(۲۰۱۸ء۔۰۱۔۲۹، پیر وار، ۱۰:۱۱ پی ایم)
’ایڈیپس ریکس‘ یونانی ادب کا ایک شاہکار ڈرامہ ہے اس کا تخلیق کار
سوفوکلیزSophoclesدنیائے ادب میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے۔ یہ وہ ڈرامہ ہے جس
کی تعریف ارسطو جیسے نابغہء روزگار نقاد نے بھی کی ہے۔اور اس کے ہر ہر پہلو
کو اپنی طرف سے تکمیلِ فن کی سند سے بھی نوازا ہے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ
یہ ڈرامہ اپنے اندر ایسا طلسماتی اثر رکھتا ہے کہ قاری کی اسے شروع کرنے کی
دیر ہوتی ہے پھر قاری اپنے آپ کو کسی ماورائی طاقت کے حصار میں پاتا ہے۔ وہ
اپنے آپ کو یہاں نہیں بلکہ وہاں فِیل کرتا ہے جہاں یہ ڈرامہ چل رہا ہوتا ہے۔
آرٹ کی تکمیل شاید ایک وہم ہے، جو کسی کو ہو سکتا ہے اور کسی کو نہیں۔ ہم
نے اس ڈرامے کے پلاٹ اور باقی پہلوؤں میں سے کچھ قابلِ اعتراض نکات سامنے
لانے کی کوشش کی ہے۔ جو قاری اس ڈرامے سے واقف ہیں وہ اس تحریر سے بہتر طور
پر استفادہ کر سکیں گے۔ اور جو اس سے واقف نہیں ہیں ہمارا استدلال شاید
انہیں بھی کنونس کر سکے کہ جو بات ہم کر رہے ہیں قابلِ ستائش ہے۔
پلاٹ کی بنت سراپا چانس یا تقدیر پر مبنی
۱۔ سب سے پہلی حرکت جو ڈرامے میں وقوع پذیر ہوئی اس کی بنیاد چانس ہے کہ
ایک شرابی شخص ایڈیپسOedipus سے کہتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا بیٹا نہیں
ہے۔ وہ شخص کون تھا، کہاں سے آیا تھا اس کو ایڈیپس کے متعلق کہاں سے پتہ
چلا، اس کا ذکر پورے ڈرامے میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ میسنجرmessenger بھی اس
کے متعلق کچھ نہیں بتاتا۔ لیکن ایڈیپس ریکس کے ڈرامے کو پہلی حرکت دے کر
غائب ہو گیا۔ یہ ایک اتفاق اور چانس پر مبنی بات ہے۔
۲۔ ڈیلفی Delphiکی طرف سے ایڈیپس کے سوال کا جواب ملنے کی بجائے اسے یہ
بتایا جانا کہ وہ اپنے باپ کو قتل کرے گا اور اپنی ماں سے شادی کرے گا ۔ یہ
بات صرف اور صرف اتفاق یا تقدیرپر مبنی ہے کیوں کہ یہ جواب کسی کردار نے
اپنی دانش یا پلاننگ سے تیار نہیں کیا ، خاص طور پر ایڈیپس کے لئے تو یہ
سراپا چانس ہی ہے جسے تقدیر کا ایجنٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔
۳۔ ایڈیپس ،اپنی مصیبت کا مارا اور ڈیلفی کا ڈرایا کورنتھCorinth جانے کی
بجائے تھیبزThebes کی طرف آنکلا ۔ وہ ارادے کے ساتھ اپنے باپ کو قتل کرنے
تو نہیں آ رہا تھا، بلکہ وہ تو کچھ بھی خاص کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو
بچانے کے لئے ادھر آ رہا تھا لیکن آگے سے اس کے باپ کا آ جانا، اس کے لئے
اور اس کے باپ کے لئے سراپا چانس اور تقدیر ہے۔ کوئی کردار بھی اپنے ارادے
سے ادھر نہیں آ رہا لیکن وہاں اس سے ایک بہت بڑا جرم سر زد ہو جانا اتفاق
یا چانس پر مبنی ہے جو اس کے بعد ہونے والی ٹریجڈی کا باعث بنے گا۔
۴۔ ڈرامے میں چوتھا بڑا عمل تھیبز کے گیٹ پر بیٹھی بلا ،سفنکس Sphinx ہے۔
یہ بھی مکمل طور پر چانس ہی چانس ہے یا اسے ہم ڈرامہ نگار کا پلاٹ کہہ سکتے
ہیں لیکن یہ ڈرامے کا پلاٹ نہیں کہا جا سکتا یا سے پلاٹ نہیں بلکہ چانس ہی
کہا جس سکتا ہے۔ اس بلا کو نہ کوئی انسان لایا، نہ کسی کو پتہ کہ وہ کدھر
