تحریر: علی حسن، کراچی
ہر کوئی اپنی پروڈکٹ پروگرام اور دیگر چیزوں کی تشہیر کا حق رکھتا ہے مگر
اپنے ماحول کو گندہ کر کے تشہیر مہذب قوموں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ با تہذیب
ممالک میں اپنی دیواروں کو صاف رکھتے ہیں کیونکہ یہ خوبصورتی کی علامت
سمجھی جاتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے شخص کی نظر سب سے پہلے دیواروں پر پڑتی
ہے اور وہ اس سے مقام اور ماحول کا جائزہ لے پاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اس چیز کی شاید روز اول سے ہی کمی رہی ہے۔ اس کی بنیادی
وجہ کیا ہے یہ بات تو آج تک سمجھ نہیں آئی مگر کسی نہ کسی جگہ اخلاقی تربیت
کا فقدان ضرور ہے۔ لوگ اپنے گھر وں کو سجاتے ہیں مگر اپنے شہر کی دیواروں
کو گندہ کردیتے ہیں۔ یہاں دریا الٹا ہی بہے رہا ہے۔ اشتہار کے لیے جہاں
دیگر ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں وہیں دیواروں کا استعمال بھی خاصا بڑھ چکا
ہے، ہر دوسری دیوار کچھ نہ کچھ بولتی نظر آتی ہے۔
مختلف اقسام کی تحریریں قلم سے تحریر کی جاتی ہیں لیکن دیواروں کے خوبصورت
چہرے پر ایسی سیاہی چھوڑ جاتی ہیں جسے نسلیں دیکھتی ہیں۔ آج کے اس دور
دیواروں کو کمرشلی استعمال کیا جاتا ہے یا پھر کچھ اندر کے اچھے برے جذبات
کے اظہار خیال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کی
تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، یا پھر آنے والے دنوں کی تقدیر کو دیوار پر لکھ
دیا جاتا ہے۔
کبھی یہ دیواریں ان جعلی پیروں جو لوگوں کی اچھے برے کی تقدیر اپنے ہاتھوں
میں لیے بیٹھے لوگوں کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔ان کی تشہیر کر رہی ہوتی ہے
تو کبھی انہی دیواروں پر چورن اور منجن بیچا جارہا ہوتا ہے۔ عامل بابوں سے
لیکر بیوٹی پالر تک سب ہی اس کا استعمال کرتے ہیں۔
کبھی انہیں صاف دیواروں چند نوجوان ملک کے مستقبل کے فیصلے لکھ دیتے ہیں یا
کوئی سیاسی پارٹی اپنے نعرہ درج کرتے نظر آتی ہے تو کبھی مخالف پارٹی کو
گالیاں درج کرتے ہوئے! کبھی کسی جگہ چلکنگ کرکر اپنا ہولڈ ثابت کرنے کی
کوشش کی جارہی ہوتی ہے ٹی وی یا اخبار میں جگہ ملے یا نہ ملے دیواریں تو
کہیں بھی نہیں گئیں۔
ان دیواروں پر کہیں لکھا ہوتا ہے، ’’مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی ، کپڑا اور
مکان، دیکھو دیکھو کون آیا، ایک سب پہ بھاری، پتنگ پر مہر لگا کر با اختیار
ہونے کا ثبوت دیں وغیرہ ، جبکہ ان کے مد مقابل میں کچھ افراد بائیکاٹ کرتے
ہوئے دیوار کے چہرے پر چند جملے تحریر کرجاتے ہیں۔ الٹے سیدھے حکیموں کے
اشتہار ہر جگہ ایسے لگے ہوتے ہیں جس کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے جیسا ہر
دوسرا شخص کسی نہ کسی کمزوری کا شکار ہے۔جب کوئی اجنبی یا سیاہ شہر میں
داخل ہوتا ہے تو اسے چاروں اطراف میں یہ دیواریں چیختی چلاتی نظر آتی ہیں۔
شاید کچھ لوگوں کی جانب سے بارہا کوششوں کے نتیجے میں یہ سلسلہ وقتی طور پر
تھم جاتا ہے لیکن کوئی خاص موقع یا تقریب ، جلسے کے انعقاد پر یہ دیواریں
ایک مرتبہ پھر مختلف رنگوں سے رنگ جاتی ہیں۔
ہم خود تو یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کی دیواریں اعلیٰ کوالٹی کے پینٹ سے
چمکتی دمکتی رہیں لیکن دوسری دیواریں کچھ نہ کچھ پکارتی نظر آئیں۔ ہمیں یہ
بات سوچنی چاہیے کہ دیوار پر لکھنا اور پھر لکھ لکھ کر اس کو اس قدر بھدا
بنا دینا ہمارے اپنے شہر کی ہی خوبصورتی کو خراب کرتا ہے ہم اخلاقیات کی
تہہ گھیرائیوں میں گرتے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف غلیظ نعرے درج کر کے
بیرونی مہمانوں کو اپنا خراب چہرہ دیکھا رہے ہیں۔ اور پھر دیواروں کا یہ
غلط استعمال ہماری نوجوان نسل، خواتین اور بچوں کے لئے بگاڑ کا سبب بن رہا
ہے۔ ہم اگر اچھا معاشرہ چاہتے ہیں تو اس قسم کی محول مین آلودگی پیدا کرنے
والی چیزوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ہم اپنے محول کو تربیت کے ذریعے بہتر
کرسکتے اور اگر دیواروں پر کچھ تحریر کرنا ہی ہے دیواروں پر اچھے جملے جو
ہماری تربیت اور تعلیم کا حصہ بنیں تحریر کیے جاسکتے ہیں۔ ان پر اپنی تاریخ
رقم کی جاسکتی ہے۔ ان پر نقش ونگار کر کے اپنی بھولتی اور ڈولتی ثقافت
محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اداروں کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا۔
|