چین سے کیا سبق سیکھا

ملک چین کا نام سب سے پہلے کب سنا تھا -- کسی کو یاد ہے ؟‌
مجھے تو یاد نہیں --
شاید سب سے پہلے کہانی الہ دین کا چراغ میں سنا تھا - یا پھر اس وقت سنا تھا جب کسی نے بتایا کہ کاغذ سب سے پہلے چین میں بنا تھا - ایک حدیث بھی تو پڑھی تھی کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی جانا پڑے اور یہ شعر بھی تو ذہن میں آرہا ہے
گراں خوب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے

لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں - مجھے یاد آتا ہے کہ بچپن میں الہ دین کا چراغ کہانی میں چین کا نام سننے سے پہلے بھی اس کا نام سن چکاتھا -

ہم بلوچستان کے دور دراز قصبے ‘نوشکی ‘ میں رہتے تھے - ایک بچہ جس کا نام محراب خان تھا کے پاس چائے پینے کے کپ کے ٹکڑے تھے - وہ کہتا تھا کہ اس سے وہ آگ لگا سکتا ہے - باقی دوستوں کو یقین نہیں آتا تھا - ایک دن اسکول سے چھٹی کے بعد اس نے پھر ایسا ہی دعویٰ کیا - اس نے کہا کہ یہ آگ سورج غروب ہونے کے بعد لگتی ہے یا اندھیرے کمرے میں پیدا کر سکتا ہے - سورج غروب ہونے کے بعد تو ہم گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کیوں کہ والدین کی سختی سے ہدایت تھی کہ مغرب کی اذان کے وقت گھر آجاؤ - چنانچہ فیصلہ ہوا کہ گھر کے اندر شام سے پہلے ہی ایک کمرے میں اندھیرا کر کے آگ پیدا کی جائے گی - محراب خان شام سے پہلے ٹوٹے کپ کے پانچ چھ ٹکڑے لے آیا -اس کے ساتھ مشترکہ دوست منگلا رام بھی تھا - ہم گھر کے چھوٹے والے کمرے میں خاموشی سے گئے - دروازہ بند کیا - کھڑکی تو تھی ہی نہیں - اندھیرا ہو گیا - اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا - صرف ایک دوسرے کے ہیولے دکھائی دے رہے تھے -محراب خان نے کپ کے دو ٹکڑوں کے ٹوٹے ہوئے حصے کو ایک دوسرے سے رگڑنا شروع کیا - مجھے نہیں معلوم منگلا رام کی کیا کیفیت تھی لیکن میں دم بخود ہو کر یہ تماشہ دیکھ رہا تھا - آخر تین چار بار رگڑا تو چنگاریاں سی پیدا ہوئیں - بہت ہی ننھی ننھی --
دیکھا کیسے آگ پیدا ہوتی ہے ؂ محراب خان نے کہا - ہم حیرت سے چنگاریاں بننے کا عمل دیکھتے رہے
کمرے سے باہر نکلے تو محراب نے کپ کے وہ ٹکڑے مجھے اور منگلا رام کو بطور تحفہ دے دئے - میں نے انہیں احتیاط سے کمرے میں پلنگ کے نیچے کونے میں رکھ دیا جہاں میں ایسے ہی اپنے قیمتی نوادرات رکھا کرتا تھا -
بعد میں اپنی امی کو بتایا کہ میرے پاس کیا چیز ہے - اپنے ماموں جنہیں ماموں پاشا کہتے تھے کو بھی بتایا کہ اس سے کیسے آگ پیدا ہوتی ہے -بھائی جان سے بھی ڈرتے ڈرتے تذکرہ کیا کہ کہیں وہ مجھ سے یہ ٹکڑے چھین نہ لیں - مختلف تبصرے ہوئے - مثلا“
پہلے زمانے میں ایک خاص قسم کا پتھر جسے جقماق کہتے تھے ایسے ہی آگ پیدا کیا کرتے تھے
یہ چینی کے کپ کے ٹکڑے ہیں - یہ چین میں بنتے ہیں - وغیرہ وغیرہ
خیر یہ تھا ملک چین سے پہلا تعارف -
اور اس کے بعد تو اس کے تعارف کے دریچے کھلتے ہی رہے لیکن یہ دریچے اس کی ترقی کے مراحل دکھاتے تھے - مختلف اخبارات ' رسائل ' جرائد میں پاکستا نی دانشوروں 'ادیبوں کے سفر نامے ' چینیوں کے ترقیاتی اسالیب پر مباحث کرتے نظر آتے تھے - - ترقی کے مدارج اور ان کے نافذ کرنے کے طریقوں پر بات چیت ہوا کرتی تھی -

