چین و عرب ہمارا ………………ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم …………وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت ………… سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا ………………نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں ـــ………… پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں ………… وہ پاسباں ہمارا
ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کودوست نہ بناؤ۔وہ آپس
میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔اورتم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گاتووہ انہی
میں سے ہے۔بے شک اﷲ تعالیٰ بے انصافوں کوراہ نہیں دیتا۔(سورۃ المائدۃ ۵۱)
یہ آیت کریمہ حضرت عبادہ ابن صامت صحابی اورعبداﷲ ابن ابی منافق کے متعلق
نازل ہوئی۔حضرت عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ بڑے شان وشوکت والے
یہودی میرے دوست ہیں۔لیکن اب میں اﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
کے سواتمام دوستیوں سے بیزارہوں۔عبداﷲ ابن ابی منافق بولاکہ مجھے یہودکے
ساتھ تعلقات رکھنے ضروری ہیں۔اورمجھے ان سے محبت ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے ان دونوں کی گفتگوسن کراس منافق سے فرمایاکہ یہودکی دوستی
رکھناتیراہی کام ہے عبادہ کاکام نہیں۔(تفسیرنورالعرفان۱۴۰)
ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’ضرورتم مسلمانوں کاسب سے بڑھ کردشمن یہودیوں
اورمشرکوں کوپاؤگے۔اورضرورتم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان
کوپاؤگے جوکہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں۔یہ اس لئے کہ ان میں عالم اوردرویش ہیں
اوریہ غرورنہیں کرتے۔(المائدہ۸۲)
تمام تعریفیں خالق کائنات ،مالک عرض وسماوات اﷲ رب العالمین کے لئے جس نے
آسمان کوہمارے لئے چھت ،زمین کوبچھونابنایااورہمیں ہرقسم کی نعمتوں سے
نوازکر’’ایمان ‘‘کی نعمت عظمیٰ سے سرفرازفرمایا۔انسان کودنیامیں جتنی بھی
نعمتیں ملی ہیں ان میں سب سے مقدم اورقیمتی نعمت ایمان ہے کیونکہ جسے ایمان
کی نعمت مل جائے گویااُسے ساری کائنات کی نعمتیں مل گئیں ۔اوربے
شماردرودوسلام سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات اقدس پرجن کے لئے
اﷲ رب العزت نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی ۔اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب
مکرم احمدمجتبیٰ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوخاتم النبین مبعو ث
فرمایا۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم پرجومقدس لاریب کتاب قرآن
مجیدفرقان حمیدنازل کی گئی وہ دنیامیں اﷲ رب العزت کی آخری کتاب(پیغام)ہے۔
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اﷲ تعالیٰ کے حبیب اورتمام ترصفات
وکمالات کے جامع ہیں۔
سرکارمدینہ راحت قلب وسینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ
میں قیامت تک ہونیوالے حالات وواقعات کی خبراپنی’’ امت ‘‘ کودے دی۔ تاکہ
اہل ایمان آئندہ وقوع پذیرہونے والے فتنوں سے اپنے ایما ن کومحفوظ رکھ
سکیں۔آزمائش ومصائب میں ثابت قدم رہ کر’’دین اسلام‘‘ کی مدداور حفاظت
کرسکیں۔امت محمدیہ نے قیامت تک جہاں جہاں پھیلناہے ۔ سرکارمدینہ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے ان تمام علاقوں کی فتوحات کی پیشگی اطلاعات اپنی ظاہری
حیات طیبہ میں دے دی ہے۔ سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کایہ ایک حیرت
