میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ میری زندگی ہے ٗ
اسے دیکھتا ہوں تو زندگی کا گمان ہونے لگتا ہے ٗ وہ نظروں سے اوجھل ہوتی ہے
تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرے جسم سے روح نکل گئی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں
اس کے بغیر کیسے زندہ رہوں گا۔ وہ مجھے ادھورا چھوڑ کر خود کہاں چلی گئی۔
اب مجھے کون مکمل کرے گا ۔ کون میری زندگی کی علامت بنے گا ۔ یہ الفاظ میرے
اس دوست کے ہیں جوکرکٹ کی دنیا کا بہترین کھلاڑی ہے ۔ ان دنوں وہ محبت کے
گرداب میں پاؤں سے سر تک پھنس چکا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہاہے کہ محبت کب
ہوجاتی ہے اورکیوں ہوجاتی ہے اس کا کسی کو بھی علم نہیں ہوتا ۔ بس آنکھیں
چار ہوتی ہیں تو دل میں خوشی کے فوارے پھوٹنے لگتے ہیں یہی وہ علامتیں ہیں
جو محبت کی نشان دہی کرتی ہیں ۔
میں نے کہا ایک معروف کرکٹر کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں آپ پر جان نچھاور کرتی
ہیں ۔ آپ جس پر بھی ہاتھ رکھیں وہ آپ کے ساتھ چلی آئے ۔آپ اس قدر مایوس
کیوں ہیں ۔ میری اس بات پر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ اس نے کپکپاتے
ہوئے لہجے میں کہا باتوں اورنصیحتوں سے تو آپ مجھے بہلا سکتے ہیں تو میرے
بے قرار دل کو قرار اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ مجھے مل جائے ۔ میں سب کچھ
چھوڑ سکتا ہوں لیکن اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا ۔ میں نے پوچھا وہ ہے
کون اور آپ اس سے کیا چاہتے ہیں ۔ اس نے بتایا وہ مجھے ایک شادی کے فنکشن
میں ملی تھی ۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے والدین کو وہ لڑکی
پسندنہیں ۔ میں نے کہا ٗ ہوسکتا ہے آپ کے والدین ٹھیک سوچ رہے ہوں ۔کیونکہ
انسان پر جب محبت کا بھوت سوار ہوتا ہے تو عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور
ظاہر ی حسن و جمال کے پردے عقل پر پڑ جاتے ہیں۔میں نے کتنے ہی نوجوان ایسے
دیکھے ہیں جو واجبی سی شکل والی لڑکی کو ہی جنت کی حور تصور کرکے اس پر جان
نچھاور کرنے لگتے ہیں ۔ وہ بولا ۔آپ شاید اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی کبھی
محبت نہیں کی ۔اگر محبت کی ہوتی تو آپ ایسی باتیں نہ کرتے ۔میں نے کہا ایسی
بات نہیں ہے ۔محبت کے بغیر تو کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا ۔ محبت ایک
فطری جذبہ ہے جو انسان کو زندگی میں ایک بار ضرور اپنی اہمیت کااحساس
کرواتا ہے ۔ میں نے اسے کتنی ہی مثالیں دیں اور کتنے ہی واقعات کاتذکرہ
کیالیکن اس کا ایک ہی اصرار تھا کہ بس مجھے تو وہی لڑکی چاہیئے ٗ میں کسی
اور لڑکی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ میں نے کہا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ
محبت اور کرکٹ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی چڑ ہیں ۔اگر آپ
نے قومی سطح پر کرکٹ کھیلنی ہے تو محبت کو قربان کرنا پڑے گا۔ وگرنہ آپ
اپنی اہمیت اور حیثیت کھو بیٹھیں گے اورمایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوب کر بے
نام ہوجائیں گے ۔میرے تمام تر دلائل کے باوجود اس کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی
رہی کہ اگر وہ نہ ملی تو میں خود کشی کرلوں گا۔
.....................
