دوستی سے زیادہ - قسط نمبر ٤

دوسری طرف زرنش کو منع کرنے کے بعدجب وہ روم میں آئی اور تو لیٹ کر بیتے لمحوں کو سوچنے لگی وہ جب اپنے ابو کی فیملی سے ملنے جاتی تو وہاں کیسے سب کزن اس کو بلانے آتے کھیلنے کے لیے مگر ایک دو بار کے علاوہ وہ کبھی کھیلنے نہیں گئی، ایک تو اسے کھیلنا نہیں آتا تھا اور دوسرا وہ اس کے ہارنے پر مذاق بناتے اسے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ایک بات جو اسے ھمیشہ تجسس میں مبتلا رکھتی وہ زرنش تھی، اس کے کزنز اسے نہیں کھیلاتے اپنے ساتھ تو وہ لڑتی ان کے پاس بار بار جاتی وہ اسے کئی بار دھکا بھی دے دیتے مگر وہ پھر بھی جاتی، وہ بس اسے اور اس کی حرکتیں دیکھتی ، بلکل یہی چیز اس نے زرنش کی امی میں بھی دیکھی وہ بھی اس کی بڑی تائی اور پھپھو کے ساتھ لڑتیں کبھی اس بات پر تو کبھی کسی اور بات پر ، اسے لڑنا پسند بھی نہیں تھانہ ہی لڑنے والے ، وہ تو بچی تھی سب کو بس لڑتے دیکھتی وہ اپنے ابو کے ساتھ ہی زیادہ تر یہاں آئی تھی ، اس کی امی اور رفیق بہت کم آتے ، رفیق کی اکٹیوٹیز ہی بہت تھی کہ اسے وقت نہیں ملتا ، اس لیے اس کے ابو اسے یہاں لے آتے، زرنش اسے ھمیشہ ہی اچھی لگتی مگر اس کی لڑنے کی عادت کو لے کر وہ دور رہتی اس سے پھر ایک دن دیکھا کہ اس کے گھٹنے پر چوٹ لگی ہے تو وہ بھاگ کر اس کی امی کو لے آئی اس دن کے بعد زرنش خود آئی اس کے پاس کھیلنے کے لیے اس نے منع بھی کیا مگر پھر زرنش کا اچھا رویہ دیکھ کر کھیلنے لگی ، اگلی بار جب وہ زرنش کا کھیلنے کے لیے ویٹ کر رہی تھی تو سونیا اس کے پاس آئی ، پہلے حیران ہوئی پھر وہ اسے اپنے کھلونے دیکھانے لگی اس سے کہا کہ زرنش کے ساتھ ہم اس لیے نہیں کھیلتے وہ لڑتی ہے اور ہمارے کھلونے بھی توڑ دیتی ہے، ابھی وہ یہ بات کر رہے تھے کہ زرنش آئی اور اس نے سونیا کا کھیلونا توڑ دیا اسے بہت برا لگا یہ سب دیکھ کر اور وہ چلی گئی وہاں سے اگلی بار وہ نہیں گئی حیدرآباد اس سے کئی مہینے بعد گئی مگر اس بار زرنش سے بات نہیں کی وہ اسے بلانے آئی تھی مگر اس نے منع کر دیا اور اسے بھی حیرت ہوئی کہ زرنش اس سے نہیں لڑی بھی نہیں۔
کچھ باتوں کا علم اسے بہت بعد میں ہوا کہ اس کے احمد چاچو نے اپنی کولیگ سے شادی کی تھی پسند کی اور یہ بات
وہاں کے مکینوں کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ کیونکہ سب کی شادی رشتہ داروں میں ہوئی تھی اس کی امی بھی ابو کی دور کی رشتہ دار ہی تھی مگر ابو نے چونکہ کراچی میں ہی ایم بی بی ایس کیا تھا اور انھیں کراچی ہی پسند تھا تو شادی کے بعد یہی گھر لے لیا اپنا حصہ اپنی ہی بہن کو بیچ کر ، اس کے چاچو بھی کراچی میں اکثر آیا کرتے تھے اور جاب کے دوران بھی ان کے پاس ہی رکتے ، پھر ان کی شادی