انگیزمعجزہ ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے قیامت تک ہونیوالے حالات
واقعات کواسطرح بیان فرمایاجیسے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم انہیں اپنی
آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب
ڈھلاتوسرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم تشریف لائے اورظہرکی نماز پڑھائی
۔سلام پھیرنے کے بعدسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم منبرپرجلوہ
افروزہوئے اورقیامت کاذکرکیااورپھرفرمایااس سے پہلے بڑے بڑے واقعات وحادثات
ہیں۔ پھرآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاجوشخص کسی بھی نوعیت کی
کوئی بات پوچھناچاہتاہے تووہ پوچھے ۔ خداکی قسم!میں جب تک یہاں کھڑاہوں تم
جوبھی پوچھوگے اسکاجواب دوں گا۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں۔لوگوں نے زاروقطارروناشروع کردیا۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
جلال کے سبب بارباریہ اعلان فرمارہے تھے کہ کوئی سوال کرو،مجھ سے
جوچاہوپوچھ لو۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں پھرایک شخص
کھڑاہواورکہنے لگایارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !میراٹھکانہ کہاں ہے؟آپ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا،دوزخ میں ،پھرحضرت عبداﷲ بن حذافہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کیا۔یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم!میراباپ
کون ہے؟سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایاتیراباپ’’حذافہ‘‘ہے۔حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھرآپ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم باربارفرماتے رہے ۔’’مجھ سے سوال کرو،مجھ سے سوال
کرو‘‘۔چنانچہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کرعرض
گزارہوئے۔ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر،اسلام کے دین ہونے پراورمحمدمصطفی صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ’’رسول‘‘ ہونے پرراضی ہیں۔راوی فرماتے ہیں کہ جب
حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گذارش کی توسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم خاموش ہوگئے۔پھرآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا۔قسم ہے اس
ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ابھی ابھی اس دیوارکے سامنے مجھ
پرجنت اوردوزخ پیش کی گئیں۔جبکہ میں نمازپڑھ رہاتھا۔توآج کی طرح میں نے
خیراورشرکوکبھی نہیں دیکھا۔(متفق علیہ)
حضرت عمروبن اخطب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔کہ سرکارمدینہ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے نمازِ فجرمیں ہماری امامت فرماکر منبرپرجلوہ افروز
ہوئے اورہمیں خطاب فرمایایہاں تک کہ ظہرکاوقت ہوگیاپھرآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم منبرسے نیچے تشریف لے آئے نمازپڑھائی بعدازاں پھرمنبرپرتشریف فرماہوئے
اورہمیں خطاب فرمایاحتیٰ کہ عصرکاوقت ہوگیاپھرمنبرسے نیچے تشریف لائے
اورنمازپڑھائی۔پھرمنبرپرتشریف فرماہوئے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔پس آپ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ہمیں ہراس بات کی خبردے دی جو،جوآج تک وقوع