ایک رنگین مزاج ہمارا کلاس فیلو بھی تھا۔ جسے لمبوترے چہرے کی وجہ سے ساتھی
اسے کبوتر شاہ کے نام سے پکارتے ۔ اس کے باوجود کہ وہ زیادہ خوبصورت اور پر
کشش نہیں تھا ۔ بظاہر کوئی خوبی نظر نہ آنے کے باوجود پانچ لڑکیاں اس پر
جان نچھاور کرتی تھیں ٗ وہ ایک ہی دن میں پانچ مختلف لڑکیوں سے عشق فرماتا
۔ اس نے سکول سے چھٹی کے بعد بچنے والے وقت کو پانچ حصوں میں تقسیم کررکھا
تھا ٗ ہر لڑکی کو اس کے مقررہ وقت پر ضرور ملنے جاتا۔ ہم سب حیران تھے کہ
وہ اتنا خوش شکل بھی نہیں تھا پھر بھی لڑکیاں اس پر مکھیوں کی طرح کیوں
گرتی ہیں ۔ ہماری نکتہ چینی کے باوجود وہ اپنے مقدر پر خوب نازاں تھا ۔جب
میٹرک کا رزلٹ آیا تو عشق کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن پاس ہونے والا کبوتر
شاہ پانچ مضامین میں فیل ہوگیا ۔ میں نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا تم نے جو
زبردست کامیابیاں عشق کے میدان میں حاصل کی تھیں ان کامیابیوں نے تعلیم کے
میدان میں آپ کا ساتھ نہیں دیا کاش تعلیم بھی کسی لڑکی کانام ہوتا۔ بہتر
ہوگا کہ اپنے معاشقوں پر مکمل توجہ دیں اور پڑھائی کو خیر باد کہہ ڈالیں۔
حسن اتفاق سے جب شادی کا وقت آیا تو پانچوں لڑکیاں اس سے شادی کرنے پر
آمادہ تھیں ۔ایک مرد سے پانچ لڑکیاں بیک وقت کیسے شادی کرسکتی ہیں۔ چنانچہ
وہ لڑکی خوش قسمت تصورہوئی جس کی شادی عاشقی کے اس چیمپیئن سے ہوئی ۔ پھر
بچوں کی ایسی لائن لگائی کہ اب وہ سر اٹھائے کہیں چلتا پھرتا بھی نظر نہیں
آتا۔یہ اس کی لامحدود محبت کاشاخسانہ تھاجو شادی کے بعد اپنی موت خود مر
گیا۔
میں جس ادارے میں بیس سال ملازمت کرتا رہا ہوں۔ وہاں ایک د بلا پتلا نوجوان
آفس بوائے کی حیثیت سے ملازم تھا ۔ کچھ وقت کے لیے وہ میرے ساتھ کام میں
معاونت کرتا ۔ مجھے اس وقت حیرانگی ہوتی جب وہ کام کو چھوڑ کر اچانک اپنے
موبائل سے مسیج کبھی پڑھنے لگتا تو کبھی اس کا جواب ٹائپ کرتا۔ اس کے جذبات
اور دلی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں تھیں ۔چند دن تک تو میں اسے اگنور کرتا
رہا پھر ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ تمہیں اتنے مسیج کون کرتا ہے ٗجس کا
جواب دینا بھی آپ پر لازم ہوجاتاہے ۔ آخر اتنی فرصت کے کس پاس ہے ۔ پہلے تو
وہ گبھرایا اور کہا کوئی نہیں سر۔بس دوست ہیں ۔ جب اسے پتہ چلا کہ میں لائٹ
موڈ میں ہوں تو اس نے بتایا سر ایک بات بتاؤں کسی کو بتائیں گے تونہیں ۔
میں نے کہا بتاؤ ۔ کہنے لگا میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے کہا وہ
لڑکی ہے کہاں ۔ اس نے بتایا وہ شادی شدہ ہے اورکراچی میں رہتی ہے ۔ میں نے
افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک شادی شدہ عورت سے تمہیں عشق کرنے کا
کیا فائدہ ۔ کنواری لڑکی سے عشق کاانجام تو شادی ہوسکتا ہے لیکن شادی شدہ
عورت سے عشق فرمانے سے آپ کوکیا حاصل ہوگا ۔ اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا
سر آپ نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔وہ میری زندگی ہے اور میں اس کے بغیر کسی اور کا
