اپنے مفادات سب لوگوں کو عزیز تر ہیں،تب ہی اگر کہیں کوئی
اپنے حق کی جستجو کر رہا ہو تو کم ہی لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،کچھ
اپنے مفادات پر اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ وہ خود پر سکون رہ
سکیں،چاہے اس کی وجہ سے کتنے ہی لوگ بے آرامی اور پریشانی کا شکار رہیں۔
ہم اپنے گریبان میں جھانکنا ہی پسند نہیں کرتے ہیں کہ ہم کس قدر غلط کام
سرانجام دیتے ہیں مگر دوسروں کے دامن کو داغدار ہوتا دیکھ کر زیادہ مچاتے
ہیں کہ وہ بدکردار ہے
ایمانداری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے مفادات کے لئے ہی دیانتدار
رہیں آپ کو دوسروں کے لئے بھی قول وفعل کے مطابق ایماندار ہونا چاہیے۔
کامیاب ہونے کے لئے شرط ہے کہ پہلا قدم اُٹھالیا جائے اور پھر منزل تک
پہنچنے سے قبل سستی کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا جائے تو آپ کامیابی حاصل کر
سکتے ہیں۔
زندگی کے کسی ایک دکھ،ناکامی اورغلطی کو پوری زندگی پر پھیلا دینا اور اسی
میں قید ہو جانا بے وقوفی ہے، دنیا بہت وسیع ہے لہذا ان لمحات کو سر پر
سوار نہ کریں بلکہ ماضی کا تجربہ سمجھتے ہوئے آئندہ کی زندگی کو خوشگوار
گذارنے کی کوشش کریں۔
بس نہیں چلتا ورنہ یہ بھی کر دوں،وہ بھی کر دوں؟؟؟ آخر ہم کسی کے لئے اپنی
استطاعت کے مطابق ہی کچھ کیوں نہیں کرنے کا سوچتے ہیں،ہم جب حد سے زیادہ
کسی کو عطا کرتے ہیں اور وہ ہمیں اس کے برخلاف کچھ تکلیف دیتا ہے تو پھر
ہمیں اُس پر کئے احسانات آنا شروع ہو جاتے ہیں،اس لئے میرے خیال میں ایک حد
میں ہی رہ کر کسی کو کچھ دینا چایہے،مگر کوشش یہ ہو کہ آپ کا ضمیر مطمن ہو
جائے ،دوسروں کے مطابق آپ کبھی بھی جتنا بھی کر دیں وہ مطمن نہیں ہونگے۔
دوسروں پر انگلی اٹھانے کا مقصد انکی ذلیل کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اصلاح
کی جانب توجہ دلوانا بھی ہو سکتا ہے تاکہ وہ اپنی غلطیاں اور رویے درست کر
سکیں۔
کم حوصلہ لوگوں سے زیادہ میل جول آپ کے حوصلے بھی پست کر دیتا ہے۔
محض اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دوسروں کے ذاتی معاملات کو سامنے لے آنا
آج کے دور میں صحافیوں کا من پسند مشغلہ بنا ہوا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا ہے
کہ خبر سے کتنے لوگوں کی زندگیوں میں بحران آجائے گا، کتنے منہ چھپاتے
پھریں گے، سچی خبر سے قطع نظر سب کو آگاہی فراہم کرنے کا شوق ہے پر اس
حوالے سے اخلاقیات کے تقاضوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔اس حوالےسے احیتاط
کرنی چاہیے تاکہ بعدازں شرمساری سے بچا جا سکے۔
کوئی مجرم خود ہی کم بنتا ہے اکثر حق تلفی پر ہی ہتھیار اُٹھایا جاتا ہے
تاکہ حقوق غصب کرنے والوں سے انتقام لیا جا سکے۔کہیں کہیں جذبات کو ابھار
کر بھی جرائم کی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔
ظلم ہوتے دیکھ کر بھی روکنے کی کوشش نہ کرنا آپ کو بھی ظالم ظاہر کرتا ہے۔
جب تک اپنی ذات پر پورا بھروسہ کر نا شروع نہیں کریں گے تب تک آپ
خوداعتمادی سے اپنے کام سرانجام نہیں دیں سکیں گے،آپ کو سہارے کی ضرورت
ہمیشہ رہے گی۔
دوسروں کو اپنا کبھی بھی مکمل ہمدرد نہ سمجھیں آپ کےلئے آپ کی اپنی ذات اور
رب سے بڑھ کر اور کوئی بھی خیر خواہ نہیں ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے غلط کرنے والوں کو سزا بروقت دینے کا رواج نہیں ہے
اسی وجہ سے ایک کے بعد ایک واقعہ ہو جاتا ہے اور سب اپنی انگلی دانتوں میں
دبا لیتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔دوچار دن شور شرابہ ہوتا ہے پھر سب چین
کی نیند سو جاتے ہیں پھر تب جاگتے ہیں جب کوئی اور سانحہ رونما ہو جاتا ہے
مگر بدقسمتی سے بدکرداروں کو بچانے والے کہیں نہ کہیں سے بچا ہی لیتے ہیں
اور یوں پھر کوئی اور شہ پاکر کچھ بدترین کر لیتا ہے۔اگر ہمارے ہاں ایسا ہو
جائے کہ مجرم کو کڑی سزا مل جائے اور فوری تمام انصاف کے تقاضوں کو پورا کر
کے دی جائے تو تبدیلی کی لہر چل سکتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی مانند
یہاں بھی قانون کی حکمرانی ہو سکتی ہے مگر تب تک جب تک یہ خواب حقیقت کا
روپ نہیں دھار سکتا ہے۔ہمیں جرائم کرنے والوں کو برداشت کرنا ہوگا۔
اگر آپ دوسروں کی بیٹی کی عزت کے محافظ نہیں بن سکتے ہیں تو سوچ لیجئے کہ
کوئی دوسرا بھی آپ کے لئے یہ فریضہ سرانجام نہیں دے گا۔
وہ بھی کسی کی زینب ہی ہے جس کو محبت کے نام پر لوٹا جاتا ہے۔محبت کے نام
پر محبت کو داغدار کرنے والے بھی سزا کے حقدار ہیں۔محبت کے نام پر جذبات سے
کھیلنے والے بھی، محبت کو بدنام کرنے والے بھی مجرم ہیں۔
اگر آپ ناکامی سے ڈرتے ہیں تو پھر آپ کامیابی کا مزا بھی کبھی نہیں چکھ
سکتے ہیںِ
محبت عزت سے بڑھ کر نہیں ہے مگر جہاں عزت کے ساتھ محبت نہ دی جائے تو ایسی
محبت بھی کسی کام کی نہیں ہے۔
تبدیلی کا دعوی تو ہر کوئی کر جاتا ہے مگر جب تک ہم خود کو نہ بدلنا چاہیں
کوئی بھی نہیں تبدیلی لا سکتا ہے۔
کردار عمل سے ظاہر ہوتا ہے، باتیں تو سب ہی اچھائی کی کرلیتے ہیں۔
سچے جذبوں کی بنیاد پر بننے والے تعلق کچھ بھی ہو جائے اپنی جگہ پر قائم
رہتے ہیں۔
اصلی خوشی دوسروں کی آنکھوں میں آنے والے آنسو ختم کر کے مسکراہٹ عطا کرنے
پر ہی حاصل ہوتی ہے۔
محبوب کی تکلیف اتنا درد دیتی ہے،جتنا وہ محسوس کر رہا ہوتا ہے۔
کولہو کے بیل کی مانند ہم زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں مگر سوچ بدل کر
اورجداگانہ زندگی گذارنے سے ہم ڈرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟؟؟
سچی محبت فنا نہیں ہوتی ہے۔
دوست بنانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ ہی اس پر چھوڑ دیں، اپنے
سب معاملات اس سے ہی بیان کریں، دوست آپ کو اگر درست راہ پر چلنے اورمشکلات