پذیرہوچکی تھی اورجوقیامت تک ہونے والی تھی۔حضرت عمروبن اخطب رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والاوہی ہے جوہم میں سب سے زیادہ حافظہ
والاتھا‘‘۔(مسلم شریف،ترمذی)
اﷲ تعالیٰ اوراس کے حبیب مکرم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاپسندیدہ
دین’’اسلام‘‘ہے ۔اسی لئے سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی امت اوردین
اسلام کوتمام اقوام وادیان پرغلبہ نصیب ہوناہے۔ان شاء اﷲ عنقریب مشرق ومغرب
کے خرانے ان کے قدموں میں ڈالے جائیں گے۔
اسلام وہ پوداہے کاٹوتوہراہوگا جتناکہ دباؤگے اتناہی وہ ابھرے گا۔
حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے ارشادفرمایا’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کولپیٹ دیا۔ اورمیں
نے اس کے تمام مشارق ومغارب کودیکھا۔عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک
پہنچے گی ۔جہاں تک میرے لئے زمین لپیٹی گئی ۔اورمجھے (قیصروکسریٰ
کے)دوخزانے سرخ اورسفیددیے گئے میں نے اپنی امت کے لئے اپنے ’’رب‘‘سے یہ
سوال کیا کہ انہیں قحط سالی سے ہلاک نہ کیاجائے۔ اورنہ ان پران کے غیرسے
دشمن مسلط کرے جوانہیں مکمل طورپرنیست ونابودکردے اوربے شک میرے رب نے مجھے
فرمایااے محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !میں جب ایک فیصلہ کرلیتاہوں
تواس کوواپس نہیں لوٹایاجاسکتا۔ اوربے شک میں نے آپ کوآپ کی امت کے لئے یہ
چیزعطافرمادی ہے کہ میں انہیں قحط سالی سے نہیں ماروں گا۔اورنہ ہی ان کے
علاوہ کسی اورکوان پردشمن مسلط کروں گاجوانہیں مکمل طورپرنیست
ونابودکردے۔اگرچہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ اکٹھے ہوجائیں۔یہاں تک
ان میں سے خودبعض ،بعض کوہلاک نہ کریں اوربعض، بعض کوقیدی نہ بنائیں۔(مسلم
شریف،ترمذی،ابوداؤد،کتاب الفتن)
سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ’’زبان اقدس‘‘سے بیان ہونے والی
بشارتوں میں ایک بشارت اوروعدہ ’’غزوہ ہند‘‘بھی ہے۔ ’’غزوہ ا‘‘یسی جنگ جس
میں سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے بذات خودشرکت فرمائی اورجنگ میں
مجاہدین صحابہ کرام کی کمان اورقیادت کی ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
تقریبا۲۷جنگوں میں بذات خودشرکت کی ہے۔دوسری قسم سریہ ہے۔محدثین اورسیرت
نگاروں کی اصطلاح میں وہ جہادی مہمات جن میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
بذات خودشرکت نہ کی ہو۔بلکہ کسی صحابی کوقیادت کے لئے متعین فرمایاہوسریہ
کہلاتی ہے۔
سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ’’غزوہ ہند‘‘کااس امت سے وعدہ کیاہے۔
البدایہ والنہایہ کی جلد۶میں غزوہ ہندکے متعلق احادیث مبارکہ میں اس بات
کاذکرہے۔’’وعدنارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہٖ وسلم غزوۃ الہند‘‘حدیث
مبارکہ کے ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔غزوہ
ہندوسندھ اسلامی تاریخ کاایک درخشاں باب ہے۔جس کاآغازخلفائے راشدین کے
عہدسے ہواجومختلف مراحل سے گزرتاہواآج بھی جاری ہے۔غزوہ ہندسرکارمدینہ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی پیشن گوئیوں میں ان غزوات موعودہ٭٭ کی ذیل میں
آتاہے۔جن کی فضیلت کے متعلق نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے
متعدداحادیث مروی ہیں۔جن کے راوی جلیل القدرصحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں۔
٭٭ غزوات موعودہ کی ایک مثال سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ایک وہ