کبھی کبھار ہمارے حکمرانوں کی تصاویر بھی چوائین لائی -ماؤ زے تنگ کے ہمراہ چھپتی تھیں - اور میں سوچ میں پڑ جاتا تھا کیا ہمارے حکمران صرف تصاویر کھنچانے کے شوقین ہی ہیں یا ان سے کچھ اسباق بھی سیکھ رہے ہیں - اور آج جبکہ یہ سب پڑھتے پڑھتے پچاس برس ہوگئے ہیں تو یہ اندازہ لگاتا ہوں کہ یہ سب صرف تصویروں تک ہی محدود رہا تھا سبق حاصل کر نے کا تصور کہیں بھی نہیں تھا - انہیں مٹھی میں بند ناز پان مصالحہ تو نظر آرہا تھا ( اس دوران کا معروف اشتہار ) لیکن چینی منصوبہ بندوں کی مٹھی میں بند ترقی و خوشحالی کی ریت نظر نہیں آرہی تھی جو مٹھی سے پھسل پھسل ملک کو ایک مضبوط معشیت کی بنیادیں فراہم کر رہی تھی -

قران مجید --میں چار پانچ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ دنیا کی سیر کرو اور دیکھ کر کچھ سیکھو
میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیر نہیں کر سکتے تو کم از کم سفر نامے ہی پڑھ لو اور دیکھو کہ ممالک کیسے زیریں سے بالا جاتے ہیں یا حقیر سے توقیر کے مقام پر پہنچتے ہیں - اسی جذبے کے تحت میں نے پچھلی صدی کے آخری نصف میں چین کے بارے میں چھپے ہوئے سفرناموں کا جائزہ لیا

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بی - ایم - کول نے دسمبر 1953 میں چین کا دورہ کیا تھا - وہ اپنی کتاب ' ان کہی
کہانی‘ ( ترجمہ اردو ) ' صفحہ 173 پر لکھتے ہیں کہ میں نے یہ دیکھا کہ چین کے لوگوں کو آزادی کردار سے محروم کر دیا گیا ہے - اور ان میں خود اعتمادی کی کمی ہے - وہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی اپنے سینئر حکام سے مشورے اور ہدایت کے محتاج نظر آتے تھے - ایک موقع پر جنرل بی ایم کول نے اس امر کی طرف چوائن لائی کی توجہ مبذول کرائی تو چوائین لائی نے کہا کہ آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ ہم ابھی حال ہی میں آزاد ہوئے ہیں ------ابھی ہم نو عمر بلکہ بچے ہیں - اس لئے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اوپر کچھ پابندیاں لگائیں - چینی عوام کے رہنماؤں کو اس بات کا اہتمام کر نا پڑتا ہے کہ یہ عوام جو اپنی ذہنی بلوغت کو نہیں پہنچے کوئی ایسی بات یا کام نہ کریں جو ان کے لئے مناسب نہیں ہو - قوم جب جوان ہوگی تو یہ پابندیاں ہٹا لی جائیں گی -

ڈاکٹر وحید قریشی اگست 1966 غالبا" اردو ڈائجسٹ " صفحہ 38 میں لکھتے ہیں
ھڑکی سے جھانک کردیکھا ----نئی ابھرتی قوم کے افراد نظر آئے -- کوئی پیدل --- کوئی سائیکل پر -- لباس سب کا ایک جیسا -- نیلی زین کی پتلون اور نیلا کوٹ --- یہ چین کا قومی لباس بھی ہے -- یکنگ میں ہر شخص اسی لباس میں نظر آیا ---ریشمی کپڑے نہیں -- صرف سوتی کپڑے -- کسی آرائش و زیبائش کے بغیر کاروبار میں مصروف لوگ --- عورتیں لپ اسٹک اور غازے سے بے نیاز --- کوئی بھی عورت میک اپکیہوئی نظر نہیں آئی -- تھیٹرکی بات دوسری ہے کیوں کہ وہاں کرداروں کو بہر حال میک اپ کر نا پڑتا ہے -- چینی مردوں اور عورتوں کی پتلونوں میں کریز بھی غائب تھی - اکثر پتلونیں بغیر کریز کی ہیں --اکثر سر بغیر تیل اور لنگھی کے نظر ائے - - یہ چین کے بارے میں پہلا تاثر بنا جو آخرتک قائم رہا

