اگلے دن ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا۔ دو نوجوان ایک
عورت اور بچے پہ تشدد کر رہے تھے جبکہ ایک جوان لڑکی گھبرائی ہوئی یہ سب
دیکھ بھی رہی تھی اور الٹے قدموں فرار کی کوشش بھی کر رہی تھی لیکن اس کی
یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور ایک نوجوان نے عورت کو چھوڑ کے اسے جا پکڑا۔
عورت زمین پہ بیٹھی سر پیٹنے لگی چلانے لگی لیکن ان نوجوانوں نے کوئی توجہ
نہ دی۔ لڑکی کو زبردستی ٹریکٹر پہ بٹھایا اور لے نکلے۔ یہ ساری کارروائی
کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے والا کون تھا یہ تو معلوم نہ ہوا لیکن غالب
امکان یہی ہے کہ ان نوجوانوں کا ہی ساتھی تھا جو اطمینان سے یہ سب ریکارڈ
کرتا رہا۔ اس واقعہ کی جگہ تھرپارکر قرار دی جا رہی ہے۔ کوئی اور جگہ بھی
ہو تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بس علاقہ کا نام تبدیل ہوتا ہے حالات ایک سے
ہی رہتے ہیں۔
طاقت والوں نے اس خطہ زمین پہ بالعموم اور پاک و ہند میں بالخصوص ایسی
روایتوں کو پڑوان چڑھایا ہے اور عہد حاضر میں بھی ماضی کی روایت زندہ ہے۔
ہمارے دیہی علاقوں میں ایک ایسا طاقتور کردار ضرور موجود ہوتا ہے جس کا کہا
اٹل ہوتا ہے۔ وہ جو عمل کرتا ہے اس پہ کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا اور اس سے
ٹکرانا تو دور اس کے راستہ سے گزر جانے والا چلنے سے معذور ہو جاتا ہے۔
ایسے شخص کو وڈیرہ، سائیں، ملک، خان، چوہدری، نواب یا کوئی بھی نام دے دیں۔
سب ایک ہی اصول پہ کاربند رہتے ہیں جو کہ طاقت کہلاتا ہے۔
حقیقی زندگی میں شاہلا کوٹ کا چوہدری کسی کو نہیں ملے گا کہ جو سب طاقت
ہونے کے باوجود ضمیر کی عدالت میں سزاوار ٹھہرے گا اور اپنے بیٹے کے ہاتھوں
ہونے والے قتل کی معافی کے لیے گلی گلی بھٹکے گا۔ اپنی پگ پرائمری اسکول کے
ماسٹر کے قدموں میں رکھ دے گا۔ ایسے چوہدری افسانوں میں ہی ملتے ہیں۔ حقیقی
زندگی کا چوہدری اپنی پگ کبھی نیچے نہیں آنے دیتا۔ وہ اپنے دبدبہ اور طاقت
کو قائم رکھنے کے لیے ہر حد سے گزر جانا گوارا کر لے گا لیکن جھکے گا نہیں۔
اگر طاقت کی علامت یہ لوگ جھکنے والے ہوتے تو وطن عزیز مساوات کے حوالے سے
دنیا میں معیار نہ بن جاتا۔ خیر ان طاقت والوں کے مشاغل میں دو چار چیزیں
ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ایک وحشیوں کی جماعت تیار کرنا جن سے کسی وقت کوئی
بھی کام لیا جا سکے۔ کسی کو خالق حقیقی کے پاس بھیجنے کا ارادہ ہو یا کسی
کے گھر بار کاروبار کو آگ دکھانی ہو۔ مخالفین پہ وار کرنا ہو یا شریکوں کو
راہ سے ہٹانا ہو۔ یہ سب کام کرنے کے لیے ایک جماعت ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔
قانون کے بھی یہاں پر جلتے ہیں۔ مجال ہے کوئی چوہدری کے ڈیروں کی جانب
دیکھے…… اسی طرح ایک اور مشغلہ عیاش فطرت ہونا ہے۔ اب کس کی عیاشی کس سطح
کی ہے یہ الگ سوال ہے۔ کمیوں کے پاس کھانے کے دانے نہیں اور چوہدری کے کتے
بھی مربے کھائیں۔ یہ بھی عیاشی کی قسم ہے اور دوسروں کی عزت تار تار کرنا
بھی عیاشی ہے۔ سو جس طاقت ور کو جو عیاشی مرغوب ہو وہ وہی اختیار کرتا ہے۔
لیکن یہ طے ہے کہ طاقت ور عیاشی کے بنا نہیں رہ سکتا۔ یہ جو لڑکی اٹھائی
گئی اور جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے یہ بھی ایک طاقت ور کی عیاشی کا طریقہ