پیشن گوئی ہے جسے ترکوں سے جنگ کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ روایت کیاہے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا’’قیامت سے قبل تم چھوٹی آنکھوں ،سرخ چہروں
اورہموارناک والے ترکوں سے جنگ کروگے ان کے چہرے گویاچپٹی ڈھالیں
ہیں۔(بخاری ،کتاب الجہاد،صحیح مسلم ،کتاب الفتن)
٭ ٭غزوات موعودہ کی دوسری مثال فتح قسطنطیہ کی نبوی پیشن گوئی ہے۔حضرت
ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
نے ارشادفرمایا’’قیامت سے قبل یہ واقعہ ضرورپیش آئے گا۔کہ اہل روم٭٭ عماق
یادابق٭٭ کے قریب اُتریں گے۔توان سے جہادکے لئے روئے زمین پراسوقت کے
بہترین لوگوں پرمشتمل ایک لشکرمدینہ منورہ سے نکلے گا۔جنگ کے لئے صف بندی
کے لئے رومی کہیں گے۔ہمارے مقابلے کے لئے ان لوگوں کوذراآگے آنے دیجیے
جوہماری صفوں سے آپ کے ہاتھوں قیدی بنے۔ہم خوب ان سے نمٹ لیں گے۔مسلمان
جواباًان سے کہیں گے بخدا! ہم اپنے بھائیوں کو آپ کے ساتھ اس لڑائی میں
اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے بعد جنگ ہوگی جس میں ایک تہائی مسلمان شکست
خوردہ ہوکر پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول
نہیں فرمائے گا۔ ایک تہائی لڑ کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے، یہ لوگ اﷲ
تعالیٰ کے ہاں افضل ترین شہداء کا مقام پائیں گے۔ باقی ایک تہائی مسلمانوں
کو اﷲ تعالیٰ فتح سے ہمکنار فرمائیں گے، ان کو آئندہ کسی آزمائش سے دوچار
نہیں کیاجائے گا، یہی لوگ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔'' (صحیح مسلم،کتاب
الفتن،باب فتح القسطنطنیہ )
٭٭ (یہ حدیث محدثین کے ہاں (حدیث الاعماق) کے نام سے معروف ہے، کیونکہ اس
میں اعماق اور دابق۔ موجودہ ملک شام کے شہر حلب کے قریب واقع( دو ایسی
جگہوں کا تذکرہ آیا ہے جہاں (ملحمۃ الاعماق) قرب قیامت سے پہلے وقوع پذیر
ہوگا جس میں صلیبی عیسائیوں اور مجاہدین اسلام کے درمیان خونریز معرکہ
ہوگا، حضرت حذیفہ کی ایک حدیث کے مطابق اس معرکہ میں کام آنیوالے (افضل
ترین شہداء) امت ِمحمدیہ ہوں گے،( السنن الوارد فی الفتن)
سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں سب سے پہلی
اورقابل ذکرفتح ’’فتح مکہ‘‘کی تسخیرتھی۔جسے خودحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے فتح کیااس کے بعدطائف فتح ہوا اوررفتہ رفتہ مسلمان پورے عرب
پرقابض ہوئے۔اسی طرح مسلمانوں کی فتوحات کادوسرادورخلفائے راشدین کے
عہدحکومت سے شروع ہوا۔مسلمانوں نے ملک شام ،عراق،بعلبک،شہزار،حمص کوفتح
کیا۔بیت المقدس کے عیسائیوں نے اطاعت قبول کی ۔مصر،شام، ایران،شمالی
افریقہ،جزیر،قبرص وغیرہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔بنی امیہ کے دورِحکومت
میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ،سلطنت روماکی بنیادوں کوہلاکررکھ دیا۔اسی طرح
روسی ترکستان فتح کیا۔افغانستان،نصف چین،اسپین،پرتگال کوفتح کرکے جنوبی
فرانس پرقبضہ جمایااس کے بعدہندوستان کاایک بہت بڑا حصہ فتح کیا۔مسلمانوں
کو یہ تمام فتوحات ستریااسی سال کے اندراندرہوئیں۔
’’ہند‘‘زمین کاوہ حصہ ہے ۔جہاں حضرت سیدناآدم علیہ السلام کوآسمان سے زمین
پربھیجاگیاتھااورآپ علیہ السلام نے ’’ہند‘‘سے چالیس بارسفرحج طے
کیا۔(تفسیرقرطبی،ج۶)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے ہم سے’’ غزوہ ہند‘‘کے بارے میں وعدہ فرمایاتھا۔ سواگرمیں
شہیدہوگیاتوبہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔اگرمیں واپس آگیاتومیں
آزاد’’ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ‘‘ہوں گا۔(احمدبن حنبل،المسند،حاکم
المستدرک علی الصحین )
حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ( رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے
آزادکردہ غلام )سے روایت ہے کہ سرکارمدینہ ،خاتم النبین احمدمجبتیٰ
محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا’’میری امت کے دوگروہوں
کواﷲ تعالیٰ دوزخ کی عذاب سے بچائے گا۔ان میں سے ایک ’’ہندوستان ‘‘میں
جہادکریگا، اوردوسراسیدناحضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ
ہوگا۔(مسنداحمدبن حنبل،سنن نسائی،طبرانی ،المعجم الاوسط)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایاتھاکہ مسلمان ہندوستان میں جہادکریں گے ۔اگروہ
جہادمیری موجودگی میں ہواتومیں اپنی جان اورمال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان
کروں گا۔اگرمیں شہیدہوجاؤں تومیں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں
گا۔اگرمیں زندہ رہاتووہ’’ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘‘ہوں گا۔جوعذاب جہنم
سے آزادکردیاگیاہے۔(نسائی السنن،بیہقی ،السنن الکبریٰ )
غزوہ ہندسے متعلق سیدناحضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شہادت کی
تمناکااظہارکیاہے۔کیونکہ اس غزوہ میں جولوگ شہیدہوں گے۔وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے
ہاں ’’افضل الشہداء‘‘میں سے ہوں گے۔قرآن مجیدمیں اﷲ تعالیٰ نے شہداء کی
عظمت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا’’اورجواﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں
مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں۔ہاں تمہیں خبرنہیں(تمہیں ان کی زندگی کاشعور
نہیں۔(سورہ البقرہ۱۵۴)ایک اورمقام پرارشادباری تعالیٰ ہے۔’’اورجواﷲ کی راہ
میں مارے گئے ہرگزانہیں مردہ نہ خیال کرنابلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں
روزی پاتے ہیں۔(سورۃآل عمران ۱۷۰)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا’’جنت میں داخل ہونے کے بعدکوئی شخص دنیامیں
لوٹناپسندنہیں کرتااورزمین پراس کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔سوائے شہیدکے بے شک
وہ تمناکرتاہے۔کہ وہ واپس لوٹ آئے اوردس بارشہیدکیاجائے اس کرامت کیوجہ سے
جووہ دیکھتاہے۔(مسلم شریف)جب عام شہیدکااتنامقام ومرتبہ بلندہے تو’’غزوہ
ہند‘‘میں توشہیدہونیوالے جنہیں سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے’’افضل
الشہداء ‘‘ قراردیاہے ۔پھران کے مقام ومرتبے کااندازہ لگاناممکن
نہیں۔’’غزوہ ہند‘‘میں شرکت کرنیوالوں کے لئے یہ بشارت بھی موجودہے کہ اﷲ
تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کومعاف فرمادیگا۔جب ایک عام آدمی توبہ کرتاہے
تواﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کونیکیوں میں بدل دیتاہے۔’’غزوہ ہند‘‘میں
شہیدہونیوالے ’’افضل الشہداء‘‘کے مقا م ومرتبے پرفائرہوں گے ۔اس غزوہ میں
شرکت کرنیوالوں کے گناہ معاف کردیے جائیں ۔ہاں اگرکوئی شخص غزوہ میں شرکت
کے باوجودشہادت نہیں پاسکااورغازی بن کرگھرکولوٹاتواﷲ تعالیٰ اس کوبھی جہنم
کی آگ سے محفوظ ومامون فرمادے گا۔
حضرت امام قرطبی حذیفہ بن یمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا’’سندھ کی خرابی ہندسے ہے
