کچھ پیسے بچائے تھے کچھ بھائی کو باہر بھیجنے میں لگ گئے،کچھ
لوگوں نے سادہ لوح باپ کو بزنس کے نام پر لوٹ لیا۔
ہمارا نام لے کر بولا،،آپ کچھ خرید لو۔مدد نہیں،،،بس لےلو۔
ہم نے سب سے مہنگی اک بانسری سی خرید لی۔جو کہ دو سو روپے کی تھی۔وہ
خوش ہو کر بولا،،،آج کی سب سے بڑی سیل۔
ہم بولے کھانا کون بناتا ہے،؟ اس کی آنکھ میں آنسو آ گئے،،،دائیں بائیں
جانب
دیکھ کر بولا،،رات کو جب اندھیرا ہو جاتا ہے اور محلے والا کوئی نہ ہوآس
پاس
تو سیلانی ویلفیئر سے کھانا لے آتا ہوں۔
ابا نے منع کیا ہے کسی محلے والے سے نہ مانگ لینا۔۔ویسے بھی محلےوالے،،،
دیکھ کے منہ پھیر لیتے ہیں۔کہیں کچھ مانگ نہ لیں ہم،،،
ہم مڑ گئے۔ہمت نہیں ہوئی کہ اس معصوم فرشتے سے آنکھ ملا پاتے،،
ہم اس کے لیے نوکری کا بندوبست ضرور کریںگے۔جو اس کےمعصوم ہاتھ بوجھ
اٹھا سکیں،،،ویلفیئر سے اب وہ کھانا نہیں لے گا،،،انشاء اللہ۔
جانے کیوں دکھ کم ہوتے نہیں
جانے کیوں سکھ پائیدار ہوتےنہیں
چلو اسی بہانےہم اپنے بھول گئے۔۔۔۔۔۔!!!
|