ارے جناب آپ بھی مجھے پہچان نہیں رہے ہیں، یار میں ہی تو ہو پسنی کے
ماہیگیروں کے چہرے پہ خوشیاں لانے والا،اس ویرانے کو آباد کرانے والا،ارے
آپ پہچان نہیں رہے۔ارے یہ کل کی بات ہے کہ آپ قہقوں سے میرے سینے پر
گدگدیاں کیا کرتے تھے،یہ ماہیگر، یہ ناخدا صوالی،وہ داد محمد،وہ اللہ ڈنا،
وہ سیٹھ کریم داد یہ ٹھیکدار صاحب ان سب کی عمریں جوانیاں سبھی مجھ پہ تو
گزری ہیں۔ارے میرے سینے کو تو چیر کر آپ لوگ لال و گوہر لاتے تھے۔رات دن
انجنوں کی گڈگڈاہٹوں سے اپنی خرمستیوں سے،ان لائٹوں کی چمک دمک سے اپنی
نیندوں کے ساتھ ساتھ میری نیندیں بھی خراب کیا کرتے تھے۔
> > یار آپ بھول گئے آپ کا قصور نہیں جناب آپکا قصور نہیں،کیونکہ آج میں اس
نا کس بیوہ عورت سا ہوں جس کی عزت کو پورے شہر نے تار تار کیا ہو، جو کوکھ
میں حرامی بچہ لے کے قطبیں میں بھٹک رہی ہو۔
> > جانشؤوں کے پیسے کھانے والے ناخداؤں، واقعی آپکا کوئی خدا نہیں،کمیشنوں
پہ پھلنے والے سرمایہ دار سیٹھوں آپ کیونکر مجھے پہچانیں گے جبکہ آپکے اپنے
آشرباد پہ آئے ٹراؤلروں نے میرے موتی جیسے حسن کو تار تار کیا،جناب آپ تو
اب بھی مجھے بیچنے پہ تلے ھوئے ہیں کیونکہ آپکے تہئیں میں اب بھی کسبی
ھوں۔نہ میں اس ڈائیریکٹر صاحب کو بھول سکتا ھوں نہ اس اس وزیر کو جس نے
پانچ وقت کی نمازوں کا قسم کھا کر حج پہ جا کر 1 ارب کے گرانٹ کو حرام سے
حلال میں کنورٹ کیا اور میرے کینسر کا علاج پناڈول سے کرنے کی ٹھان کر گینز
بک میں ورلڈ ریکارڈ بنانا چاہا، پر کیا کرے یہ گینز والے بھی بلوچوں سے
نفرت کرتے ہیں۔
> > ارے جناب میں اپنی داستان حسرت سنا سنا کر آپ سے رحم کا طلبگار
نہیں۔میں سمجھتا ھوں آپ میرے درد کو سمجھ رہے ھونگے اور مجھے پہچان چکے
ھونگے اگر نہیں تو سنیں۔
> > میں پسنی کا لاوارث و بنجر جے ٹیjetty ھوں جس نے فروری 1989 میں دختر
مشرق بے نظیر اور شیر بلوچستان جناب اکبر بگٹی کے ھاتھوں افتتاح کی سعادت
حاصل کی البتہ یہ الگ بات 1986 میں55 کروڑ کی لاگت سے میری بنیاد رکھنے
والا ایک آمر تھا جو میری ولادت سے پہلے ہی خدا کو اتنا پیارا ھوگیا کہ
حضرت ادریس کی طرح وہ آسمان سے ہی اٹھائے گئے افسوس کے میری بد نصیبی،
بہرکیف 29سال کی اس لمبی عمر میں میں نے ھزاروں نشیب و فراز دیکھے،دنگا
فساد،اقربا پروری کے شاہکار کارنامے دیکھے دریں اثناء میں اپنے خون جگر سے
زیست کو ھزاروں رنگ بخشتا رہامگر، پسنی کا مرد بے ضمیر ھر روز میری بربادی
کا دیدار کرتے ھوئے بھی ہاتھ ہاتھ درے کسی وزیر کی خود مسیحائی کا محتاج ہے
نہ وزیر کو شرم نہ اس میں ضمیر۔۔۔۔حالانکہ مجھے آباد کرنے کیلئے وزیروں سے
پہلے زندہ ضمیروں کی ضرورت ہے۔
|