یوم کشمیر ٗ کشمیری مجاہدین کے جذبات اور ہمارے رویے

ہر سال جوش و خروش کے ساتھ ہم یوم کشمیر مناتے ہیں ٗہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر درجنوں میل لمبی زنجیر بنائی جاتی ہے ٗ کشمیر کی آزادی کے لیے سیمینار ٗ مذاکرے اور جلسے و جلوس منعقد ہوتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے مبصرین کو قراردادیں پیش کی جاتی ہیں لیکن 5 فروری کا سورج غروب ہوتے ہی ہم ایک بار پھرلمبی تان کر سو جاتے ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم یہ دن صرف دکھاوے کے لیے مناتے ہیں تاکہ مقبوضہ وادی کے عوام کو بتایا جائے کہ ہم دل و جان سے آپکے ساتھ ہیں ٗاس میں شاید سچائی کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کشمیر کمیٹی بہت عرصے سے قائم چلی آرہی ہے مولانا فضل الرحمان اس کے چیئرمین ہیں جن کو کشمیر کی آزادی سے کوئی مالی فائدہ نہیں بلکہ یہ اسی باپ کے بیٹے ہیں جس نے کہا تھا "خدا کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے" ۔مولانا فضل الرحمن نہ کشمیر کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور نہ ہی سنجیدہ ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں لیکن ہمارے سفارت کار کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ کشمیر بھائیوں پر 70 سال سے مظالم ڈھائے جارہے ہیں ٗ ہماری ماؤں ٗبہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں ٗ جنہیں بھارتی فوج آزادی کی جنگ لڑنے کی پاداش میں گرفتار کرتی ہے ٗان پر جیلوں میں ایسے ایسے مظالم اور تشدد کے نت نئے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستانی حکومت اور سیاسی قائدین آپس میں ہی کچھ اس طرح باہم دست گریبان ہیں کہ ان کے پاس کشمیری بھائیوں کے حق آواز اٹھانے کی فرصت نہیں ہے ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کشمیر پر ناجائز قابض ہے ۔1948ء میں بھارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھاگابھاگا گیا اور التجا بھرے لہجے میں موقف اختیار کیا کہ کشمیر میں جنگ بندی کردی جائے ہم استصواب رائے کروانے پر آمادہ ہیں۔ بھارت کی ہی درخواست پر سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی قرار داد منظور کی ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جنگ بندی کے بعد وادی کشمیر میں مشرقی تیمور کی طرح ریفرنڈم کا انعقاد ہوتا ۔ پھر کشمیری عوام کے فیصلے پر عمل درآمد کیاجاتا ۔ نہ بھارت اس پر آمادہ ہوا اور نہ ہی سپرطاقتوں نے دوبارہ کشمیر ایشو پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کی۔ بظاہر تو اقوام متحدہ تنازعات کو حل کرنے کا بین الاقوامی ادارہ ہے لیکن اس کی لگام امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔امریکہ جو حکم دیتاہے اقوام متحدہ وہی کرتی ہے۔ امریکہ نے کشمیرمیں ہونے والی حصول آزادی کی جدوجہد سے دانستہ آنکھیں بند کررکھی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھارت کے چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا The biggest democracy is the biggest hypocrisy۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ایک کشمیری خاتون کی تصویر ہاتھ میں اٹھا رکھی تھی جس کا چہرہ شدید زخمی تھا اوراس کی آنکھوں میں چھرے پیوست تھے ۔ یہ بھارت کااصلی چہرہ ہے ۔سلامتی کونسل کے ارکان میں سے کسی ایک میں بھی یہ ہمت نہیں کہ وہ بھارت سے جواب طلب کرے۔ایک کشمیری مجاہد کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں ۔ برہان شہیدکے خون نے ہمارے دل میں وہ لذت آشنائی پیدا کی کہ جس نے ہمیں دنیا کی زندگی سے بے نیاز کردیا ہے ۔ بھارتی فوج کو دیکھ کر کھڑکیاں دروازے بند کرنا توایک طرف ۔اب ہمارا گھرمیں رکنے کو بھی دل نہیں کرتا ۔ہمارے ہاتھوں میں پتھر ٗ زبان پر اﷲ اکبر اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے ہوتے ہیں۔ ہمارے سینے پر پاکستانی پرچم اور ہمارا دل اسلام کی محبت سے سرشار اور رب سے ملنے کے لیے بے قرار رہتا ہے ۔ہم بھارت کو یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ کہ کسی قوم کی رگوں کاخون بہنے سے نہیں جمتا بلکہ وہ خون جہاں جہاں گرتا ہے اس سرزمین کو ایک نئی بہار کی امید کے ساتھ سیراب کرتاجاتا ہے ۔ ہم بھارت کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ کسی شہید کی کلاشنکوف شہید کے ہاتھ سے گرنے کے بعدہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہوجاتی بلکہ وہ منتظر رہتی ہے کہ ایک بار پھر کسی اور مومن جانباز کا زیور بنے اورایک بار پھر کافروں کو جہنم رسید کرے ۔جب تک ایک کشمیری بھی زندہ ہے ٗ کشمیرکی آزادی کی جنگ جاری رہے گی ۔ یہ تو ایک کشمیری مجاہد کے تاثرات تھے جو اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔حکومت پاکستان کو بھی ایک قدم بڑھ کر کشمیری عوام پر ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجانا چاہیئے ۔مولانا فضل الرحمان کی بجائے بھارت میں پاکستان کے سابقہ سفارت کار عبدالباسط کو کشمیرکمیٹی کا چیئر مین بناکر انہیں عالمی برادری کے مردہ ضمیر کو جگانے کا ٹاسک سونپ دیاجائے ۔ یہ جرات مند سفارت کار ہیں جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت کے انتہاء پسندوں میں بیٹھ کر کشمیر کاز کے لیے بہت اہم کار نامے انجام دیئے ۔ مزید برآں اگر بھارت نے ہمارے بلوچوں کو بغاوت پر اکسانے کے لیے ریڈیو اسٹیشن شروع کررکھا ہے تو پاکستان کو بھی یہ حق پہنچا ہے کہ وہ ایک ایسے انٹرنیشنل ٹی وی چینل( جس کی نشریات انگریزی ٗ چینی ٗ روسی ٗ فرانسیسی ٗ جرمن فارسی ٗ پشتو ٗ ہندی اور اردو زبان میں ہو ) کا آغاز کرے جس کی نشریات بی بی سی اور سی این این کی طرح امریکہ سے یورپ تک ٗ افریقہ سے تمام ایشیائی ممالک تک دیکھی جاسکتی ہوں ۔ اس ٹی وی چینل پر سی پیک کی افادیت ٗ پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی ٗ سیاحتی مقامات کے بارے مختلف زبانوں میں دستاویزی پروگرامز اور وادی کشمیر میں ہونے والے مظالم کی وسیع پیمانے پر تشہیر کا اہتمام ہو تاکہ دنیا کو کشمیر کی جدوجہد آزادی ٗ بھارتی فوج کے مظالم اور پاکستان کے بارے میں علم ہو ۔ بی بی سی اور سی این این نے دانستہ طور پر کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو بلیک آؤٹ کررکھاہے جس کاازالہ بین الاقوامی ٹی وی چینل کی نشریات شروع کرکے ہی ہوسکتا ہے۔اس ٹی وی چینل کا نام "کشمیر بنے گا پاکستان "۔بھی رکھا جاسکتا ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662639 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.