تصور نہیں کرسکتا ۔ میں نے کہا کبھی شیشے میں اپنی شکل دیکھی ہے ۔نچڑے ہوئے
لیموں کی طرح تمہارا منہ ہے اور جسامت بھی اس قدر کمزور ہے کہ تھوڑی سی تیز
ہوا چلے تو تمہارے اڑنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اپنی صحت کا خیال
رکھو اور اس فضو ل عشق بازی سے اجتناب کرو ٗجو تمہاری زندگی برباد کرسکتی
ہے ۔ شاید اسے میری بات بری لگی لیکن اس نے جواب دینے کی بجائے خاموشی
اختیار کیے رکھی ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی محبوبہ کے مسیج آنے پر بے
حد خوش ہوتا اور نہ آنے پر اس قدر پریشان ہوتا کہ اس کے چہرے پر غم اور
پریشانی کے آثار نمایاں دکھائی دینے لگتے ۔ میں نے پوچھا یہ محبت ہے کیا
چیز ۔جس نے تمہیں اس قدر پریشان کررکھا ہے اور وہ بھی شادی شدہ عورت سے۔ وہ
اپنے شوہر سے وفاکرے گی یا تم سے ۔میں تو اسے اچھی عورت نہیں سمجھتا جو
تمہیں اپنی محبت کا یقین دلا رہی ہے اور بچے اپنے شوہر کے پالتی ہے ۔ افسوس
یہ معاشرہ کس طرح جارہا ہے ۔ یہ عجیب قسم کی محبت بھی آجکل کے حالات کا
شاخسانہ ہے ۔نہ لڑکے عشق بازی سے باز آتے ہیں اور نہ ہی لڑکیوں میں شرم
وحیا کاعنصر باقی رہ گیا ۔ ہر ایک نئے سے نئے شکارکی تلاش میں سرگرداں ہے ۔
جب سے موبائل اور فیس بک کا سلسلہ شروع ہواتو عشق و محبت کی داستانیں اب
گھر گھر سنائی دیتی ہیں ۔اخبارات میں اکثر ایسی خبریں پڑھنے کوملتی ہیں کہ
کینیڈا کی ایک گوری فیس بک کے دوست کے ساتھ شادی بنانے کے لیے گوجرہ شہر
پہنچ گئی۔ اسلام قبول کرکے دونوں کی شادی انجام پائی ۔اب زمینی فاصلوں کی
کوئی اہمیت نہیں رہی۔ فیس بک نے پوری دنیا کوایک گلوبل گاؤں کی شکل دے دی
ہے ۔انگلینڈ اورامریکہ میں بیٹھی ہوئی گوریاں پاکستانی شیروں کی تلاش میں
ہر جگہ پہنچنے کے لیے تیار ملتی ہیں ۔بس ذرا سا اشارہ چاہیئے ۔ جس طرح محبت
کے متلاشی فیس بک کو استعمال کرتے ہیں اسی طرح فراڈیوں کارخ بھی فیس بک کی
جانب ہے جو دوستی کی آڑ میں کسی نہ کسی چکرمیں انسان کو پھنسا دیتے ہیں
۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ جس طرح پہلے ایک خاندان کے افراد گھر کے
باہر لگاہوا لیٹر بکس روزانہ چیک کرتے تھے کہ ان کا کوئی خط تونہیں آیا اسی
طرح آجکل ہر وہ شخص جو فیس بک استعمال کرتا ہے ٗ نماز فجر کے بعد ہی فیس بک
اوپن کرکے چیک کرنے لگتاہے کہ کتنے افراد نے گڈمارننگ کہہ کر مجھے وش کیا
ہے اور کتنے افرادنے میری پوسٹ پر کمنٹس کیے ہیں ۔اب تو یہ مرض اس قدر بڑھ
چکاہے کہ کئی خواتین آپریشن تھیٹر جانے سے پہلی والی تصویر فیس بک پرلگاکر
کیپشن میں لکھتی ہیں ۔میں آپریشن کے لیے جارہی ہوں ۔ فیس بک کے دوستوں سے
دعا کی اپیل ہے ۔ کچھ لوگ تو کھانا بھی اس وقت کھاتے ہیں جب اس کھانے کی
تصویر فیس بک پر اپ لوڈ نہیں کرلیتے ۔ تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ آج ہم نے
کیا کھایا ہے ۔ یعنی نمود و نمائش کے تمام مواقع فیس بک نے آج کے انسان کو
وافر فراہم کررکھے ہیں۔
.................
