دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی حق تلفی
ہو رہی ہو تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آجاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے
ادارے بڑی سرعت کے ساتھ متحرک ہوکر انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ایک معمول بنتا جارہا ہے اور کچھ
ہونا باقی رہ گیا تھا جو آخر یہ بھی ہوگیا کبھی کبھی خیال آتا ہے ہمارا
معاشرہ درندگی کی اُس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں حیوانیت بھی شرما جائے۔ کچھ
عرصہ قبل خواتین کے جسموں کو قبر میں سے نکال کر اُن سے زیادتی کرنے کے
واقعہ سامنے آیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس سے میرا دل دہل گیا۔ کئی دن تک ہاتھ
قلم کا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہی نہ رہے اور ذہن عجیب انتشار کا شکار رہا کہ
آخر وہ کونسی بھوک ہے جو ہمارے معاشرے کو مردار کھانے پر لے آئی ہے۔ کچھ
دنوں بعد ہی قانون کی بے بسی نے یہ راز کھولا کہ اُن مجرموں کے لیے ہمارے
قانون میں کوئی سزا ہی نہیں لہٰذا چند ماہ قید کے بعد انھیں باعزت بری
کردیا گیا۔ یہ واقعہ ابھی دل و دماغ سے محو نہیں ہوا تھاکہ ایک اور دل دہلا
دینے والا واقعہ سامنے آگیا۔ میلسی کے قبرستان سے تین سالہ بچی اور دو سالہ
بچے کی قبریں کھود کر پراسرار طور پر لاشیں نکال لی گئیں۔ قبروں کے باہر
کفن موجود تھے جو کہ بالکل صحیح حالت میں تھے لہٰذا کسی جنگلی درندے کی اس
حرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو کسی انسان کا کام ہی ہوسکتا ہے، ہوس
سے بھرے انسانوں کا اپنے اوپر مسلمان ہونے کا لیبل لگاتے ان پاکستانی
مسلمانوں کا جو انسانیت کی سطح سے بھی نیچے گرگئے ہیں۔ ظاہر ہے جب قانون کم
زور ہوجائے تو یہی کچھ ہوتا ہے جو اب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
معمولی نوعیت کی ناچاقی کی بنیاد پر قتل جیسا انتہائی سنگین قدم اُٹھانا۔
اولاد کا ماں باپ کو مار دینا۔ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل
کردینا۔ قبرستان میں خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا۔ یہ تمام واقعات
انتہائی افسوس ناک مگر تلخ حقیقت ہیں جو ہمارے معاشرے کی اخلاقی بدحالی کا
ثبوت ہے۔ معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے، اس میں بیمار ذہنوں کی پیداوار ایک
لازمی امر ہے۔ لکھنے والے بہت ہیں، تلقین کرنے والے بہت ہیں، لیکن مسئلے کی
اصل جڑ تک اب تک ہم پہنچنے سے قاصر ہیں۔
کسی بھی ریاست میں قانون کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ اس کی بنیاد پر
افراد کو یکساں حقوق و انصاف ملتا ہے، وہیں اس کی بنیاد پر ریاستی امور اور
معاملات میں ایک نظم قائم کرکے اس کا اطلاق ریاست کے تمام باسیوں کے لیے
ترقی خوش حالی اور فلاح کا سبب بنتا ہے۔ نسل و زبان، رنگ اور مذہب اور
نظریات کے تمام تر اختلافات کے باوجود ریاست کے تمام افراد امن وسلامتی اور
یگانگت کے ساتھ قانون پر عمل پیرا ہونا اپنے لیے مفید خیال کرتے ہیں، جب کہ
اس کے بالکل برعکس قانون کی عدم موجودگی یا قانون پر عمل پیر ا نہ ہونے کی
صورت میں لاقانونیت، بربریت، استحصال اور ناانصافی ظلم کا وہ ماحول جنم لے
لیتا ہے کہ جو ریاست کو انارکی، انتشار اور بربادی سے دوچار کردیتا ہے اور
پھر معاشرہ میں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کی عملی تصویر دکھائی دینے لگتا
ہے۔
یہی حالات راؤ انوار جیسے پولیس افسران کو پیدا کرتے ہیں اور پھر یہ بدمست
ہاتھی اپنے پیروں تلے قانون کو روند کر قانون کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ ایسے
