از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
ہم آدھا دین تو میڈیا سے لے رہے ہیں نا! میڈیا جو رات کو کہتا ہے؛ لوگ صبح
وہی کہہ رہے ہوتے ہیں۔جو کلچر وہ متعارف کرا رہا ہے اسے ہی ہم اپنا علاقائی
کلچر قرار دے دیتے ہیں…… اب یہ ویلن ٹائین ڈے کے نام سے جو بے حیائی کے
فروغ کا عالمی منصوبہ ہے؛ ہمارے ملک کے اندر کہتے ہیں کہ پھول نہیں ملتے اس
دن۔ اﷲ اکبر!
کوئی کسی لڑکی کو پھول دے رہا ہے تو وہ یہ سوچے کہ اگر کوئی یہ پھول اس کی
بہن کو دے تو پھر اس کا مزاج کیا ہوگا؟ ایک شخص حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم ! مَیں
ایمان لاتا ہوں؛ لیکن مجھ میں زنا کی عادت ہے اور مَیں اس کو نہیں چھوڑ
سکتا۔ تو آقا کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس سے فرمایا کیا تو یہ پسند
کرتا ہے کہ تیری ماں کے ساتھ ایسا ماجرا ہو؟ اس نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول!
مَیں کیسے پسند کر سکتا ہوں۔ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی
بھی پسند نہیں کرتا۔ پھر فرمایا کہ تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تیری
ہمشیرہ کے ساتھ یہ معاملہ ہو؟ اس نے کہا یہ تو مَیں کبھی پسند نہیں کرتا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر کوئی بھی اپنی ہم شیرہ کے ساتھ
ایسا ماجرا پسند نہیں کرتا۔پھر حضور نے بیٹی کے بارے میں کہا، بیوی کے بارے
میں کہا تو اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! میں سچی توبہ کرتا ہوں ۔
تو انسان جب جذبات سے مغلوب ہوتا ہے اور سوچتا ہے؛ بالخصوص نوجوان کہتا ہے
کہ یہ خوامخوہ منبر و محراب کی طرف سے پابندیاں لگی ہیں؛ زندگی کو Enjoy
کرنا چاہیے۔ یہ ہمیں کیوں مشقتوں میں ڈال رہے ہیں؟…… حضورصلی اﷲ علیہ وسلم
نے کتنی حکمت کے ساتھ اس بات کو سمجھایا۔ تو اِدھر سوچنا چاہیے کہ یہ ماجرا
اِدھر بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جب حیا باختہ معاشرہ ہوجائے تو پھر وہ اس کو بھی
قبول کرلیتا ہے۔ اذا فاتک الحیاء فصنع ما شئت ۔ (عربی مقولہ)جب حیانہ رہے
تو بندہ کہتا ہے ٹھیک ہے مَیں بھی اس کو قبول کرتا ہوں۔ ایسے بھی معاشرے
ترتیب پارگئے ہیں دنیا میں۔
ہمارا معاشرہ حیا کا معاشرہ ہے۔ اگر آپ مجھ سے اسلام کا دوسرا نام پوچھیں ؛
اسلام کا دوسرا نام کیا ہے؟ تو اسلام کا دوسرا نام ـ’’دینِ حیا‘‘ ہے۔ ہر
دین کی ایک شناخت ہوتی ہے۔ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے۔ اسلام کی پہچان ’’حیا‘‘
ہے۔ اور حیا ختم ہوجائے تو پھر کچھ نہیں بچتا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مدینے کے بازار سے گزر رہے تھے اور ایک شخص اپنے
بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا۔ حضور نے فرمایا دعہ فان الحیاء
من الایمان حضور نے فرمایا چھوڑ دے اس کو، وعظ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ حیا
تو ویسے ہی ایمان سے ہے۔ جب ایمان ہوگا تو حیا خود بخود ہوگی۔ اور جب حیا
نہیں ہے، حیا چھِن گئی ہے تو پھر سمجھو کہ ایمان کی کمزوری آگئی ہے۔ لازمۂ
ایمان ہے حیا۔ جب ایمان ہوگا تو اس کا نتیجہ حیا کی صورت میں ضرور برآمد
ہوگا۔ اپنے ایمان کو پرکھنا ہو کہ میرے اندر ایمان کا لیول کیا ہے؟ تو آپ
دیکھ لیں کہ میرے اندر حیا کیا ہے؟ حیا ہی دین ہے۔ اسلام کا دوسرا نام حیا
ہے۔ اسلام کی شناخت حیا ہے۔
تو اس لیے اس طرح کی جو خرافات ہیں ان کا ہمیں بائیکاٹ بھی کرنا چاہیے اور
اپنے رویّے سے اور اپنے انداز سے اس کے خلاف عملی جہاد اور کوشش بھی کرنی
چاہیے۔بلکہ آپ کسی کو پھول ویسے بھی دینا چاہتے ہیں تو اس دن ویسے بھی گریز
کریں۔ علما فرماتے ہیں کہ یومِ نوروز اور یومِ مہرجان کو روزہ رکھنا منع ہے۔
حالاں کہ روزہ تو کسی بھی دن رکھا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ پارسیوں کی عید کے دن
ہیں ۔ تو کہیں مشابہت نہ ہوجائے ؛ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کی عید کی تعظیم
کے لیے یہ روزہ رکھا گیا ہے۔ تو اس دن نہ رکھو۔
اسی طرح ہولی بیساکھی ؛ان دنوں کے اندر خاص طور پر جلیبیاں وغیرہ لیتے ہیں
ہمارے یہاں پنجاب میں کلچر ہے ؛ علما اس کے ضمن میں کہتے ہیں کہ اس دن گریز
کر لیں ۔ اس لیے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ بیساکھی کی جلیبی ہے۔ تو اگر آپ
کسی کو ویسے بھی محبت سے پھول دینا چاہتے ہیں؛ پھول دینا منع نہیں ہے لیکن
اس دن (ویلن ٹائن ڈے)کم از کم گریز کرنا چاہیے تاکہ اس کو سپورٹ نہ ہو۔
ہمیں اپنے عمل سے، اپنی کوشش سے، اپنی جد و جہد سے، پوری قوت کے ساتھ ان
خرافات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اسلام حیا کا دین ہے۔ ہم اپنی نسلوں کو بچپن
سے حیا سکھائیں اور ان کی گٹھی کے اندریہ بات رکھیں اوریہی کسی قوم کے مہذب
ہونے کی دلیل ہے۔ کپڑے اتار کے پھینک دینا اگر مہذب ہونا ہوتا تو جاہلیت کے
زمانے میں لوگ کپڑے اتار کے کعبۃ اﷲ کا طواف کرتے تھے۔ دنیا کی ترقی تو اس
وقت نہیں ہوئی تھی نا!…… اب تو تھوڑے بہت کپڑے لوگ پھر بھی پہنتے ہیں۔ اس
قت تو یہ بھی اتار دیتے تھے۔ لیکن تہذیب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو
لباس دیا ہے اور لباس کی تین ضرورتیں ہیں : سردی گرمی سے بچانا ، دوسری
بات؛ انسان کے پردے کی حفاظت کرنا ۔ اور تیسری بات؛ انسان کو زینت دینا ۔
یکم فروری ۲۰۱۸ء(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب) |