ایک نوجوان اپنی خالہ زاد سے پیار کرتا تھا ۔پیار تو وہ لڑکی بھی اسے کرتی
تھی لیکن لڑکی کے والدین نے یہ کہتے ہوئے رشتہ دینے سے انکار کردیاکہ لڑکے
والوں کا سٹیٹس لڑکی والوں سے کم تر ہے ٗاس لیے ہم یہ رشتہ قبول نہیں
کرسکتے ۔ مصیبت تو یہ ہے کہ جب پیار ہوجاتاہے تو پھر کچھ بھی یادنہیں رہتا
۔صرف اور صرف وہی یاد رہتا ہے ٗ جس سے محبت ہوتی ہے۔
بہرکیف اختلاف کے باوجود رشتے دار ی تو ختم نہ ہوسکی ۔ ایک وقت ایسا بھی
آیا جب لڑکے کی شادی کسی اور لڑکی کے ساتھ ہوگئی ۔ لڑکے کو چونکہ نئی نویلی
دلہن میں مل گئی ۔اس لیے اس نے اپنی محبوبہ کے جذبات کو کچھ عرصے کے لیے
فراموش کردیااور اپنی نئی زندگی کے خوبصور ت لمحات کو یادگار بنانے میں
محودہوگیا ۔ یونہی وقت گزرتا رہا ۔ پھر وہ لمحہ بھی آپہنچا جب لڑکی کی شادی
کسی ڈاکٹر سے ہونا انجام پائی ۔ اس لمحے لڑکے کی حالت دیکھنے والی تھی ٗ وہ
خون کے آنسو رو رہا تھا اور اس ڈاکٹر کو بدعائیں دے رہا تھا کہ جس سے اس کی
محبوبہ شادی ہورہی تھی۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔ ڈاکٹر دولہا بن کے بارات کے
ہمراہ لڑکی والوں کے گھر جا پہنچا۔ شادی کی تقریبات کے دوران لڑکے کو کس
قدر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کا جواب تو وہ خودہی دے سکتا ہے ۔ مجھے
اتنا علم ہے کہ اس نے خود کشی کی بھی کوشش کی ۔ جب اس میں بھی ناکام رہا تو
پھر اس نے ڈاکٹر بننے کی کوشش کی تاکہ اپنی محبوبہ کو بتا سکے کہ میں بھی
ڈاکٹر بن سکتا ہوں ۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننا تو اس کی تعلیمی صلاحیت کے
مطابق نہ تھا۔ اس نے ہومیوپتھک ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی اور ڈگری لے کر اپنے
نام کے ساتھ ڈاکٹر لگوالیا ۔ اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی تھی اس کی محبوبہ
دو تین بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔ اب سوائے افسوس کے کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔
بہت عرصہ اس انجانی سی محبت نے اسے بے حال کیے رکھا ۔ ایک انڈین گانے کے
بول ہیں -:
محبت ہے کیا چیز .................. ہم کو بتاؤ
یہ کس نے شروع کی ........... ہمیں بھی سناؤ
فورتھ ائیر کے تعلیمی نصاب کی انگریزی کتاب میں ایک بلبل کی کہانی چھپی ہے
جو اپنی نوعیت کی بہترین کہانی ہے ۔ اس کہانی کالب لباب کچھ اس طرح کا ہے ۔
مصنف لکھتا ہے کہ ایک نوجوان کو شہزادی سے محبت ہوگئی ۔شہزادی سے اس نوجوان
سے شادی کا وعدہ اس شرط پرکیا اگر وہ اس کی سالگرہ پر گلاب کا سرخ پھول
لاکر دے گا ۔ نوجوان بے چارہ شہر کے تمام گلستانوں میں ہوآیا اسے کہیں گلاب
کا سرخ پھول نظر نہ آیا ۔وہ مایوس ہوکر اپنے گھر کی کھڑکی میں اس طرح بیٹھ
گیاکہ اس کی پریشانی اور اداسی ایک بلبل سے دیکھی نہ گئی ۔ بلبل اس کھڑکی
پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور نوجوان سے اداسی کی وجہ پوچھتی ہے ۔نوجوان بتاتا
ہے کہ میں شہزادی سے پیار کرتا ہوں اوراس سے شادی کرناچاہتا ہوں لیکن
شہزادی نے شرط رکھی کہ میں اس کی سالگرہ پر ( یہ سالگرہ ایک دن بعد ہی ہوتی
ہے ) گلاب کا سرخ تحفے میں پیش کروں ۔ بلبل نے کہا میں کوشش کرتی ہوں