ایسی ہی بات ابن انشا نے اپنی کتاب چلتے ہو تو چین کو چلئے میں لکھی ہے - وہ لکھتے ہیں کہ چین میں عورتوں اور مرد کے لباس میں کوئی فرق نہیں - وہی بند گلے کی جیکٹ --- وہی پتلون -- ایک سا جوتا - نہ سرخی -نہ لپ اسٹک -نہ دوپٹہ -نہ پرس - عورتٰں بھاری مشینیں چلاتی ہیں - کاریں 'ٹرک ' کارخانے چلاتی ہیں - بڑے بڑے بوجھ اٹھاتی ہیں اور کھینچتی ہیں - کارخانوں میں کام کرنے والی عورتوں کا
تناسب 30 فی صد --35 فی صد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے
( میری رائے ----- کیا بھاری مشینیں چلانا دشوار ہیں -- کیا جو مشین جتنا بھاری کام کرتی ہے اس میں اتنی ہی مشقت لگتی ہے -- میرا خیال ہے کہ نہیں - خود کار مشینیں چاہے ہلکی ہوں یا بھاری سارا بوجھ اور ذمہ داری خود اٹھاتی ہیں - مشین چلانے والے کو محض انواع قسم کے بٹن دبانے یا یا لیور ہی اوپر نیچے کر نے پڑتے ہیں اور ذہن حاضر رکھنا پڑتا ہے )

قرۃ العین حیدر اپنی کتاب ' روشنی کی رفتار' میں لکھتی ہیں
شنگھائی کا سارا رنگ و بو -- عیش و عشرت تو کمیونسٹوں نے چھین لیا ہے -وہاں کی طوائفیں سڑکیں کوٹنے کے کام پر لگادی گئی ہیں - چینیوں کا جو حشر ہوا ان پناہ گزینوں سے پوچھو جو ھانگ کانگ میں مقیم ہیں - ( کچھ لوگوں کا قرۃ العین حیدر کی اس عبارت پر تبصرہ یہ ہے کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب انقلاب کے ثمرات ابھی عوام تک نہیں پہنچے تھے البتہ مغرب والے ان آنے والے ثمرات کے قدموں کی چابیں سن رہے تھے اور اسی بناہ پر چین کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی ہوئی تھی - غالبا' اسی کے زیر اثر محترمہ قرۃ العین حیدر نے یہ کلمات اپنی کتاب میں لکھے تھے - اس کے برعکس جناب ابن انشا اپنی کتاب ' چلتے ہو تو چین کو چلئے ' میں لکھتے ہیں
جسم فروشی کو ایک معاشرتی روگ یا مجبوری سمجھ کر علاج کیا گیا - ایسی عورتوں کو شہر سے نکال کر دیہاتوں میں منتشر کر دیا گیا - جہاں انہیں ماضی کی یاد دلانے والا کوئی نہیں تھا - انکی زندگی بھر کی عادات دیکھتے ہوئے ایسے کارخانوں میں متعین کیا گیا جہاں شام سے صبح تک کام ہوتا تھا اور دن میں لوگ آرام کرتے تھے پھر ان کی تعلیم کا انتظام کیا گیا - رفتہ رفتہ انہوں نے رفیق ڈھونڈے یوں -معاشرے کا کارآمد اور صحت مند جزو بن گئیں -
کچھ ایسا ہی ایک تفصیلی مضمون میں انگریزی رسالے "ٹائمز" میں پڑھا تھا - اس میں بھی یہی لکھا تھا - طوائفوں سے کہا گیا کہ آپ کسی مرض کا شکار ہیں تو گھبرانے کی بات نہیں -مملکت کی جانب سے آپ کا علاج کروایا جائے گا - یہاں وہاں چھپنے کی ضرورت نہیں -