اورہندکی چین سے ہے۔(السنن الواردۃ فی الفتن،ج۲،النہایہ فی الفتن
والملاحم،التذکرۃ)
تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت سلطان محمودغزنوی رحمۃ اﷲ علیہ
نے اپنے اوپر’’غزوہ ہند‘‘کوفرض کیاہواتھا۔امام ذہبیؒ فرماتے ہیں۔
’’اورسلطان ؒنے اپنے اوپرہرسال’’ہند‘‘پرحملے کوفرض کیاہواتھا۔یہاں تک کہ
انہوں نے’’ہند‘‘کاایک وسیع حصہ فتح کرلیا اور معروف ’’بت ‘‘کوتوڑاجس
کانام’’سومنات‘‘تھا۔کیونکہ’’ اہل ہند‘‘کایہ اعتقادتھا۔کہ یہ زندہ کرتاہے
اورمارتاہے۔اسکی زیارت کے لئے لوگ مختلف شہروں سے آتے ۔اسی وجہ سے بہت سی
اقوام آزمائش کاشکارہوئیں۔جن کی تعداداﷲ تعالیٰ بہترجانتاہے۔اورکوئی بادشاہ
اورمحتشم شخص ایساباقی نہ بچاتھاجواپنے نفیس مال سے اس پرقربانی نہ
دیتاہو۔(تاریخ اسلام،جلد۴،صفحہ۳۶)
حضرت سیدناعیسی ابن مریم علیہماالسلام اﷲ تعالیٰ کے نبی اوررسول ہیں۔جنہیں
زندہ آسمانوں پراٹھالیاگیاہے۔اورقیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیامیں
دوبارہ تشریف لائیں گے ۔اورخاتم النبین صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی شریعت کے
مطابق عدل فرمائینگے۔
حضرت امام حمادبن نعیمؒ روایت فرماتے ہیں۔حضرت کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر’’ہندوستان‘‘ کی طرف بھیجے
گااور وہ اسے فتح کرینگے۔پس وہ سرزمین ’’ہند‘‘کوروندیں گے ۔اوراسکاخزانہ
حاصل کرینگے۔وہ بادشاہ اس خزانے کو’’بیت المقدس‘‘ کازیوربنادے گا۔اورلشکراس
بادشاہ کے پاس’’ہند‘‘کے بادشاہوں کوجکڑکرلائیں گے ۔اوراس کے لئے جومشرق
اورمغرب کے درمیان ہے فتح کردیاجائے گا۔اوران کاقیام دجال کے نکلنے
تک’’ہند‘‘میں ہوگا۔(الفتن ۱۱۴۹)
حضرت صفوان بن عمرورضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اورحکم کے لحاظ سے مرفوع
درجہ میں ہے۔کہتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے بتایاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے فرمایا’’میری امت کے کچھ لوگ ہندوستان سے جنگ کریں گے اﷲ
تعالیٰ ان کوفتح عطافرمائے گا۔حتیٰ کہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کوبیڑیوں
میں جکڑے ہوئے پائیں گے۔اﷲ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا۔جب وہ شام کی طرف
پلٹیں گے توعیسیٰ ابن مریم علہیماالسلام کووہاں موجودپائیں گے۔(الفتن،غزوہ
ہند)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن سرکارمدینہ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے ’’غزوہ ہند‘‘کاذکرفرمایا۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
ارشادفرمایا’’ایک لشکرتمہارے لئے ضرور’’ہند‘‘پرحملہ کریگا۔اﷲ تعالیٰ ان
کوفتح عطافرمائے گا۔یہاں تک کہ وہ ’’سندھ‘‘کے بادشاہوں کوزنجیروں میں
جکڑکرلائیں گے۔اﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کومعاف فرمائے گا۔جب وہ واپس لوٹیں
گے جب ان کالوٹناہوگا۔تو وہ ’’عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ‘‘کوشام میں
پائیں گے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا’’پس اگرمیں نے وہ غزوہ
پایاتواپنا اوراپنے آباؤاجدادسے میرث میں ملاہوامال بیچ دوں گا۔اورا س غزوہ
میں شریک ہوں گا۔پس جب اﷲ تعالیٰ ہمیں فتح عطافرمائیگاتوہم واپس لوٹیں
گے۔تومیں آگ سے آزاد’’ابوہریرہ‘‘ہوں گا۔وہ لشکرشام آئے گاتومسیح ابن مریم
علیہماالسلام سے ملاقات کریگا۔ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم! اس وقت