ہوسکتاہے کہیں سے گلاب کا پھول مل جائے ۔ بلبل وعدہ کرکے کھڑکی کے نیچے
پارک میں لگے ہوئے گلاب کے پودوں کے پاس جاتی ہے اور ان سے ایک پھول کی
درخواست کرتی ۔ تمام پودے ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ گلاب کا موسم نہیں ہے
اس لیے جب موسم شروع ہوگا تب ہی گلاب کا پھول مل سکے گا ۔ ایک پودے نے اس
شرط پر گلاب کا پھول دینے کا وعدہ کیا کہ اگر بلبل اپنا جگر اس کے کانٹے پر
رکھ کر موسم بہار کے گیت گائے ۔جیسے جیسے کانٹا بلبل کے جگر میں پیوست ہوتا
جائے گا اور بلبل کے جسم کا خون ٗ گلاب کے پودے میں منتقل ہوتا جائے گااسی
طرح دوسری جانب گلاب کا پھول کھلتا جائے گا ۔ بلبل نے اس نوجوان کی اداسی
دور کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کا وعدہ کرلیا اور ساری رات گلاب
کے پودے کے کانٹے پر جگر رکھ وہ موسم بہار کے گیت گاتی رہی ۔کانٹا اس کے
جگر میں پیوست ہوتا رہا اور بلبل کے جسم کا خون پودے میں منتقل ہوگیا اور
کانٹا جگرمیں مکمل طور پر پیوست ہوگیا تو دوسری جانب گلاب کا سرخ پھول بھی
نمودار ہوگیا ۔ گلاب کا پھول تو پودے پر کھل گیا ۔ نوجوان نے اگلی صبح
کھڑکی سے نیچے جھانکاتو اسے ایک پودے پر گلاب کا پھول کھلا ہوا دکھائی دیا
وہ دوڑتا ہوا گلشن میں پہنچا اور گلاب کا پھول توڑکر شہزادی کے محل میں
جاپہنچا ۔ اسے مردہ حالت میں پڑی ہوئی بلبل دکھائی نہ دی ۔ جب وہ شہزادی کے
محل پہنچا تو شہزادی کسی اور کی بانہوں میں رقص کررہی تھی ۔ نوجوان نے پھول
دیتے ہوئے شہزادی کواپنا وعدہ یاد دلایا تو شہزادی نے یہ کہہ کر گلاب کو
اپنے پاؤں تلے کچل دیا کہ اب بہت دیرہوچکی ہے اور میں کسی اور سے شادی
کاوعدہ کرچکی ہوں ۔مصنف لکھتا ہے کہ محبت حاصل کرنا بھی جان جوکھوں کا کام
ہے ۔ پروانے ساری رات شمع کے گرد چکر لگاتے ہیں شمع تو کسی کو بھی نہیں
ملتی لیکن پروانے صبح تک مردہ حالت میں پڑے جا بجا نظر آتے ہیں ۔ شاید محبت
کے یہی تقاضے ہیں ۔
...................
میرا بچپن 1964ء سے 1985ء تک لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں گزرا ہے ۔
وہاں عشق و محبت کی کئی داستانیں میری آنکھوں کے سامنے انجام پائیں۔ایک کا
ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتاہوں۔ محمدامین جسے ہم سب پیار سے" مینا بھائی
"کے نام پکارتے ۔ وہ بہت ہی رنگین مزاج لڑکا تھا وہ مجھ سے دو چار سال بڑا
ہوگا۔ اس نے ایک انگوٹھی اور سرخ رومال پکڑا ہوتا ۔ ہر نظر آنے والی لڑکی
کو یہ دونوں چیزیں تحفے میں دینے کی کوشش کرتا ۔ ایک مرتبہ محلے میں ایک
خبر پھیلی کہ مینا بھائی کو ایک لڑکی سے خود ساختہ پیار ہوگیا ہے ۔ ریلوے
کوارٹر ٗ قربان پولیس لائن اور ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے درمیان واقع تھے
۔ قربان لائن سے جو لوگ اسٹیشن کی جانب جاتے انہیں ریلوے کوارٹروں سے گزرنا
پڑتا ۔ پولیس انسپکٹرکی ایک خوبرو لڑکی جو شاید کسی گرلز کالج میں زیر
تعلیم تھی ۔روزانہ گاڑی پر سوار ہونے کے لیے کوارٹروں کے قریب سے گزرتی ۔
مینا بھائی ٗ ہاتھ میں سرخ رومال اور انگوٹھی لیے اس کا انتظار کرتا ۔جیسے
ہی وہ نگاہیں جھکائے اپنی موج میں چلتی ہوئی قریب پہنچتی تو مینا بھائی اسے
رومال اور انگوٹھی کی پیشکش کرتا ۔ وہ مینا بھائی کی باتوں کو سنے بغیر ہی