سے آئی ہے۔ اور پھر اس کے سوال کا جواب پورے شہر کو نہ آنا اور اکیلے
ایڈیپس کو آ جانا ، جو وہاں تیاری کر کے بھی نہیں آیا اور جو لوگ اس سے
متاثر ہو رہے ہیں اورسوچ رہے ہیں ان کو اس سوال کا جواب نہ آنا سوائے اتفاق
اور چانس کے اور کیا ہے۔ جن واقعات کی پلاننگ میں کردار شامل نہیں ان کو
تقدیر ، یا چانس یا اتفاق ہی کہا جائے گا۔ اگر کوئی کردار جان بوجھ کر اسے
لاتا، اسے سوال بتاتا یا کم از کم ایڈیپس ہی اسے سوال کا جواب دینے آ تا
پھر بھی ہم اسے پلاٹ کہہ پاتے جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں تو اسے دیوتاؤں کا،
یا ڈرامہ نگار کا پلاٹ ہی کہا جائے گا نہ کہ ڈرامے گا ۔
۵۔ پلاٹ میں ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ شہر سے باہر شہر کا بادشاہ
Laiusمرا پڑا ہے۔ اس کی لاش کو ابھی واپس نہیں لایا گیا۔ اس کی واپسی بلا
کے مرنے کے بعد ہی ہو سکتی تھی اگر وہ زندہ بھی ہوتا تو۔ لیکن وہ ایڈیپس کے
ہاتھوں اپنے ساتھیوں سمیت مر چکا ہے۔ واپس نہیں آیا۔ اس بلا کو ایڈیپس نے
مارا۔ جب اسے مارا تو شہر کے لوگوں نے اسے اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ لیکن پہلے
بادشاہ کی لاش کا شہر میں لانا، اس کی تدفین کی رسومات ادا کرنا، اس کی قتل
پر اظہارِ تشویش کرنا ، اس کا قاتل تلاش کرنا وغیرہ کہیں مذکور نہیں ہے،جب
کہ ایڈیپس شہر سے باہر کبھی نہیں گیا۔ اس کی تدفین کے وقت ایڈیپس کہاں تھا
یا وہ رسومات کہاں ادا کی گئیں۔ پلاٹ میں بلا کو مار نے کے فورا بعد ایڈیپس
کو بادشاہ بنایا ہے۔ اور اس کے بعد اس کی شادی ملکہ سے کر دی گئی ہے ۔ شہر
کو تو ابھی پتہ بھی نہیں چلا کہ Laius مر گیا ہے۔ کیوں کہ اس کی اطلاع دینے
والا گڈریا Sheperdجو ایڈیپس سے بچ کر بھاگ گیا تھا اور اس کی جان بچ گئی
تھی، ملکہ Jocastaایڈیپس کو بتاتی ہے، کہ جب وہ آیا تو تم بادشاہ بنے ہوئے
تھے۔ ایسے ہوا کہ ڈرامے کے پلاٹ میں بادشاہ کی مرگ کی خبر بعد میں پہنچی ہے
اور ایڈیپس ، اس سے پہلے بادشاہ بن چکا تھا اور ملکہ سے شادی بھی کر چکا
تھا۔ پھر ملکہ ایڈیپس کو بتاتی ہے کہ گڈریئے نے سارے شہر کے سامنے بتایا
تھا کہ بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو ڈاکوؤں کا ایک بڑا گروہ پڑ ا تھا جس نے
ان کو ماردیا تھا ۔ اس وقت ایڈیپس بھی اسی شہر میں موجود تھا۔ لیکن ایڈیپس
کو ان باتوں کا علم نہیں اور ملکہ اس کو بتاتی ہے۔ جب کہ یہ ساری باتیں اس
بلا کو مارے جانے سے بعد کی ہیں ۔
۶۔ شہر تھیز کا کوئی بھی دوسرا دروازہ بیان میں نہیں رکھا گیا کہ ایک پر
بلا بیٹح گئی تو دوسرے سے شہر چلتا رہا۔اگر ایسا تھا تو بلا شہر کے لئے
مسئلہ نہیں تھی۔ بلا اسی صورت یمیں مسئلہ تھی کہ گیٹ ایک ہی ہوتا ۔اور اگر
گیٹ ایک ہی تھا تو پھر یہ سارا کچھ کسی بھی سکیم کے مطابق ہو ہی نہیں سکتا۔
۷۔ جب ایڈیپس کے اصل ماں باپ اسے مرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں، اور وہ گڈریا
بھی اسے کتھیرنKithairon کی پہاڑیوں پر بے یا رو مدد گارچھوڑ نے کے لئے
تیار ہو چکا ہے۔ اس وقت اور اس جگہ کورنتھ کے گڈریئے کا مل جانا بھی تو
چانس ہے تھیبز کا گڈریا اسے بچہ دینے تو آیاہی نہیں تھا وہ تو اسے وہاں