میری شدیدخواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ کی
صحبت کا شرف حاصل ہے۔ (راوی کہتاہے کہ) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم یہ
سن کر مسکرائے اورارشادفرمایا’’آخرت کی جنت ’’جنت اولیٰ‘‘کیطرح نہیں ہے۔ان
پرہیبت رکھی جائے گی۔جیسے موت کی ہیبت ہوتی ہے۔وہ لوگوں کے چہروں پرہاتھ
پھیریں گے۔اورانہیں جنت کے درجات کی بشارت دیں گے۔(مسندابن راھویہ،ج۱،ص۴۹۶)
احادیث ِغزوۂ ہند میں امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں حضرت ابوہریرہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت امام ابواسحق فزاری کا
قول ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو ابن داؤد سے اپنی اس خواہش
کا اظہارکیا ’’کاش کہ مجھے رومیوں کے ساتھ جنگ و جہاد میں گذری ساری عمر کے
بدلہ میں ہندوستان کے خلاف، نبوی پیشین گوئی کے مطابق، جہادی مہم میں حصہ
لینے کا موقع مل جاتا‘‘۔امام ابو اسحق فزاری علیہ الرحمہ کی اس تمنا (کے
پیش نظران )کی عظمت کا اندازہ ان کے مناقب میں، حضرت فضیل بن عیاض علیہ
الرحمہ کے اس خواب سے لگایا جاسکتا ہے جو امام ذہبی علیہ الرحمہ نے سیر
اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا ’’نبی کریم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم !کی مجلس لگی ہوئی ہے اور آپ کے پہلو میں ایک نشست خالی ہے
تو میں نے ایسے موقع کو نادر اور غنیمت سمجھتے ہوئے اس پربیٹھنے کی کوشش کی
تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے یہ کہتے ہوئے منع فرمایا کہ یہ نشست
خالی نہیں بلکہ ابواسحق فزاری علیہ الرحمہ کے لئے مخصوص ہے‘‘۔(مسند
احمد،مسند بشیر بن سحیم حثعمی، المستدرک علی الصحیحین ، حاکم نے اس حدیث کو
صحیح قرار دیا ہے، فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ کا خواب امام ذہبی علیہ الرحمہ
نے سیراعلام النبلاء۸،۲۴۵۔۳۴۵ میں نقل کیا ہے)۔
درج بالااحادیث مبارکہ کاہم بغورمطالعہ کریں تویہ بات روزروشن کی طرح عیاں
ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی امت کو
’’سندھ‘‘اور’’ہند‘‘کے فتح ہونے کی بشارت عطافرمائی ہے۔قبلہ اوّل بیت المقدس
اس وقت یہودوہنودکے قبضہ میں ہے۔یہودوہنودنے مسلمانوں کے قبلہ اوّل
کوبندکیاہواہے۔آج مسلمان قبلہ اوّل بیت المقدس کی آزادی کے لئے دعائیں
کررہے ہیں۔لیکن یہ قبلہ اوّل بیت المقدس ’’غزوہ ہند‘‘کی تکمیل سے پہلے
آزادہوکررہیگا۔جہاں پرسیدناامام مہدی علیہ السلام کی حکومت ہوگی
۔جو’’ہند‘‘کوفتح کرنے کے لئے اپنالشکربھیجیں گے۔جس سے’’غزوہ ہند‘‘کی تکمیل
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’اورنہ سستی کرواورنہ غم کھاؤتم ہی غالب آؤگے
اگرایمان رکھتے ہو‘‘۔
معززقارئین کرام !یہودوہنودجوازل سے دین ِ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن آرہے
ہیں ۔دشمن ہمیشہ دشمن ہوتاہے ۔ہم دشمن سے لڑنے کی بجائے آپس میں لڑنے لگ
گئے ہیں۔اسوقت کفرمتحدہوکرعالم اسلام کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اسطرح
جمع ہے۔جسطرح پروانے شمع کے گرداوربھوکے دسترخوان پرجمع ہوتے ہیں۔جسطرح
یہودوہنودمتحدہوکرہمارے خلاف سازشیں کررہے ہیں ۔اسی طرح ہم اﷲ اوراسکے رسول
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے احکامات پرعمل پیراہوکران کی ہرتدبیرکوناکام
بنائیں۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’بے شک کافراپناساداؤں(سازش،تدبیر)چلتے ہیں اورمیں