خاموشی سے آگے بڑھ جاتی ۔ پیچھے سے مینا بھائی عشقیہ شعر بھی پڑھ کر بلند
آوازمیں اسے سناتے ۔ جب بات حد سے بڑھ گئی تو لڑکی نے اپنے والد کو بتا دیا
کہ مجھے ریلوے کوارٹروں کے قریب ایک لڑکا تنگ کرتا ہے ۔ والد نے کہا تم آگے
چلو میں ٗمیں تمہارے پیچھے آرہا ہوں ۔ مینا بھائی ٗ اظہار محبت کے لیے حسب
معمول تیار تھے ۔ جیسے ہی لڑکی کو اس نے لال رومال اور انگوٹھی دینے کی
کوشش کی توپولیس انسپکٹر نے جوتی اتار کر مینے بھائی کی پٹائی شروع کردی ۔
محلے والوں کواس وقت خبر ہوئی جب مینا بھائی کو دس پندرہ جوتیاں پڑ چکی
تھیں ۔ مینے کی ماں چیختی چلاتی بچاؤ بچاؤکہتی ہوئی اس جانب بھاگ رہی تھی ٗ
جہاں اس کے عاشق مزاج بیٹے کی پٹائی ہورہی تھی ۔ پولیس انسپکٹر اسے گرفتار
کرکے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا لیکن محلے کے چند معززین نے مینے کی جان
چھڑائی ۔ لیکن عشق و محبت کا بھوت جب سر پر سوارہوتاہے پھر کہاں سکون لینے
دیتا ہے ۔ مینا بھائی اس وقت تک لڑکیوں کا پیچھا کرتے رہے جب تک ان کی شادی
نہیں ہوگئی ۔ خدا خدا کرکے محلے والوں کی جان چھوٹی وگرنہ لال رومال اور
انگوٹھی نے سب کو بے چین کررکھا تھا۔
..................
ایک دن میں اردو بازار میں ایک بک شاپ پر بیٹھا اپنی کتابوں کی اشاعت کے
سلسلے میں محو گفتگو تھا کہ ایک نوجوان بدحواسی کے عالم میں دکان میں داخل
ہوااورجذباتی انداز میں وصی شاہ کی کتاب کے بارے میں استفسار کرنے لگا ۔میں
نے اسے بٹھایا اور پانی کا گلاس پلا کے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں
۔اس نے کہا میں ڈیرہ غازی خان سے یہ کتاب خریدنے آیا ہوں۔ میں ملتان بھی
گیا تھا لیکن مجھے وہاں بھی یہ کتاب نہیں ملی ۔ یہ کتاب بہت ضروری چاہیئے ۔
میں نے پوچھا اس کتاب میں ہے کیا۔جس کی آپ اس قدر ضرورت محسوس کررہے ہیں ۔
لمبی سانس لیتے ہوئے اس نے کہا اس میں ایک غزل ہے ٗ وہ میں نے اپنی محبوبہ
کو سنانا چاہتاہوں ۔ اگر یہ کتاب نہ ملی تو میری محبوبہ ناراض ہوجائے گی
اور میں یہ کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے آیا ہوں ۔ میں نے کہا اس غزل کا کوئی
شعر سنا سکتے ہیں آپ ۔ میرے استفسار پر اس نے ایک شعر پڑھا -:
کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا
توکبھی چومتی توکبھی سینے سے لگاتی مجھ کو
پوری غزل تومجھے بھی نہیں آتی لیکن وصی شاہ نے ایسے عاشقوں کے لیے ہی یہ
غزل لکھی تھی۔مجھے یہ شعر سن کر ہنسی آئی ۔کہ تم یہی غزل اپنی محبوبہ کو
کیو ں سنانا چاہتے ہو ۔ اس نے جواب دیا ۔یہ غزل میرے جذبات کی ہو بہو عکاسی
کرتی ہے۔ اس لیے میں اسکے سامنے اپنے جذبات کااظہار تو نہیں کرسکتالیکن اسے
یہ کتاب دے کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ غزل میرے جذبات کا کھلا اظہار ہے ٗ اسے
پڑھ لواور میرا مطمع نظر سمجھ لو۔
عشق و محبت کاکھیل تو شاید صدیوں سے جاری ہے اور زمانے کے بدلتے ہوئے
تقاضوں کے ساتھ ساتھ محبت کے اظہار کے طور طریقے بھی تبدیل ہوچکے ہیں ۔
کبھی وہ وقت بھی تھا جب فرہاد نے شیریں کو خوش کرنے کے لیے سنگلاخ چٹانوں
کا سینہ چیرکر ایک نہر نکالی جس کا ذکر آج بھی تاریخ کے اوراق میں موجود ہے
