ہمارے معاشرے کے کسی بھی شعبے سے متعلق سنگین خرابیوں کی
وجوہات نمایاں ہونے کے باوجود توجہ دلانے پر بھی توجہ نہیں دی جاتی لیکن جب
اس کے سنگین نتائج درپیش ہوتے ہیں تو بھی ہم ''برا بھلا'' کہنے،کوسنے اور
صلواتیں سنانے تک ہی محدود رہتے ہیں۔بہتری کا عمل نہ ہمارا مقصد ہوتا ہے نہ
ہی متمع نظر۔بس ایک موضوع بنا ہوا ہے اس پر بات کر لی جائے کیونکہ چند ہی
دنوں میںکوئی اور ایسا موضوع سامنے آ جائے گا کہ جو تمام موضوعات کو پس پشت
ڈالتے ہوئے چند دنوں تک اپنی دھوم مچائے رکھے گا۔
گزشتہ دنوں ایک پاکستانی اینکر کے حوالے سے پاکستان میں صحافت کی صورتحال
پر کڑی تنقید سامنے آئی۔خود صحافتی حلقے بھی صحافت کی ''طوائیفیت'' سے
نالاںنظر آئے۔اسی تناظر میں وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ '' جب تک چینلز میں
پیشہ ورانہ خود مختاری برتنے والے تجربہ کار ایڈیٹرز اور نیوز ایڈیٹرز نہیں
لائے جائیں گے کہ جنہیں میرٹ پر بھرتی کا مکمل اختیار ہو۔ اس ایڈیٹر کی
پیشہ ورانہ رائے کو چینل میں پیسہ لگانے والا سیٹھ بھی تسلیم کرے اور ہر
فیصلے میں اپنی عقل لگانے یا نافذ کرنے سے باز رہے۔جب تک پروڈیوسر فائیو
سٹار اینکرز کا چپراسی بنا رہے گا، فرشتے بھی ضابطہِ اخلاق بنا لیں تو بھی
کچھ نہ ہونے کا۔ بھلے کیسی ہی پابندیاں لگا لیں، کتنی سماعتیں کر لیں۔
مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر پرنالہ سیدھا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تب
تک اینکر نشریاتی را ئوانوار بنا رہے گا۔''
ملک میں آئین و قانون کے بجائے ''احکامات'' کی بجا آوری کے ماحول میںہٹ
دھرمی ،جہالت اورمفاداتی بالادستی' دستور زمانہ' کے طور پر ہمارے معاشرے
میں قبول و مقبول ہے۔میڈیا کے دائرہ کار اور دائرہ اثر میں اضافے کی وجہ سے
منفی رجحانات کے فروغ کے لئے میڈیا کا ایسا استعمال نمایاں ہے جو عقل و
علمیت کو جہالت کے ذریعے شکست فاش سے دوچار کرتا ہے۔اب تو معاشرہ عمومی طور
پرجھوٹے، فریبی اور بے شرم کو ہی قبولیت کا درجہ دیتا ہے جبکہ علم و سچائی
کی ساکھ ہمارے معاشرے میں ایسے قیمتی سکے ہیں جو رائج الوقت نہیں ہیں،متروک
ہو چکے ہیں۔جب صحافت کلی طور پر تجارت بن جائے تو اس سے اخلاقی تقاضے غیر
مناسب بات ہے کہ ''جو بکتا ہے وہی بنایا جاتا ہے''۔جب معاشرے میں منفی طور
طریقے مستحکم طور پر حاوی ہوںتو اہداف کا حصول ہی مقدم قرار پاتا ہے،صحیح
یا غلط کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان بھی میڈیا کے منفی رجحانات کے
ناقد چلے آ رہے ہیں۔گزشتہ دنوں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک اخبارکی
تقریب سے خطاب میں وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اب میڈیا کے شر سے بچنے کے
لئے اس کی'' عزت'' کرنا پڑتی ہے۔یعنی اب میڈیا بھی ان ملکی اداروں کی صف
میں شامل ہو چکا ہے جو اپنے کردار سے قطع نظر، خود کو '' مقدس'' قرار دینے
کی ایسی تادیبی یا غیر تادیبی کاروائی کی دھمکی رکھتے ہیں جس پر آسانی سے
عمل بھی ہو جاتا ہے۔ایک نئے بیان میں انہوں نے صحافیوں کی خبر کے معیاراور
ساکھ پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں۔
ملک کے تمام منفی رجحانات کے چلن کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ علمیت کو
جہالت پر فوقیت حاصل ہے۔ہر انسان کی بات کی اپنی ساکھ ہوتی ہے،گمنام یا غیر
معتبر افراد کی بات پہ تو ہر گز یقین نہیں کرنا چاہئے ،چاہے وہ زبانی کہے
یا تحریری۔اس لئے بولتے اور لکھتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اس سے آپ کی
ایک ساکھ بن رہی ہے جو آپ کو معتبر یا غیر معتبر قرار دے سکتی ہے۔یہ اصول
صحافیوں ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کے کردار کے حوالے سے بھی اہم ہے۔عمومی
طور پر ہمارے سیاستدان جو کہتے ہیں،وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں اس کا
شائبہ بھی نہیں ہونے دیتے۔ملک میں جس تجارتی،مفاداتی صحافت کو فروغ دیا جا
رہا ہے، اس کے پیش نظر صحافت کو سیاست اور دوسرے بدنام شعبوں کی طرح بدترین
تنقید کا نشانہ بننے کا حوصلہ رکھنا چاہئے۔ملک میں صحافت کو تاجرانہ ،مفاد
پرستی کے رجحان میں محدود رکھنے کی مذمت اور مخالفت ناگزیر ہے کہ اگر ہم
ملک میںصحافت کو'' صحافت رفتہ''بنائے جانے کے عمل کو روکے جانے کے متمنی
ہیں۔ |