اپنی خفیہ تدبیرفرماتاہوں‘‘۔(سورۃ الطارق)
اس وقت عالم اسلام بالخصوص برما،فلسطین،کشمیرکے مسلمانوں پرظلم وستم کے
پہاڑڈھائے جارہے ہیں۔ہماری ماؤں ،بہنوں،بیٹیوں کی عزتوں کوپامال
کیاجارہاہے۔ دشمن قوتیں جفاکرتے کرتے مسلمانوں کوگاجر،مولی کی طرح کاٹ رہی
ہیں۔مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے نصاب تعلیم میں ردبدل کرکے جہادکے متعلق
آیات نکالی جارہی ہیں۔پھربھی ہمارے مراسم انہی ظالموں کے ساتھ وابسطہ ہیں۔
اگراسوقت ہم دین اسلام اورمسلمانوں کی مددکے لئے نہ نکلے توکب نکلیں گے۔اس
بات کاقرآن گواہ ہے۔کہ اگرہم نے مددنہ کی تواﷲ تعالیٰ ایسے قوم کولے آئے
گاجواﷲ سے محبت کرتے ہوں گے اوراﷲ ان سے محبت کرتاہوگا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’اے ایمان والو!تم میں جوکوئی اپنے دین سے پھرے
گا۔توعنقریب اﷲ تعالیٰ ایسے لوگ لائے گا۔کہ وہ اﷲ کے پیارے اوراﷲ ان
کاپیارا،مسلمانوں پرنرم اورکافروں پرسخت اﷲ کی راہ میں لڑیں گے ۔اورکسی
ملامت کرنیوالے کی ملامت کااندیشہ نہ کریں گے۔یہ اﷲ کافضل ہے جسے چاہے
دے۔اوراﷲ وسعت والاعلم والاہے۔‘‘۔(المائدہ۵۴)
ضرورت اس امرکی ہے کہ اہل ایمان متحدہوکراپنی فروعی اختلافات کوبالائے طاق
رکھتے ہوئے دنیاکی محبت اورموت کے خوف کودل سے نکال لیں۔ اورآپس میں
متحدہوجائیں۔ملک وقوم کی خاطرسینہ سپرہوکریہودی لابی طاغوتی قوتوں کویہ
پیغام دیں کہ پاکستان بنایاتھا پاکستان بچائیں گے ۔اورجو ہمارے وطن کی طرف
میلی نگاہ سے دیکھے گااس کواینٹ کاجواب پتھرسے دیاجائیگا۔ کیونکہ ہمارے
بزرگوں نے پاکستان کی بنیاد اینٹ گارے سے نہیں بلکہ اپنے خون اور ہڈیوں سے
رکھی تھی اور یہ ملک خداداد پاکستان کلمہ لا الہ الااﷲ کے نعرے پر حاصل کیا
گیا تھا اور یہی نظریہ پاکستان ہے۔پاکستان امت مسلمہ کی آبرواورحرم کی
نگہبانی کاامین ہے۔مسلمانوں کاآخری قلعہ اورآخری چٹان ہے۔اس لئے ہم اس کی
حفاظت کریں اوراس سے محبت کریں۔ آج ہمارے دشمن اس نظریہ کو ملیا میٹ کرنے
کے ایجنڈے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس وقت تقاضا دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بات کرنے کا ہے نا کہ اس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کا۔ جب تک ہم اپنے
اختلافات بھلا کر باہم متحد ہوکر جدوجہد نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے دشمن ہم
پر مسلط بھی رہیں گے اور ہماری بنیادیں بھی کھوکھلی کرتے رہیں گے۔علامہ
اقبال علیہ الرحمہ نے کیاخوب کہا۔
فضائے بدرپیداکر، فرشتے تیری نصرت کو
اُترسکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطاراب بھی
قوت عشق سے ہرپست کوبالاکردے
دہرمیں اسمِ محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلمسے اُجالاکردے
یہ فاقہ کش جوموت سے ڈرتانہیں ذرا
روحِ محمدصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اس کے بدن سے نکال دو
اﷲ پاک وطن عزیزپاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ملک پاکستان میں نظام
مصطفیصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلمبرپاکرنیوالاحکمران عطا فرمائے۔ مسلمانوں کوآپس
میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔کفارومشرکین،منافقین، حاسدین کامنہ
کالافرمائے ۔ حضورصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے غلاموں کادونوں جہانوں میں بول
بالافرمائے ۔وماعلیناالاالبلاغ |