حسنہ قسط نمبر 69

“ جی میں “ والی نے غصے سے کہا۔
“ آئیے ،،، اندر آئیے آپ “ مریم نے اسے اندر آنے کے لئے پیچھے ہٹ کر رستہ دیتے ہوئے کہا۔ والی اسکے پیچھے اندر چل دیا وہ ادمی بھی داڑھی کھجاتا پیچھے ہو لیا۔ والی چلتا ہوا تاریک کمرے میں جہاں ہلکی روشنی تھی جس میں کمرہ عجیب پر سرار سا لگ رہا تھا۔ والی کو عجیب سی وحشت ہونے لگی اسکا دل کر رہا تھا وہ بھاگ جائے یہاں سے پر وہ آج مریم سے بات کئے بغیر نہیں جانا چاہتا تھا وہ جاننا چاہتا تھا وہ کیوں اسکی نا کال اٹینڈ کر رہی تھی نا ہی یونیورسٹی آ رہی تھی، نہ ہی کسی میسج کا جواب دے رہی تھی۔
“ ہاں بھئی اب بولو کون ہو تم اور مریم کو کیسے جانتے ہو ؟“ وہ آدمی وہی کمرے میں رکھے ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔ کمرہ اپنی خستہ حالی کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا۔ کمرے میں دو چار پاںیاں بچھائی گئی تھیں اسکے علاوہ دو پلاسٹک کے سٹول پڑے تھے۔ جن میں سے ایک پر وہ وحشی انسان بیٹھا مجھے گھور رہا تھا، دوسرے پر بیٹھنے کے لئے مریم نے مجھے کہا میں وہاں بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔
“ او بھائی کچھ پوچھا ہے تم سے ؟ “ اس نے والی کے منہ کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ والی نے ایک دم سے مریم کی طرف دیکھا جس نے بنا آواز کے لب ہلا کر سوری بولا۔
“ مریم آنٹی نظر نہیں آ رہی، کہاں ہے وہ ؟ “ والی نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اس سے پوچھا
“ مر گئی بڑھیا! اب بتا کچھ پوچھا ہے میں نے تو میری بیوی سے کیوں ملنے آیا ہے؟ “ اس نے غصے سے کہا۔
“ مر گئی،،،،، بیوی،،،، مریم “ والی پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اسنے بنا آواز کے زیر لب یہ دھرایا۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اسے دیکھ کر وہ آدمی بھی کھڑا ہو گیا ۔
“ ابے! کون ہے تو جو ایسے حیران ہو رہا ہے جیسے تیری ماں مری ہو۔ “ والی کو بہت غصہ آیا وہ بس مریم کی وجہ سے چپ تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا منہ توڑ دے۔
“ یہ میرا یونیورسٹی فیلو ہے اور پلیز ہمیں بات کرنے دیں آپ کچھ دیر۔“ اس نے والی کے غصے کو دیکھتے ہوئے کہا
“ واہ اب تو ایک غیر مرد سے بات کرنے کے لئے مجھے چپ کروائے گی۔ ذلیل، کمینی۔“ اس نے مریم کے بال پکڑ کر کہا
“ کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑو اسے۔“ والی نے اسکا ہاتھ مریم کے بالوں سے ہٹا کر ایک تھپڑ اسکے منہ پر جڑ دیا۔ وہ دوسرا بھی مارنے والا تھا اسے تب حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب مریم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھ اسکے اگے جوڑ دیئے۔
“ پلیز چلے جائیں یہاں سے یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے ۔ بہتر یہی ہے آپ اس سے دور رہیں۔“ والی اس وقت خود کو انتہائی بے بس محسوس کر رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس انسان اور مریم دونوں کا قتل کر دے۔
“ ہاں،،، ہاں چلو نکلو ،،، چلتے بنوں یہاں سے ہاں۔“ اس نے اپنے لب سے خون صاف کرتے ہوئے کہا جو کہ والی کے تھپڑ رسید کرنے سے نکلا تھا۔ مریم بس روئے جا رہی تھی والی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور تیزی سے دروازہ پار کر گیا۔
مریم وہیں زمین پر بیٹھ کر روتی جا رہی تھی۔
“ چل میرے لئے چائے بنا یہ ٹسوئے بعد میں بہا لینا۔ آئی بڑی عاشق! “ اتنا کہہ کر وہ سٹول کو ٹھوکر مارتا وہاں سے چلا گیا۔ اسکے رونے میں اور تیزی آچکی تھی۔
والی فل سپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے تیزی سے گر کر اس کی شرٹ کو بھگو رہے تھے۔ کئی بار آتی جاتی گاڑیوں والوں نے والی کو ایسے گاڑٰی چلانے پر گالیوں سے اس لئے نوازا تھا کیونکہ کئی بار ایکسیڈینٹ ہونے سے بچا تھا جانے کس کی دعائیں تھی جو آج اسے بچا رہی تھی۔
“ مر گئی بڑھیا! اب بتا کچھ پوچھا ہے میں نے تو میری بیوی سے کیوں ملنے آیا ہے؟ “ اس نے غصے سے کہا۔ یہ الفاظ بار بار اسکے کانوں میں گونج رہے تھے ۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اس کا اس طرح اگنور کرنا شادی کی وجہ سے ہوگا۔ اور تو اور شادی بھی ایک ادھیڑ عمر کے آدمی سے کرلی آخر ایسی کونسی مجبوری تھی۔ جو اسے شادی ہی کرنی پڑی اس کا دماغ پھٹ رہا تھا۔ شدید غصے نے اسے پاگل بنا دیا تھا۔ وہ زندگی میں کبھی اتنا نہیں رویا تھا جتنا اب رو چکا تھا۔ وہ آج گھر نہیں گیا تھا وہ ساری رات سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ اور اگلے دن وہ نا چاہتے ہوئے بھی یونیورسٹی چلا آیا۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا تب لگا جب اپنی مخصوص جگہ جہاں وہ گراؤنڈ میں بیٹھ کر پڑھا کرتی تھی جہاں پہلی بار انہوں نے بات کی تھی وہ وہاں اسی جگہ اسے بیٹھی نظر آئی۔ اسکی نظر جونہی والی پر پڑی وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ والی وہاں سے جانے لگا تھا مگر اسکی پکار پر اسکے قدم وہی جم گئے۔
(جاری ہے )

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 200957 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More