اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم
اﷲ پر توکل کرنے کا حق ادا کرو تو تمہیں ایسا رزق دیں جیسا پرندوں کو دیتا
ہے۔ جب وہ صبح اپنے گھونسلو ں سے نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں؛ انسان کو
تو پتا ہے کہ مَیں نے کمائی کے فلاں مقام پہ جانا ہے ، دکان پہ بیٹھنا ہے،
فیکٹری میں جانا ہے ، فلاں جگہ مزدوری کرنی ہے۔ لیکن ان پرندوں کو کچھ پتا
نہیں ہوتا کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ جب صبح کو نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں
اور جب واپس شام کو پلٹتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
پھر جس کی جو ضرورت ہے اﷲ اس کو وہ نصیب کرتا ہے۔ سارے پرندے ایک جیسی غذا
نہیں لیتے۔ اسی طرح اﷲ نے جو مختلف مخلوقات پیدا کی ہیں ؛ سب کی اغذیہ ایک
جیسی نہیں ہے۔کچھ پرندے کچھ کھاتے ہیں، کچھ کچھ کھاتے ہیں ۔اﷲ نے سب کو ان
کی ضرورت بہم پہنچاتا ہے۔بلکہ میں کہا کرتا ہوں کہ یہ جو ہنس ہے؛ یہ دنیا
کے اندر لاکھو ں کی تعداد میں کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ
سُچّے (اصلی) موتی کھاتے ہیں۔ اوراگر(یہ موتی) ہمیں کسی دوائی میں استعمال
کرنے کے لیے مطلوب ہوں ہزاروں لاکھوں روپے دے کے ہم کسی سے لیں تو پھر بھی
بعض اوقات یقین نہیں ہوتا کہ یہ خالص ہے یا نہ خالص۔ لیکن اس جانور (ہنس)
کو اپنے پیٹ بھرنے کے لیے یہ موتی روزانہ صبح شام چاہیے ہوتے ہیں اور ایک
جانور نہیں دنیا کے اوپر کروڑوں ہیں میرا رب ہر روز ہر ایک کی ضرورت کو
پورا فرماتا ہے۔
جس کی جو ضرورت ہے وہ پوری ہوتی ہے۔ جب وہ گھر سے اڑتے ہیں تو خالی پیٹ
ہوتے ہیں اور جب وہ شام کو آتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ کوئی
مقام رزق کا مخصوص ان کے لیے نہیں ہے اور سب سے اچھا کھاتے ہیں۔ جو امرود
کا باغ ہوتا ہے اس میں اگر آپ نے دیکھنا ہو کہ سب سے اچھا اور میٹھا امرود
کون سا ہے تو وہ وہ ہوگا جس کو طوطے نے چونچ لگائی ہو گی۔ چوں کہ یہ سب سے
اچھا پھل پورے باغ میں؛ ایک ہوتا ہے نا ایکسپورٹ کوالیٹی؛ یہ اس سے بھی
بہتر کوالیٹی لیتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے سب سے اچھا رکھا ہوا ہے ۔
اﷲ نے یہ انتظام کیا ہوا ہے۔ فرمایا میرے حضور نے اگر تم اﷲ پر توکل کرنے
کا جو حق ہے اس کو ادا کردو تو وہ تمہیں بھی ایسے ہی رزق عطا کرے جیسے
پرندوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ اگرتوکل تمہیں نصیب ہوجائے۔
حضرت رابعہ بصریہ کے یہاں مہمان آئے تو خادمہ نے کہا مہمان آئے ہیں تو ان
کے لیے کیا کِیا جائے؟ حضرت رابعہ نے کہا انہیں کھانا کھلاؤ۔ خادمہ نے کہا
صرف ایک روٹی بچی ہوئی ہے اور مہمان چار پانچ ہیں؛ کم از کم آٹھ دس روٹیاں
چاہیے۔ تو فرمایا اچھا اس روٹی کو اﷲ کی راہ میں خیرات کردو۔ خیرات کردی
گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازے پہ دستک ہوئی من علی الباب؟ دروازے پہ کون
ہے؟ کہا فلاں کا فرستادہ غلام ہوں۔ میرے آقا نے آپ کے لیے کھانا بھیجا ہے۔
خادمہ نے کھانا وصول کیا ۔ کپڑا اُٹھایا، گِنا تو چار روٹیاں تھیں۔ تو کہا
جلدی جلدی اس کو واپس کردو اس کے آقا نے کسی اور گھر بھیجا ہوگا یہ غلطی سے
ہمارے گھر آگیا۔ کھانا واپس کر دیا۔
پھر دروازے پہ دستک ہوئی۔ پوچھا من دق الباب؟ دروازہ کس نے کھٹکھٹایا؟ کہا
فلاں کا فرستادہ غلام ہوں ۔ خادمہ نے کھانا وصول کیا ۔ حضرت رابعہ نے کپڑا
ُٹھایا، گِنا تو چھ روٹیاں تھیں۔ کہا اس کے آقا نے کسی اور کے یہاں بھیجا
ہوگا یہ غلطی سے اپنے یہاں آگیا۔ کھانا واپس کردیا۔ پھر دروازے پہ دستک
ہوئی۔ پوچھا دروازے پہ کون ہے؟ کہا فلاں آقا کا بھیجا ہوا غلام ہوں۔ اور
انہوں نے کہا ہے کہ یہ کھانا حضرت رابعہ کو دے کے آنا۔خادمہ نے وصول کیا ۔
حضرت رابعہ نے کپڑا اُٹھایا، گِنا تو دس روٹیاں تھیں۔ کہا ہاں یہ کھانا
ہمارا ہے۔اس کو رکھ لو اور مہمانوں کو کھلادو۔ کہا حضرت پہلے دو بھی تو آپ
ہی کانام لیتے تھے اور اسی دہلیز پہ آئے تھے ۔ حضرت رابعہ نے کہا میرے رب
کا وعدہ ہے جو ایک دیتا ہے میں اس کو دس دیتا ہوں۔ پہلے چار روٹیاں تھیں
پھر چھ روٹیاں تھیں۔ میں نے کہا مالک دس دے گا تو تیری بندی وصول کرے گی۔
تو اگر اس پہ توکل قائم ہوجائے، اس پہ بھروسہ قائم ہوجائے ، تو وہ وہاں سے
دیتا ہے جہاں سے بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ جب انسان اﷲ کے فضل پر توکل
قائم کرلیتا ہے تو پھر کام کاج ضرور کرتا ہے لیکن اس کی زندگی کی جو ٹینشن
ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔ بس وہ جتنا کر سکتا ہے وہ کرے باقی سب چھوڑ دے اس پہ
تو پھر وہ خزانۂ غیب سے نصیب فرمائے گا۔
۲۷؍ جنوری ۲۰۱۸ء(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب)
٭٭٭
|