ٗ پھر سوہنی مہینوال کی محبت کا چرچا بھی خوب رہا ۔عشق مونہہ زور جب انسان
کو دیوانہ بناتا ہے تو دریائے چناب کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہریں بھی سوہنی
کا راستہ نہیں روک سکتی جو رات کے اندھیرے اور انتہائی خوف و ہراس کے ماحول
میں کچے گھڑے پر دریا میں تیر کر اپنے محبوب کو ملنے آیا کرتی تھی ۔ ظالم
سماج نے پکے کی بجائے کچا گھڑا رکھ کے سوہنی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دریائے
چناب کی خوفناک لہروں کے سپرد کردیا لیکن اس کی جوش محبت کااظہار آج بھی
سوہنی مہینوال کی کہانی میں دکھائی دیتاہے ۔لیلی مجنوں کی کہانی بھی بہت
عجیب لگتی ہے ۔ اس بات کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ استاد لیلی کے ہاتھ
پر سزا کے طور پر ڈنڈے مارتا تو نشان مجنوں کے ہاتھ پر پڑتے ۔ مجنوں نے
اپنی لیلی کو حاصل کرنے کے لیے تپتی ہوئی ریت کے ٹیلوں پر ننگے پاؤں
دوڑنابھی گوارا کر لیااورخود کو تاریخ میں زندہ کرلیا ۔
بظاہر یہ عورت اور مرد کی محبت کا شاخسانہ ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ
وہی عورت جو دوسروں کو عام سے نظر آتی ہے لیکن محبت کرنے والوں کے لیے وہ
دنیا کی خوبصورتی ترین اور انمول کیسے بن جاتی ہے ۔ کسی نے مجنوں سے کہا
۔تم کس لیلی کے پیچھے دیوانے ہوئے جارہے ہو اس کا رنگ تو کالا ہے ۔ مجنوں
نے جواب دیا تم میری آنکھوں سے دیکھو مجھے تو پوری کائنات سے وہ حسین نظر
آتی ہے ۔
ہم تمہیں چاہتے ہیں ایسے ............ مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جس کو مفت میں چاہت مل جائے وہ مغرور
ہوجاتاہے ۔ دونوں کے مابین باہمی محبت کے واقعات بہت کم دیکھے جاتے ہیں اور
اگر دونوں ایک دوسرے محبت کرتے بھی ہیں تو سماج درمیان میں ایسی دیوار کھڑی
کرتا ہے کہ محبت کرنے والے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن وہ سماج کی کھڑی
کی ہوئی دیوار کو نہیں گرا سکتے ۔ اخبار میں ایک کہانی چھپی تھی جو واقعاتی
خوبصورتی کے اعتبار سے بہت منفرد تھی ۔ ایک لڑکی نے خواب میں ایک لڑکے
کودیکھا جو اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتا ہے ۔جب دونوں کی آنکھیں آپس میں
ملتی ہیں تو بلاشبہ محبت ہوجاتی ہے ۔ خواب تو ختم ہوگیا ہے تو لڑکی کے دل
میں اس نوجوان کی محبت گھر کرگئی ۔وہ لڑکی ایبٹ آباد شہر کی رہنے والی تھی
۔ کوشش کے باوجود وہ لڑکا کہیں نظر نہیں آیا لیکن خواب میں اس نوجوان سے
ملاقات ایک معمول بن گئی ۔ خواب حالت میں ہی ایک دوسرے سے عہد و پیمان ہوتے
رہے اور ہمیشہ ایک ساتھ جینے اور مرنے کا عہد بھی کیا جاتارہا ۔آنکھ کھلتی
تو لڑکی اپنے بستر پر موجود ہوتی ۔ ایک انجانا سا احساس اسے پریشان کرنے
لگا ۔ طبیعت خراب رہنے لگی تو والدین ڈاکٹر کے پاس گئے جنہوں نے واہم قرار
دے دیا ۔ حسن اتفاق لڑکی کے والد کا تبادلہ ایبٹ آباد سے گجرات شہر میں ہو
گیا ۔ لڑکی سمیت سب لوگ گجرات شہر میں شفٹ ہوگئے تو ایک دن لڑکی اپنے والد
کے ساتھ سویٹ کارنرسے مٹھائی پرچیز کر رہی تھی ۔اسی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں
ایک خوبرو لڑکا بھی خریدداری کررہا تھا۔ اچانک دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا
لڑکی نے جب لڑکے کو دیکھا تودونوں دیکھتے ہی رہ گئے اور دونوں کو یوں محسوس
ہورہاتھا جیسے وہ صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔ کچھ دیر یونہی ایک
دوسرے کی آنکھوں میں ڈوبنے کا منظرجاری رہا ۔جب نظریں ہٹیں تو لڑکی کواحساس
ہوا کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جو خواب میں آکر اسے پھول دیا کرتا تھا۔ جسے وہ
ایبٹ آباد شہر میں تلاش کرتی رہی لیکن ناکام رہی ۔ یہی احساسات لڑکے کے بھی
تھے ۔ لڑکے کو بھی خواب میں وہی لڑکی پھول پیش کرتی ۔ اسی اثنا ء میں لڑکی
کے والد مٹھائی خرید چکے اور پے منٹ کرنے کے بعد ڈیپارٹمنٹل سٹور سے باہر
نکل آئے ۔ لڑکا بھی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا وہ اپنی گاڑی میں
ان کا تعاقب کرتا رہا ۔ حتی کہ اس نے وہ گھر پہچان لیا جہاں اسکی خوابوں کی
رانی اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھی ۔ پھر روزانہ ملنے اور کالج تک
اکٹھے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ دونوں ایک دوسرے کو ٹوٹ کر محبت کرنے لگے
۔ جب یہ خبر والدین کو ہوئی تولڑکی کے والد جو آرمی آفیسر تھے انہو ں نے
اپنی بیٹی کو سختی سے منع کردیا کہ اگر اس لڑکے کو اپنے گھر کے ارد گرد
دیکھ لیا تو وہ گولی ماردیں گے ۔جب لڑکے کے والدین تک یہ خبر پہنچی تو وہ
بھی اس رشتے میں دیوار بن گئے ۔ یوں دومحبت کرنے والے دلوں کے درمیان فاصلے
دن بدن بڑھتے ہی چلے گئے ۔ لڑکی اور لڑکا دونوں ایک انجانی بیماری کا شکار
ہوکر بستر سے لگ گئے ۔ کچھ ہی دن بعد لڑکی اچانک موت کی وادی میں جا سوئی ۔
جب یہ خبر لڑکے کو ملی تو وہ گرتا پڑتا والدین کی نظروں سے بچ بچاکر اپنی
محبوبہ کی قبر پر پہنچ کر قبر کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔ اپنے ہاتھ اٹھا کر
آسمان کی جانب بلند کیے اور جسم بھی بے جان ہوگیا۔ کہایہ جاتا ہے کہ گجرات
کے اس قبرستان میں ان دونوں قبروں سے آہیں اور سسکیاں رات کے وقت سنائی
دیتی ہیں ۔ ایسے جیسے کوئی بہت پرانا دوست گلے مل کر آنسو بہاتے ہیں اور
کبھی نہ بچھڑنے کاعہد کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ محبت کرنے والوں کو آگ کی ہلکی
آنچ پر خود کو جلانا پڑتا ہے ۔
اک آگ کادریا ہے ....... اور تیر کے جاناہے
برسات کے موسم میں روشنیوں کے ارد گرد دیوانہ وار گھومنے والے پروانوں کی
زندگی ان عاشقوں کی دلی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں جن کے نصیب میں شمع
تونہیں ہوتی لیکن شمع کو حاصل کرنے کی جدوجہدہی زندگی کی علامت ہے۔محبت اس
قدر بے رحم کیوں ہوتی ہے ؟ یہ جسم کے کسی حصے کو بھی سکون نہیں لینے دیتی ؟
سر سے پاؤں سے آگ کے شعلے اٹھتے کیوں نظر آتے ہیں ؟ وہ ایک شخص سب سے
خوبصورت اور سب پر بھاری کیوں دکھائی دیتاہے ؟ جس سے پیار ہوجاتا ہے ۔ اگر
محبت اس قدر مشکلات اورامتحانوں کا نام ہے تو پھر لوگ کیوں کرتے ہیں ؟ یہ
سوال آج میرے ذہن میں بار بار اٹھ رہا ہے ۔ کہ جس سے انسان پیار کرتا ہے وہ
مغرور کیوں ہوجاتاہے ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف محبت کرنے والے
ہی جانتے ہیں ۔ کوئی بھی اپنے محبوب کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں ہے ۔ |