تمام ادارے منافع بخش اور قدرے ہموارسمتوں کا تعین کرتے
ہیں یہ ادارے اجتماعی سطح پر بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے مفادات
سے کوئی نا ٹکرائے اور کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نا کرے اسی طرح
اگر کوئی اپنی ہی نوعیت کا ادارہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے تو
پہلے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ معاملہ نجی سطح پر ہی حل کرکے ختم کردیا
جائے نا کہ اس کو منظر عام پر بطور تماشہ بننے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ یہ اس
بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اداروں کی سربراہی کرنے والے لوگ اداروں کے منتظمین
انتہائی منظم اور پختہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔ ملک کے چار ستونوں میں سے اب
تک صرف ایک ستون ایسا تھا جو اپنے آپ میں غیر متوازن تھا ۔ اس غیر متوازن
ستون کو ہم پارلیمنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن ہمارے دیگر تین ستون عدلیہ
، فوج اور صحافت مضبوط ستونوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مملکت کا
نظام و امور احسن طریقے سے چلتے دیکھائی دیتے رہے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ
معاشرہ کسی دریا کی مانند بہہ رہا ہے، کہیں کوئی رکتا ہی نہیں ، یہ ہوگیا
وہ ہوگیا اسنے یہ کہہ دیا اسنے یہ کردیا سب کچھ چلتے چلتے ہورہا ہے ۔ کوئی
حادثہ کوئی سانحہ اس دریا میں ظغیانی کا باعث بنتا ہے اور پھر یہ اپنے
معمول کے بہا وٗپر بہنے لگتا ہے۔
اکیسویں صدی میں صحافت مختلف اصناف میں تقسیم ہوچکی ہے جسکی ایک وجہ سوشل
میڈیا بھی بنا ہوا ہے ۔ چھپائی شدہ اخبارات آج بھی بڑے بڑے نامی گرامی
کتابوں کی دکانوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی طرح چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کھوکھے پر
بھی بکتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن آج کی ضرورت کے عین مطابق تقریباً اخبارات
تک رسائی بذریعہ انٹرنیٹ بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں صحافت کی
تقریباً ہر صنف نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ترقی کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ
دئیے ہیں۔ صحافت نے ترقی کرتی دنیا سے بھرپور ہم آہنگی نبہائی اور اپنے
بھرپور بین الاقوامی اثرورسوخ کی مدد سے عوام میں آگہی کی پرورش کا بیڑا
اٹھایا کہ پاکستانی عوام سیاسی طور پر بالغ ہوتی محسوس ہورہی ہے۔ یہ صحافتی
ترقی کاہی نتیجہ ہے کہ لوگوں میں بہت حد تک امور سلطنت میں دلچسپی بڑھتی ہی
چلی جا رہی ہے اور اپنے حقوق اور قانون کی کسی حد تک سمجھ بوجھ آنا شروع
ہوگئی ہے ۔ عوام جو کسی حد تک شعور کے زیور سے آراستہ ہوئی ہے درحقیقت اس
کا سہراصحافت کے ماتھے پر ہی سجے گا۔ اب بہت جلد اس بلوغت کا امتحان ہونے
والا ہے جو کہ آنے والے انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوجائیگا۔
ہم اور آپ اگر اپنے ذہن میں کسی بھی فرد کیلئے خود ساختہ تصویر بنالیں
،اسکے ذہن کی پیمائش بھی خود ہی طے کرکرلیں (یعنی وہ کیسا سوچتا ہوگا) اور
جس کو آپ نے اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہے اور خال و خد خود ہی بنائے ہیں تو
اس خام خیالی اور خود فہمی میں اس شخص کابتائیں کیا قصور ہے۔اب وہی شخص
حقیقتاً سامنے آجائے کی صورت میں کوئی بات نہیں آپ اپنا تصور حقیقت سے
تبدیل کرلیجئے۔ تبدیلی تو قدرتی طور پر ہوجائے تو ہوجائے ورنہ ہم جان بوجھ
کر بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب اختلاف رائے پر گردن اڑا دی جاتی تھیں ، آپ کے
خیال میں وہ وقت گزر گیا؟ جی نہیں ! آج اس عمل نے بھی ترقی کرلی ہے کیونکہ