ہی پولیس افسران ہیں جن پر نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دینے کے
الزام عاید ہوتے ہیں۔ اور یوں ہی نقیب اﷲ محسود کے لواحقین انصاف کے لیے
جوتیاں چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔ اب وہ نقیب اﷲ محسود ہو، مقصود ہو، عمار یا
انتظار۔ نام مختلف لیکن کالے قانون کے ہاتھوں ایسے کتنے ہی پسے ہوئے لوگ
اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کہی زینب کو مسلا جاتا ہے تو کہی عاصمہ رانی
کو رشتے سے انکار پر قتل کردیا جاتا ہے۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ چارسدہ
کے علاقے میں محلے کے دو اوباش نوجوان گھر میں گھس کر لڑکی سے زیادتی کی
کوشش کرتے ہیں اور اسے برہنہ کرکے نازیبا ویڈیو بھی بناتے ہیں۔ خیبر پختون
خوا کے شہر مردان کے علاقے خزانہ ڈھیری میں ماموں نے 7 سالہ بھانجے کو جنسی
تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایف آئی اے نے مالاکنڈ میں کارروائی کرتے ہوئے فحش
مواد کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کرنے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔
ملزمان نے سیکڑوں فیس بک آئی ڈی رکھنے کا اعتراف کرلیا۔ کوئٹہ کے علاقے کلی
اسماعیل میں 13 سالہ طیبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے رحمی کے ساتھ
قتل کردیا گیا۔ معصوم طیبہ کو اس کے اپنے ہی بھائی نے زیادتی کرکے قتل کیا
جس نے اپنے اس گھناؤنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ مردان کے نواحی علاقے
خرکی میں تیسری جماعت کی بچی کے ساتھ اسکول سے گھر آتے وقت زیادتی کا واقعہ
پیش آیا تھا، جب کہ اس سے قبل مردان میں ہی ننھی عاصمہ کو بھی زیادتی کا
نشانہ بناکر قتل کردیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں 12 سالہ فلپائنی بچے کو اس
کے معلم نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔
یہ وہ واقعات ہیں جنھوں نے مجھ سے میرے لکھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ قلم
لہو لہو ہے۔ لفظوں کی حرمت کھوجانے کا احساس تنگ کرتا ہے۔ ہم نے اگر اب بھی
اپنے گھر میں اپنے گھروں کی چاردیواری میں تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل شروع
نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ فتنے ہمارے گھروں کو بھی دبوچ لیں گے۔ ساتھ
ہی اگر اس سلسلے کو روکنا ہے تو قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر
ہر شخص قانون بنائے اور اسے چلانے کی کوشش کرے تو افراتفری پھیل جائے گی۔
ایسے حالات کے لیے ’جنگل کا قانون‘ کی اصطلاح ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے
والے کو حکومت گرفتار کرتی ہے اور قانون کے مطابق سزا دیتی ہے، نہ کہ سزا
دینے کے بجائے قانون کی راہ میں ہی آسان راستے فراہم کریں۔ یہ عمل ملک کے
وقار کو نہ صرف مجروح کررہا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں میں ایک بے یقینی
کی کیفیت کو جنم دے رہا ہے۔ ایک زخم بھرتا نہیں کے پے در پے سینے پر وار لگ
رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے حکم راں اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکیں،
آ نے والے الیکشن کی گہماگہمی میں کھو جانے والے یہ خون آلود اور گھناؤنے
واقعات آنے والے وقت میں پاکستانی معاشرے کی بدحالی کا احوال چیخ چیخ کر
سنا رہے ہیں۔ حکومتی پالیسیاں اور امن و امان کی صورت حال براہ راست ذہنوں
کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں درست سمت کا تعین نہ کرنا او راس مسئلے
کے تدارک میں غفلت جرم ہے۔ |