چھوڑ جانے آیا ۔ اس طرح یہ واقعہ بھی مکمل طور پر چانس اور اتفاق پر مبنی
ہے ۔
۸۔ شہر کی موجودہ مصیبت، طاعون plagueاور لوگوں کا مرنا، فصلوں کا برباد
ہونا وغیرہ بھی کسی انسان یا ڈرامے کے کسی کردار کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ کام
بھی دیوتا خود ہی انجام دے رہے ہیں ۔اس بیماری اور ہلاکت سے سارا مسئلہ
شروع ہوا یہ بھی اتفاق اور چانس ہے ۔
انسانی نفسیات اور معمولات کے خلاف رویئے
۹۔ ایڈیپس کی ملکہ سے شادی کا زمانہ تقریباً پندرہ سے بیس سال ہے۔ لیکن
ملکہ نے اس سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے۔ اس کے
ماں باپ کون ہیں۔ کیا اس کا اپنے ماں باپ سے ملنے جانے کو دل نہیں کرتا۔
مکمل پر اسرارخاموشی اختیار کی گئی ہے۔ جو کہ پر اسرار ہونے کے ساتھ ساتھ
مضحکہ خیز بھی ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جو شادی سے پہلے ضرور پوچھے جاتے ہیں اور
اگر کسی وجہ سے ایسی ایمر جنسی ہو کہ نہ پوچھے جائیں، تو شادی کے بعد ضرور
پوچھے جاتے ہیں۔ وہاں کون سی مہم ہے ، کوئی خرابی یا مسئلہ بھی نہیں کہ اس
قسم کی بات کرنے کا موقع نہ ملا ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عورت اپنے
شوہر کے ماں باپ، علاقہ اور ماضی کے متعلق نہ جاننا چاہے۔
اور اس کے متوازی بات یہ کہ اتنے عرصے میں ایڈیپس نے خود ھی ملکہ کو اپنے
بچپن اور جوانی کے متعلق کبھی کچھ نہیں بتایا۔ ایسا ہونا انسانی معاملات
میں نا ممکن جیسا ہے۔
۱۰۔ تیسرا یہ کہ ایڈیپس کے کورنتھ کے ماں (Merope)باپ(Polybos) نے بھی اس
سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر ایڈیپس کو ڈیلفی کی طرف
سے کچھ خطرات تھے ، اس کے ماں باپ کو تو نہیں تھے۔ ان کا کوئی نمائندہ ہی
آجاتا، جب پالی باس مرتا تو میسنجر فوراً بھاگتا آتا ہے ۔ پچھلے بیس سالوں
میں وہ بھی کبھی نہیں آیا۔ جب سے ایڈیپس بادشاہ ہے اس میسنجر کے وارے نیارے
ہو سکتے تھے۔ اور پھر مزے کی بات کہ اسے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایڈیپس کن
کا بیٹا ہے، اسے یہاں آنے سے روکنے والی کوئی بھی بات بیان میں نہیں ہے۔
اور آج پالی باس کی ڈیتھ ہوتی ہے تو وہ بلا روک ٹوک ایڈیپس کے دربار میں آ
جاتا ہے۔
۱۱۔ تھیبز اور کورنتھ کی زبان بھی ایک ہے اور دونوں شہروں کا مذہب بھی ایک
ہے۔ دونوں ڈیلفی پر انحصار کرتے ہیں اور دیوتاؤں کو مانتے ہیں۔ اس طرح کے
شہروں کے روابط مضبوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی کافی
ہوتا ہے لیکن اس ڈرامے میں اس معمول کو بھی مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔
ایڈیپس ایک غیر مستحکم(Inconsistent) کردار
۱۲۔ ایڈیپس ایک قاتل ہے اور اس نے ایک ہی موقع پر چار، پانچ لوگ مار دیئے ،
لیکن اس نے یہ راز اتنے سالوں میں بھی اپنی ملکہ سے شئیر نہیں کیا، جبکہ
اسے زیادہ بولنے کی عادت بھی ہے، اور اپنی برتری جتانا اس کی شخصیت کا حصہ
ہے۔ وہ دل کا سچا ہے۔ وہ کوئی بات چھپانے نے کا خیال بھی نہیں رکھتا ۔ پھر
بھی اس کے دل میں اتنا بڑا راز اتنے سالوں تک دفن رہا ۔اگر وہ بزدل ہوتا،
یا اپنی برائی چھپانے والا ہوتا اور اس سے بات چھپی رہتی تو کچھ مسئلہ نہیں