اپنی زندگی سے بھی پیار ہوتا ہے اس لئے آج اختلاف کرنے والی گردن تو نہیں
ماری جاتی بس اسکی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں اور اسکے خلاف اپنے ہم خیال
لوگوں کو جمع کرلیا جاتا ہے اور باقاعدہ قلم و زبان سے بہت خوبصورتی سے
اسکی عصمت دری کی جانے لگتی ہے۔اسوقت کرائے کے قاتل میسر تھے (وہ آج بھی
دستیاب ہیں اور انہوں نے وردیاں پہن لی ہیں اور وہ اپنی مرضی سے اس کام کو
سرانجام دے رہے ہیں) ۔آج اس کام کوسرانجام دینے کیلئے سوشل میڈیا کے ساتھ
ساتھ ٹیلی میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ پارلمینٹ ریاست کا اہم ترین
ستون ہونے کے باوجود ہمیشہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے یہ
اپنی بالادستی آج تک قائم نہیں کرسکا ، پارلمینٹ کے عدم استحکام کی ایک اہم
ترین وجہ یہاں منتخب نمائندوں کے مابین ملکی سالمیت کے لئے مختلف سمتوں میں
کام کرنا ہے ۔ اب کچھ اس ہی طرح کا حال میڈیا کا بھی دیکھائی دے رہا ہے کہ
سب اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر صحافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آہستہ
آہستہ پاکستان انکے بنیادی منشور میں سے مٹتا جا رہا ہے ۔
بطور انسان صحافی بھی اس ہی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ، کسی کی طرفداری اور
کسی سے اختلاف انسان کی فطرت میں ہے ۔ یہ اختلاف اور حمایت بہت حد تک کسی
کے بھی ذاتی مفاد کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس ذاتی مفاد سے ماورا
فردمعاشرے کو اہمیت دیتے ہیں اور معاشرے کی یعنی اجتماعی بہتری کیلئے کچھ
کرنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ بہت
تکلیف سے لکھ رہا ہوں کہ آجکل صحافت کا حال لہروں کے سپرد کی جانے والی
ناؤکی جیسے ہے ۔یہی ایک وجہ صحافت اور صحافی پر ہونے والی دہشت گردی کی وجہ
بھی ہوسکتی ہے۔ شائد سچ اور جھوٹ کی تشہیر میں مفاد کو خاطر میں رکھا جانے
لگا ہے ۔کاندھے پر بستہ لٹکائے سادہ سا لباس پہنے آپ جناب کرتی روائتی
صحافت کا ضابطہ اخلاق تھا اور ابھی بھی ہے مگر روائتی صحافت صاحب فراش ہے۔
صحافت نے بھی جدید ملبوس کرلی ہے قلم و قرطاس سے بات بہت آگے نکل گئی ہے ،
موبائل فون کے ذرئیعے ہی سارا کام سرانجام دیا جاسکتا ہے اور دیا جاتا بھی
ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت سے حتمی دن تاریخ معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ صحافت نے جب
ترقی کے رن وے پر قدم رکھاتو ضابطہ اخلاق ترتیب دینا بھول گیا ، ویسے بھی
اونچی اڑان والوں کو کسی ضابطے اخلاق سے کیا لینا دینا، اور پھر ایسی اڑان
پکڑی کے ضابطے خوفزدہ سے دیکھائی دینے لگے۔ اخبارات و رسائل سے بات نکل گئی
، بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز بننے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں میڈیا نے
اپنی جگہ ہی نہیں بنائی بلکہ ریاست کے چھوتے ستون کی ذمہ داری سنبھال لی
۔اب خود ساختہ تصویریں تصور کی جانے لگیں اور حقیقت منظر عام پر آنے پر
اپنا سمجھایا ہوا جھٹلائے جانے لگا۔ اب انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اب
یہ آسمان کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں وہاں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے تحفظ
کیلئے اپنی اخلاقی اقدار کی پاسداری کیلئے سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنے
کیلئے سارے میڈیا ہاؤسز بشمول چھوٹے بڑے سب اور خدا کیلئے اپنے بنیادی
صحافتی منشور کوہمیشہ یاد رکھیں اور وہ یہ کہ صحافت ، صحیفوں سے نکلی ہے
اور وہ صحیفے جو قدرت نے اپنے پاکیزہ بندوں کو انکی رہنمائی اور دنیا کی
رہنمائی کیلئے اتارے ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب طرفین کی صحافت
کو ترک کردیا جائے۔ |