ہوگئی وہ حیدرآباد چلے گئے، اسے ویسے ہی اپنے کسی رشتہ دار سے لگاو نہیں تھا مگر اسے اپنے چاچو بہتر لگتے تھے، پھر حیدرآباد کے قصے بھی امی کے منہ سے سنے؛ کے آئے دن جھگڑے ہوتے ہیں زرنش کی امی بھی کوئی کمزور خاتون نہیں تھیں وہ بھی اگلے کی بات کا اچھا خاصہ جواب دیتیں مگر پھر ان کا انتقال بھی جلدی ہوگیا وہ کالج میں تھی جب خبر ملی کہ اس کی چاچی کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا ہے ، جب وہ میت پر گئی تو اس نے زرنش کو خاموش ہی پایا، پھر وہ جتنے دن وہاں رہی وہ خاموش ہی رہتی۔ بھر یہاں شفٹ ہونے کے بعد ان کی الگ نوک جھوک شروع ہوگئی، رافعہ بھی اس کی بات پر خوب ریکٹ کرتی کہ وہ پہلے جیسی ہو رہی ہے مگر وہ اب بھی کافی چینج ہو گئی تھی ، سب کی بات سن لیتی کسی سے بحث نہیں کرتی ، وہ اسے پہلے کی طرح دیکھنا چاہتی ہے ۔ آج بھی یہی ہوا وہ چپ چاپ چلی گئی، کچھ نہیں کہا۔ ہاں ٹھیک ہے بندہ وقت کے ساتھ چینج ہوتا ہے مگر بہادری تو نہیں کھو دیتا۔ مگر اس نے ایسے ہی منع نہیں کیا ،وجہ بھی تھی اسے وہ کچھ دنوں سے پریشان لگ رہی تھی اور وہ کیوں ٹنس تھی اسے پتہ تھا۔ مگر ابھی اس نے زرنش سے کچھ نہیں کہا۔ وقت پر ڈال دیا۔
پیر شب دس بج کر بیس منٹ:
زرنش کالنگ:
آنٹی مجھے ھیلپ چاہیے۔
ہاں بولو زرنش کیا ہوا۔ نصرت نے کال اٹینڈ کرتے ہو کہا
آنٹی میں اپنی پروجیکٹ رپورٹ گھر بھول گئی ہوں میری ابھی کلاس پریزنٹیشن ہے اس کے بھی مارکس ہیں ورنہ میں گھر آجاتی ۔ ابو کو بھت ٹائم لگ جائے گا آنے میں، تو
کونسی فائل ہے اور کہاں پڑی ہے؟
آنٹی میرے روم میں سامنے ٹیبل پر ہی ہو گی۔
تم ویٹ کرو میں لے کر آتی ہو۔
یہ کہتے ساتھ ہی وہ اوپری منزل میں آئی کیز ان کے پاس ہی ہوتی ، زرنش کے روم میں فائل بھی انھیں سامنے ہی نظر آگئی، لیتے ہو ئے نیچے آئی
پرس اور چابی اٹھائی ، دروازہ لاک کر کے باہر نکل، مین ڈور پر لاک لگایا، اچھا ہوا آٹو انھیں باہر نکلتے ہی مل گیا اور پہنچ گئی زرنش کے یونیورسٹی۔
زرنش انھیں یونیورسٹی کے باہر ہی مل گئی اپنی کسی دوست کے ساتھ تھی شاید
آنٹی ٓپ آگئیں۔۔۔ thank you soo much
کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔ چلو تم جاؤ کلاس سٹارٹ ہو گئی ہوگی۔
اچھا آنٹی آپ آٹو لر جائیں گی نہ میں رکواتی ہوں ۔
نہیں بیٹا تم جاو میں لے لو گی۔
اچھا آنٹی خدا حاف٭۔۔۔
وہ یہ کہتے ہی چل دی۔ ابھی چار قدم ہی اٹھائیں ہو گے ، پیچھے سے لوگوں کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ پلٹ کر دیکھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tooba
About the Author: Tooba Read More Articles by Tooba: 14 Articles with 14586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.