سمندر کے بیچوں بیچ واقع جزیرے آئل آف مین کی سیر، جو
دنیا کا پانچواں مالدار ترین ملک ہے۔
|
|
آئل آف مین (Isle of Man) جانے کے لیے ہمیں برطانیہ کے شہر لیورپول سے بحری
جہاز میں تقریباً چار گھنٹے کا ہچکولوں بھرا سفر طے کرنا پڑا۔
|
|
ورلڈ بینک کے مطابق یہ ننھا سا ملک انفرادی دولت کے لحاظ سے دنیا کا
پانچواں امیر ترین ملک ہے اور اس کی فی کس آمدن 82 ہزار امریکی ڈالر سے
زیادہ ہے۔
|
|
یہ وہ بحری جہاز (فیری) ہے جو ہمیں اس جزیرے کے دارالحکومت اور مرکزی شہر
ڈگلس تک لایا۔ مقامی لوگ اپنی گاڑیوں سمیت اس میں سفر کرتے ہیں۔
|
|
جزیرے کی معیشت کا انحصار ای گیمنگ، انشورنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر ہے۔
چند سال پہلے پاناما اور کیمن آئی لینڈ وغیرہ کی طرح یہاں بھی آف شور
کمپنیوں کی بھرمار تھی لیکن اب ان پر قابو پا لیا گیا ہے۔
|
|
اس جزیرے کا رقبہ صرف 572 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے مقابلے پر اسلام آباد کا
906 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کی اپنی کرنسی ہے تاہم برطانوی
پاؤنڈ بھی چل جاتا ہے۔
|
|
حجم میں چھوٹا ہونے کے باوجود یہاں جنگلی حیات اور قدرتی مظاہر کی اس قدر
بہتات ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے تمام جزیرے کو حیاتیاتی
اعتبار سے محفوظ علاقے (ریزرو) کا درجہ دے دیا۔
|
|
آئل آف مین کی تاریخ خاصی قدیم ہے اور یہاں آٹھ ہزار سال پرانے آثار ملتے
ہیں۔
|
|
یہاں کی اکثر آبادی کے پاس اپنی کشتیاں ہیں جن کے ذریعے
وہ آئرلینڈ یا برطانیہ کا سفر کرتے ہیں۔
|
|
آئل آف مین کے چار کونوں میں چار بڑے قصبے واقع ہیں،
اور ان کے بیچ میں کھلے سبزہ زار ہیں جہاں کھیتی باڑی اور گلہ بانی بھی
ہوتی ہے۔
|
|
بھیڑیں اس قدر بےفکری کی زندگی گزار رہی ہیں کہ ہمیں ان
پر رشک آنے لگا۔
|
|
آئل آف مین کی اپنی پارلیمان ہے جس کا سربراہ وزیرِ
اعلیٰ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ لارڈ آف مین ملکۂ برطانیہ کی نمائندگی کرتا
ہے۔
|
|
یہ ریمزی قصبہ ہے جو ڈگلس سے نصف گھنٹے کی ڈرائیو پر
واقع ہے۔ سڑک پہاڑی کے اوپر سے گزر کر جاتی ہے اور اس کے چاروں طرف دل کو
لبھانے والے مناظر کی فراوانی ہے۔
|
|
اس جزیرے میں آپ جہاں بھی جائیں، کسی نہ کسی کونے سے
نیلگوں سمندر ضرور نظر آ جاتا ہے۔ یہاں انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے،
تاہم آئل آف مین کی اپنی زبان بھی ہے جسے میکنس کہا جاتا ہے۔
|
|
آئل آف مین یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے اس لیے اسے
بریگزٹ کے جھنجھٹ سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ یورپی شہری یہاں بغیر ویزے کے آ تو
سکتے ہیں، کام نہیں کر سکتے۔(تحریر و تصاویر: ظفر سید) |