تھا کہ انسانی فطرت زیادہ تر ایسی ہی ہے۔ لیکن ایڈیپس جیسے عظیم کردار کا
اپنا جرم اتنے سال دفن رکھنا قرینِ قیاس نہیں لگتا۔
یا اگر وہ یہاں نہ آتا بلکہ کسی اور ریاست کاحکمران بنتا تو بھی اس بات کے
پوشیدہ رہنے کے امکانات زیادہ ہوتے۔ لیکن اس ریاست میں بیس سال کی طویل مدت
تک پہلے بادشاہ کا کہیں ذکر ہی نہ ہونا بالکل قرینِ قیاس نہیں بلکہ مضحکہ
خیز ہے۔ یا اگر وہ اتنا بڑا راز اتنے لمبے عرصے تک چھپانے والا انسان تھا
تو اب وہ اپنا آپ کیوں ظاہر کرنے والا بن گیا ۔
۱۳۔ دراصل ایڈیپس اپنے آپ کو خوش قسمتی کا بچہ سمجھتا تھا اور ملکہ کے بار
بار منع کرنے کے باوجود وہ اپنی انکوائری اس لئے آگے بڑھائے جا رہا تھا کہ
اسے غلط فہمی تھی کہ وہ آخر خوش قسمتی کا بچہ(a child of Luck) ہی ثابت ہو
گا جو کہ نہ ہوا اور اس کی ٹریجڈی ہو گئی۔
۱۴۔ ایک طرف ایڈیپس بہت انکساری کا اظہار کرتا ہے اور اپنے محل کے دروازے
پر آئے لوگوں سے براہِ راست گفتگو کر کے اپنا احسان جتانے کی کوشش کرتا ہے
اور دوسری طرف اس کی شخصیت کا دوسرا رخ جو زیادہ مضبوط بھی لگتا ہے سامنے
آتا ہے اور وہ نابینا ٹریزیئسTeiresias، اپنے سالے کری اونCreon، اور
گڈریئےShepherd سے بہت بد تمیزی سے بھی پیش آتا ہے۔
تقدیر کا کھیل
۱۵۔ یہ سارا ڈرامہ دیوتاؤں کے ہاتھوں میں کھیلا جاتا محسوسس ہوتا ہے۔ جب
ایڈیپس اپنے آپ کو اندھا بھی کرتا ہے تو وہ یہہی کہتا کہ حکم کا وقت دیوتا
اپالوکا تھا ، حکم اسی کا تھا لیکن ہاتھ ایڈیپس کا تھا یہاں بھی ڈرامہ
تقدیر کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔
اس ڈرامے میں ایک بھی ایکشن انسان کی پلاننگ سے نہیں ہوا بلکہ جو ہوا وہ
دیوتاؤں کی سوچی سمجھی سکیم لگتی ہے جو کہ پلاٹ کے لحاظ سے سقم ہے۔
ایکشن سے محروم سٹیج
۱۶۔ ایڈیپس ریکس،ایک مشہورِ زمانہ ڈرامہ ہونے کے باوجود ایکشن سے محروم ہے۔
اس کی سٹیج پر آغاز سے لے کر اختتام تک کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ اگر
کچھ ہوتا ہت تو وہ آف دی سٹیج یعنی پسِ پردہ ، کیوں کہ سٹیج کی مجبوری کے
تحت وہ سٹیج پر کیا نہیں جا سکتا۔ یعنی جب ملکہ خود کشی کرتی ہے یا جب
ایڈیپس اپنی آنکھیں نکالتا ہے ۔ ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے اگرچہ کافی ایکشن
ہو چکا ہے جو کہ ڈرامے کاتانا بانا بنتا ہے، جیسا کہ ایڈیپس کوکتھیرن کی
پہاڑیوں میں لے جایا جانا، وہاں سے کورنتھ میں پہنچنا، وہاں سے ڈیلفی جانا،
وہاں سے واپس آنا اور فوکس کے مقام پر جہاں تین سڑکیں ملتی ہیں قتل کی
واردات کاہو جانا، وہاں سے تھیبز کے گیٹ پر آنا اور سفنکس کے سوال کا جواب
دینا اور اس کا مر جانا۔ پھر ایڈیپس کا ملکہ سے شادی کرنا اور ملک کا
حکمران بن جانا ۔ اور پندرہ سے بیس سالوں کا چپکے سے گزر جانا جیسے کہ سب
کردار اور دنیا ہی سو گئی ہو۔اتنا لمبا چوڑا ایکشن ڈرامے کی سٹیج پر نہیں
بلکہ سٹیج کے پیچھے ہے۔
اگرچہ قاری یا ناظر ڈرامہ پڑھتے یا دیکھتے ہوئے اس ایکشن کو بھی ڈرامے کا
حصہ سمجھ کے دم بخود رہ جاتا ہے۔ ڈرامے کی مدت میں یکے بعد دیگرے کرداروں
کا سٹیج پر آنا ، جھگڑنا اور چلے جانا ہی ڈرامے کا ایکشن ہے۔ |