مشرق لاہور میں ایک کالم لکھا گیا تھا جس میں کالم نگار نے کہا تھا کہ ایک کارخانے گئے تو باہر سے ویرانی کا منظر پیش کرتا تھا لیکن اندر گئے تو پتہ چلا کہ ٹکنالوجی کی اعلیٰ مثال لئے مختلف اشیا تیار ہو رہی تھیں - کالم نگار نے لکھا کہ کارخانے وغیرہ کی بیرونی تزئیں پر زور نہیں دیا جاتا تھا بلکہ اندر پیدا کر نے والے مال کی خوبیوں پر پوری توجہ رکھی جاتی تھی


چین کا ایک منظر --- 1960
ابن انشا اپنی کتاب 'چلتے ہو تو چین کو چلئے' میں لکھتے ہیں ---- اسکول کے لڑکوں کے غول کے غول -- ٹہنیاں -پودے - قلمیں - اور درخت ہاتھوں میں لئے شجر کاری میں مصروف تھے - چہروں پر ذوق و شوق اور چلبلاہٹ --- ہم نے سینکڑوں ہزاروں طالب علموں کو دیکھا جو سڑکوں کے کنارےدرخت لگا تے جارہے تھے - -اس کے علاوہ رضا کار بھی تھے - یہ رضاکار جتھے وہ کام کر رہے تھے جو تنخواہ دار کرگر صلے کے عوض نہ کر سکیں - انہیں نہ کہیں کھانا ملتا ہے اور نہ کوئی اور سہولت - ---کھانے کی پوٹلیاں ان کے ہمراہ تھیں - ایک دستہ ہمیں ملا -اس دستے کے کے بستر ایک ٹرک پر لدے ہوئے تھے اور ساری نفری پیدل مارچ کرتی اور درخت لگاتی جارہی تھی - ابن انشا مزید کہتے ہیں کہ 1958 تک بیجنگ میں درخت خال خال ہی تھے - 1960 تک شہر میں نوے لاکھ درخت لگ چکے تھے یہ لوگ سڑکوں کے دونوں طرف ایک ایک درخت لگانے پر اکتفا نہیں کرتے تھے پانچ پانچ ---سات سات -- متوازی قطاریں متوازی چلی گئیں تھیں

جناب جمیل الدین عالی مرحوم اپنی کتاب دعا کر چلے صفحہ 393 پر چینی رہنما چوائن لائی سے ملاقات کا تزکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چوئن لائی نے ایک کروڑ لوگوں کے مارے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ایک کروڑ گمراہ چینی تھے اور دوسری جانب ستر کروڑ انسانی جانیں -ان ستر کروڑ انسانی جانوں کی خوشحالی ایک کروڑ انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی تھی - افسوس وہ ایک کروڑ بھی چینی تھے - میری ہم قوم -ہم رنگ - ہم زبان - کاش وہ راہ راست پر آجاتے - چوئن لائی نے یہ بات غالبا“ 1967 میں کہی تھی -

ایک حالیہ سفر نامے کا احوال بھی پڑھ لیجئے -دردانہ شیر نے 8 نومبر 2017 کو انٹر نیٹ پر اپنے ایک سفر نامے میں لکھا کہ 1985 تک کاشغر کے علاقے میں اخروٹ اور بادام کا کوئی درخت نہیں تھا اور جب پاکستان سے لوگ اخروٹ اور بادام لیکر وہاں جاتے تو کاشغر کے لوگ منہ مانگی رقم دیکر ان سے اخروٹ اور بادام خریدتے تھے۔ اس کے بعد بعض جرائم پیشہ آفراد نے اخروٹ کے اندر بھی منشیات بھرکر لے جانے کی کوشش کی جس کے بعد وہاں کی حکومت نے بھی کاشتکاروں کو ریلیف دینا شروع کر دیا کہ اخروٹ اور بادام جب گلگت بلتستان میں ہوتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔ آج کاشغر کے قریب دیہاتوں میں مقامی کاشتکاروں کے پاس ہزاروں کی تعدادمیں اخروٹ اور بادام کے درخت موجود ہیں اور ان کے اخروٹ کو دیکھ کراپنے اخروٹ پر ترس آتا ہے۔ ان کے ایک اخروٹ ہمارے چار اخروٹ کے برابر ہوتے ہیں

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 332437 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More