کار ہے۔ اٹھانے والوں نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے اور اب انھیں اختیار مل
گیا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ بعد میں لڑکی نازک حالت میں ملے یا مری ہوئی۔
اور یا پھر چوہدری کے ویڑے میں ہی بیٹھی رہے۔ اس پہ کوئی کارروائی نہ ہو
سکے گی۔ کیونکہ طاقتور دوسرے طاقتوروں کے ساتھ سب معاملات طے کر لے گا۔
سوال اٹھتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تھمے گا۔ تو میرے قارئین شاید میری بات سے غم
و غصہ کا شکار ہو جائیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ سلسلہ نہیں تھمے گا۔ اور کم
از کم موجودہ نسل کے گزر جانے تک تو یہ سلسلہ نہیں گزرنے والا۔ ہم بحیثیت
قوم ایک گاؤں کے کمی ہیں اور سب طاقت والے ہماری عزتیں بھی لوٹ رہے ہیں،
ہمارا استحصال بھی کر رہے ہیں اور ہماری زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔
ہمارا قانون جب کسی قاتل وڈیرے کو آزادی کا پروانہ تھماتا ہے اور مقتول کے
لواحقین اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے معاف کیا تو یہ ظاہر کرتا
ہے کہ طاقتور کا بال بھی بیکا نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی قانون کا پاسدار طاقت
ور بن جاتا ہے اور اپنی طاقت کے نشے میں معصوم انسان کو قتل کر دیتا ہے اور
قانون کا ہوتے ہوئے قانون کی گرفت میں نہیں آتا تو معلوم ہوتا ہے کہ طاقت
کے معانی کیا ہیں۔ مذہب کے نام پہ حاصل کردہ بڑی گدی پہ بیٹھا شخص جب اپنی
طاقت دکھانے پہ آتا ہے تو پورا نظام مفلوج کر دیتا ہے۔ کروڑوں روپے بیٹے کی
شادی پہ خرچ کرنے والے مذہبی طاقتور سے کوئی سوال نہیں کر سکتا کہ آپ کے
پاس اتنا مال آیا تو آیا کیسے…… بیرون ملک بڑی بڑی سرمایہ کاری کرنے اور
جزیرے خریدنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے خاکی چولے نے آپ کو کہاں
کہاں سے گنجائش فراہم کی۔ پرائم ٹائم ٹرانسمیشن میں بیٹھ کے جھوٹ کو فروغ
دینے والوں کے خصوصی ذرائع پہ کبھی سوال نہیں اٹھتا۔ کیونکہ یہ سب طاقت
والے ہیں۔ یہ جو بڑے ٹی وی چینلز پہ گھنٹوں برائے راست پروگرام نشر کیے
جاتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھا کے مرغوں کی لڑائی کی منظر
کشی کی جاتی ہے۔ دراصل یہ سب اسی طاقت کے کھیل ہیں۔ ان پروگرامز میں بیٹھے
لوگوں (بشمول میزبان) کا بھی طاقتوروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ پروگرامز ان
ڈرائنگ رومز کا ڈیجیٹل ورژن ہیں جن میں مختلف علاقوں کے چوہدری بیٹھ کے
گپیں ہانکتے ہیں اور اپنی کارستانی بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں۔ جو چھوٹے
موٹے چینلز ہیں ان کے شوز کی صورت حال چوراہوں کی سی ہے جہاں گامے شیدے خود
کو سقراط سمجھ کے بیٹھے ہیں۔ رہے اہل دانش تو ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے
کیونکہ ان کی جھولی میں جو سکے ہیں انھیں سرمایہ کار اور طاقتوروں نے مل کر
کھوٹا قرار دے دیا ہے۔ سو ایسے لوگ کبھی کہیں سے گزرتے آواز لگا دیتے ہیں
جو کسی کسی کان سے ٹکرا بھی جاتی ہے لیکن انھیں باقاعدہ سنا نہیں جاتا۔
شاید اس سے طاقتور کو خطرہ ہے۔ وہ جانتا ہے اگر دانش کو راستہ دے دیا گیا
تو آہستہ آہستہ ہی سہی ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی طاقت کا سحر ٹوٹے گا۔
سو طاقت ور نے بنیادیں ڈالنا ہی روک رکھا ہے۔ عمارت تو بعد کی بات ہے۔ |