میں ساتھ نہ دے بلکہ آپ کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہو تو اس سے جان چھڑوا
لینی چاہیے اور ایسے افراد سے بھی دور رہنا چاہیے جو کہ اندر اور باہر سے
مختلف ثابت ہو جائیں۔دوست کو دشمتی کا موقعہ بھی ملے تو بھی وہ کچھ نہ کر
پائے آپ کو اس طرح سے تعلق رکھنا چاہیے۔
اگر آپ محبت میں درد سہنا نہیں چاہتے ہیں تو الفت کے اظہار میں بھی جلدی نہ
کریں۔
ہارنے کے بعد ہی جیت کا مزہ زیادہ آتا ہے، ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوتی
ہیں، کامیابی کے حصول کے لئے ان کو ختم کر کے اپنے اندر خامی کو دور کرنےسے
ہی کامیابی اور جیت ملتی ہے۔
اپنے اندر سے “میں“ ختم ہو جائے تو انسان کی قدروقمیت زیادہ ہو جایا کرتی
ہے۔
ہمارے ملک کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ابھی تک آپس
کے اختلافات اور ذاتی مفادات میں لگے ہوئے ہیں ؟کسی کو ملک کی عزت ونیک
نامی اور سلامتی سے کوئی غرض نہیں ہے چاہے امریکہ بہادر ہمارے بے گناہ
لوگوں کو ایسے ہی روز مارتا رہے ہمیں کوئی پروا نہیں ہے۔ہم سپرپاور کو کیا
روئیں ہمارے اپنے ملک کے حفاظتی ادارے بھی کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں،
آج سے مثبت اور اچھی سوچ اپنائیں قران کریم کا مطالعہ روز کیجے۔ جو ماضی
میں ہوچکا اس کو بھول جائیں اور کل کے لئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی
تیاری شروع کیجے۔ روزمرہ کے معاملات میں بھی کھلے دماغ اور سوچ وبچار کے
ساتھ فیصلے کیجئے اور پھر دیکھیں اپ کی زندگی میں کیا انقلاب آتا ہے۔
دوسروں نے یہ کر دیا، وہ کر دیا، آخر ہم نے ان کو ایسا موقعہ ہی کیوں دیا
کہ وہ کچھ ایسا ویسا ہمارے ساتتھ کریں، جب ہماری غلطی ہے تو پھر انکے کئے
پر سزا ہم کیوں بھگتیں؟؟؟
صبر کا پھل میٹھا ملتا ہے مگر انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔تب ہی وہ بے صبری
میں سب کئے پر پانی پھیر لیتا ہے۔
بچوں کو والدین اگر سب کچھ خود ہی فراہم کر دیں اور کسی بھی رشتے دار سے
کچھ بھی کسی بھی صورت میں لینے سے باز رکھنے کی عادت بنوا دیں تو بہت حد تک
وہ غیروں کی باتوں میں آکر انکے ساتھ چل کر کہیں جاتے ہیں ، جو کہ ان کو ہر
طرح کے شر سے محفوظ رکھ سکتا ہے،کم سے کم محلے داروں کو اتنا تو کرنا چاہیے
کہ بچوں کو مشتبہ یا ان دیکھا ہونے کی صورت میں متعلقہ فر دسے پوچھ گچھ
کریں یا بچے سے معلومات لیں تو جو آج کل ایک رحجان چل پڑا ہے جہاں بچوں سے
ذیادتی ہو رہی ہے تو کم سے کم نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔مگر جہاں سب کو اپنی
پڑی ہو وہاں بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟؟
کڑوے حقائق سے آگاہ کرنا ایک اچھے دوست کی نشانی ہوتی ہے، جو آپ کا خیرخواہ
ہوگا وہ آپ کو تصویر کے دونوں رخ دکھانے کی کوشش کرے گا۔
جب آپ کو کسی کام کا شوق ہو تو آپ کا جذبہ کبھی بھی کسی بھی من پسند سرگرمی
سے اکتاتا نہیں ہے اورہمیشہ تازہ دم آپ رہتے ہیں۔
|